امی کے انتقال پر ابو (انور مسعود) کے نام خط۔ ۔ ۔


پیارے ابو

لاکھ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے وہ بات نہیں ہو رہی جو آپ سے کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کے پاس گھنٹوں گزارتی ہوں۔ مگر زباں پر رکھے الفاظ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ امی میری اس عادت سے واقف تھیں کہ جب محبت، خوشی یا لاڈ کا اظہار کرنا ہوتا تو میں ہمیشہ کھل کر کرتی تھی۔ ہنستی، مسکراتی سارے گھر میں قہقہے لگاتی اورسارے گھر کو سر پر اٹھا لیا کرتی تھی۔ امی کا کہنا یہ بھی درست تھا کہ مشکل وقت میں لینہ بہت ہمت سے کام لیتی ہے۔ امی کی وفات پر بھی ایسا ہی ہوا۔ جیسے ہی مجھے ڈاکٹر نے امی کے انتقال کی خبر دی تو کچھ دیر میں اس کو تکتی رہی کہ ابھی وہ اپنی بات کی تردید کر دے گا۔ لیکن کانوں میں پڑتی بین کرتی آوازوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ یہ خبر سچ ہے۔

ابو رونے کی آوازوں سے مجھے ہمیشہ سے خوف آتا ہے۔ اس لمحے بھی میں ڈر سی گئی تھی لیکن خوف میں میری سب سے بڑی پناہ تو اب تھی ہی نہیں تو میں نے اپنے آنسو کہیں اندر روک دیے۔ ہر اس احساس پر پہرہ لگا دیا جس سے میری ہمت کی شکستگی ظاہر ہونے کا کوئی بھی امکان تھا۔ مجھے بعد میں لوگوں نے بتایا کہ اس وقت میں ہر ایک کو تسلی دے رہی تھی۔ کبھی کسی کا کندھا سہلاتی، کبھی کسی کو سینے سے لگاتی۔ کبھی کسی روتے کو صبر کی تاکید کرتی۔ سچ بتاؤں تو مجھے یاد نہیں پڑتا۔ وہ وقت مجھ پر ایسے گزرا تھا جیسے گہری دھند میں راستہ کھو جائے۔ پتہ نہیں میں دوسروں کو تسلی دے رہی تھی یا اپنے آپ کو سہارا۔ پر لوگ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے۔

ابو، ایک اور راز کی بات بتاؤں، مجھے مردہ خانے کے نام سے بھی ڈر لگتا ہے۔ لیکن اس رات امی کو خود مردہ خانے تک چھوڑ کر آئی۔ اور واپسی پر بس یہ خیال ستائے چلا جا رہا تھا کہ امی کے پاؤں سردیوں میں گرم موزوں میں بھی ٹھنڈے رہا کرتے تھے اور آج امی کو برف خانے میں رات گزارنی ہے۔ گھر پہنچی تو بڑا دل کڑا کر کے آپ سے ملی۔ آپ کو روتے دیکھا تو دھند اور گہری ہو گئی۔ شاید مجھے آپ سے لپٹ کر چیخنا چاہیے تھا لیکن میں بس ایسے ہی گم صم کھڑی رہی۔

ابو، لوگ مجھے بار بار کہہ رہے تھے کہ تمہیں رو لینا چاہیے۔ اب میں ان کو کیسے سمجھاتی کہ جس بات پر یقین ہی نہ آئے اس پر رویا کیسے جا سکتا ہے۔ میرا دل کیا کہ آپ ان لوگوں کو یہ بتا دیں کہ لینہ کو جس دن یقین آئے گا وہ سارے رکے آنسو بہا دے گی۔

اب میں چپ ہوں۔ یہ چپ ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ نبھانے آ جاتی ہے۔ آنٹی عزت گئین، صائمہ گئی۔ تب بھی میں کتنے دن اس چپ کے ساتھ جیتی رہی۔ لیکن یہ چپ مجھے اندر سے کھاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے میرا وجود دیمک کھائے درخت کی طرح ہے۔ اندر ر سے بالکل کھوکھلا۔ کھوکھلے درختوں میں سے ہوا گزرتی ہے تو ایک عجیب سی آواز آتی ہے میں سانس لیتی ہوں تو مجھے بھی یہی آواز سنائی دیتی ہے۔ چپ میں آواز، کیسی عجیب سی بات ہے۔ ہے نا۔

ابو میں آپ سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن کہہ نہیں سکتی اس لیے ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑ کر لکھ رہی ہوں۔ میں روز آپ کے پاس گھنٹوں گزارتی ہوں، اب تو ہم بہت سی باتیں کرتے ہیں لیکن یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ اب جو مجھ پر گزر رہی ہے میں نے اس کی بات آپ سے نہیں کی۔ میں اب بھی آپ سے لپٹ کر نہیں روئی۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے آپ کو تسلی دینے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ بس ادھر ادھر کی بیکار باتیں۔

اب گھر میں ہر وقت کتنے لوگ ہوتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ کائنات کے خلا جیسی تنہائی ہے۔ خلا جیسی تاریکی ہے۔ اس تاریکی میں کتنی دفعہ میں نے ماں کو آواز دی لیکن خلا میں شاید کوئی آواز سن نہیں سکتا۔ آپ شاید اس خلا میں نہ ہوں۔ ابو، کیا آپ امی کو آواز دے سکتے ہیں۔ امی آپ کی آواز پر تو فوراً آ جاتی تھیں۔ پلیز، ایک دفعہ آواز دے کر تو دیکھیں۔

میرا بہت دفعہ دل کرتا ہے کہ آپ سے کہوں کہ آپ فکر مت کیجئے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم سب خواب سے جاگ جائیں گے۔ لیکن یہ کمبخت بھیانک خواب ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اب تا عمر ہمیں اس ہولناک حقیقت کے ساتھ ہی جینا ہو گا۔ ابو اگر میرے غموں کو ترازو میں تولا جا سکتا تو زندگی کے سارے غموں کا بھار اس غم کے آگے ہلکا پڑ جائے گا۔ لیکن میں آپ کا سوچتی ہوں تو یہ غم چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ آپ کی تکلیف کی انتہا کا تصور کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں۔ پل پل کا ساتھ، ہر قدم پر ایک دوجے کا سہارا، دکھ سکھ میں دلجوئی۔ نصف صدی سے زائد کے اس سفر میں آپ دونوں نے ایک دوسرے کو اتنا پڑھا تھا کہ ایک دوسرے کی زندگی کا ہر صفحہ، ہر تحریر آپ دونوں کو ازبر تھی۔

دیکھیے، رفاقت کے بھی کیسے راز کھلے۔ ہم تو اسے پچپن سال کا ساتھ سمجھ رہے تھے لیکن پھپھو نے وہ پانچ سال بھی جوڑ دیے جب وہ آپ دونوں کے بیچ ڈاکیے کا کام کرتی تھیں۔ ساٹھ سال ایک دوسرے کے لیے گزارنے کے بعد جدائی کی اذیت کتنی شدید ہوتی ہوگی اس کی کا اندازہ کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں۔ آپ کو بچے کی طرح روتا دیکھتی ہوں تو دل کرتا ہے کہ کاش میں آپ کو بچوں کی طرح جھوٹے دلاسے دے کر بہلا سکوں۔

امی آپ کی جن چیزوں کو سنبھال کر رکھ گئی ہیں ان کو تلاش کرنے سے آپ کو روک سکوں یہ کہہ کر کہ امی آپ کو آ کر خود دے دیں گئیں۔ امی جس فیروزی سوٹ میں آپ کو سب سے اچھی لگتیں تھیں کاش اس سوٹ کو دیکھ کر آپ بلک بلک کر نہ روتے۔ کاش اس سوٹ کو آپ پھر امی کو پہنا دیکھ سکتے۔ اور پھر ہر بار کی طرح یہ ہی کہتے کہ صدیقہ تم اس سوٹ میں بہت پیاری لگتی ہو۔ امی یہ سن کر تھوڑا سا شرما کر مسکرا سکتیں۔ کاش ابو آپ صبح صبح موتیے کے پھولوں کی مالا لا کر یہ کہہ سکتے کہ ”یہ دیکھو صدیقہ میں تمہارے لیے لایا ہوں“ کاش اپنے اشعار پھر سے امی کو سب سے پہلے سنا سکتے۔ تازہ اشعار پر جو داد آپ کو سب سے پہلے ملتی تھی وہ آپ پھر سن سکتے۔

کاش میں امی کی محبت بھری اس خفگی کو واپس لا سکتی جب آپ سفید جوڑے پر سالن کے داغ لگا لیا کرتے تھے۔ آپ کی شوگر کم ہو جانے کے خوف سے امی کا آپ کی جیب میں چاکلیٹ رکھنا، کاش میں ایک رسم کی طرح نبھا سکتی۔

یاد ہے ابو ایک مرتبہ آپ کی طبعیت ناساز تھی۔ اور آپ نے لاہور میں کسی سے ملنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ آپ نے اور امی نے جب کسی سے وعدہ کیا اس کو نبھایا۔ آپ اپنی طبعیت کی وجہ سے کہیں بھی امی کے بغیر نہیں جاتے تھے۔ اور نہ ہی امی آپ کو اکیلا جانے دیتیں تھیں۔ اس سے ایک دن قبل امی کی آنکھ کا آپریشن ہوا تھا۔ اس کے باوجود امی آپ کے ساتھ چلی گئی تھیں۔ ہم سب بچوں کے لاکھ روکنے کے باوجود امی نہیں رکیں۔ بس یہ ہی کہہ رہیں تھیں کہ انور صاحب میرے بغیر بہت پریشان ہو جائیں گے۔

نجانے ابو امی نے دنیا چھوڑتے یہ کیوں نہیں سوچا کہ آپ ان کے بغیر بہت پریشان ہو جائیں گے۔ کاش آپ نے اس دن امی سے یہ وعدہ لے لیا ہوتا کہ صدیقہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم مجھے چھوڑ کر کبھی بھی نہیں جاؤ گی۔ پر آپ اکثر اہم کام بھول جاتے ہیں۔ اس لیے یہ وعدہ لینا بھی بھول گئے۔

ابو ایک بات بتانا بھول گئی جب آخری دن امی سے بات ہوئی تو امی کا نمبر نہیں مل رہا تھا تو میں نے آپ کے نمبر پر فون کر کے امی سے بات کی تھی۔ امی کو کہا کہ امی آپ کا نمبر ہی نہیں ملتا۔ تو پتہ ہے ابو امی نے کیا کہا تھا انہوں نے کہا تھا کہ ”بس آج سے ابو کے موبائل پر ہی فون کیا کرو“ اس دن کے بعد سے امی نے اپنا فون نہیں اٹھایا میں بارہا ان کو فون کرنے کی کوشش کرتی ہوں مگر امی کی آواز سنائی نہیں دی۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر میں آپ کو فون کروں اور آپ سے لمبی بات کرنے کے بجائے کہوں کہ ابو امی سے بات کروا دیجئے تو کیا ہو گا۔

آپ دونوں کی بیٹی
لینہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments