نئی دنیا، پرانے مسائل اور بدلتے روزگار


ایک مدت ہوئی کہ یو ٹیوب پر احباب نے اپنے چینلز کھول کر گفتگو کا براہ راست طریقہ اپنا لیا تھا مگر محض اپنی سستی کی وجہ سے میں فاصلے پر رہا۔ کرونا وائرس کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن نے لیکن مجبور کر دیا اور اچھی طرح سمجھا بھی دیا کہ انٹر نیٹ پر ہمارے انحصار اور مصروفیت نے جہاں آئندہ پانچ برسوں میں آنا تھا وہ صرف چند دنوں میں ہو چکا۔ لہذا مزید انتظار حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

چینل شروع کرنے سے قبل جن لوازمات کا انتظام کرنا ہوتا ہے، آج کل اس میں لگا ہوں۔ سچی بات ہے۔ سیکھ رہا ہوں۔ تجربے جاری ہیں اور ابھی مزید چند دن جاری رہیں گے۔ غالب نے درست کہا تھا کہ قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں مگر سیکھنے کا عمل بھی زندگی کا ہی دوسرا نام ہے۔ سوچ کر چلا ہوں کہ کم از کم دو سال تو صرف مناسب سبسکرپشن تک پہنچنے میں ہی لگیں گے اس کے بعد ممکن ہے کچھ روٹی پانی کا سلسلہ بھی بن جائے ورنہ کائنات کے جس خالق نے آج تک رزق دیا ہے وہی آگے بھی سنبھال لے گا۔

محض چند مختصر تجرباتی شوز نے اتنا سمجھا دیا کہ مستقبل نہیں سوشل میڈیا آج کی حقیقت بن چکا ہے۔ وضاحت کرتا چلوں کہ تجرباتی سے مراد تکنیکی معاملات ہیں مثلآ گرافکس، لوگو، فونٹ اور کروما وغیرہ، مواد تو ظاہر ہے اصل ہی تھا۔

خود کی مثال پیش کر کے آپ کو بیزار کرنا مقصد نہیں بلکہ یہ آج کے موضوع کی تمہید تھی۔ ہمیں اچھا لگے یا برا، حقیقت یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے ہمیں ایک کڑے وقت کا سامنا ہے اور دور دور تک معاشی بحالی کی کوئی امید ہے اور نہ امید رکھنے کی کوئی ٹھوس وجہ۔ معاشی سرگرمیاں دھیرے دھیرے بحال ہو بھی جائیں تب بھی ان کی وہ صورت نہیں بچے گی جو پہلے تھی۔ ٹریول ایجنسیاں، سیاحت سے جڑے کاروبار، روایتی میلے، ہوٹل انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، پولٹری اور اس سے جڑے کاروبار، دودھ سبزی کی سپلائی، درآمدات و برآمدات غرض کہ ہر شعبہ زندگی بدل چکا اور ان گنت لوگ یا نوکری سے فارغ ہو چکے یا ہو جائیں گے۔ عین اسی طرح ان گنت کاروباری افراد اپنے کاروبار بند کر چکے یا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

دنیا کی بڑی آبادی غربت میں داخل ہونے پر مجبور ہے جس کا مطلب صرف وسیع پیمانے پر بے روزگاری ہی نہیں اس سے جڑے دیگر مسائل بھی ہیں مثلآ جرائم اور جرائم سے جڑے تمام طبقات یعنی پولیس، وکیل انصاف کے ادارے اور جیل۔ ذرا سوچیں کہ ایک طرف جرائم بڑھ جائیں دوسری جانب تھانوں، جیل میں پہلے ہی گنجائش نہیں، اوپر سے وائرس اور مناسب فاصلے، جو ظاہر ہے موجودہ ڈھانچے کی سکت ہی نہیں، نیا انفرا سٹرکچر بنانے کا نہ وقت ہے اور نہ سرمایہ، تو کیا نئے مسائل ہوں گے، یہ کام حکومت اور انتظامیہ کی سوچنے کا ہے مگر چھوڑیں۔

ہماری حکومت کا حال یہ ہے کہ گزشتہ دو سال طاقتور طبقات کی بھرپور حمایت کے باوجود اس سے کچھ سنبھل نہ پایا۔ اب تو واقعی آفت آ چکی یعنی ایمرجنسی کی صورت ہے، اب اس سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں؟

جان لیں کہ آپ کا مستقبل ہو یا آپ کی اولاد کا، اس کی بھاگ دوڑ آپ کو ہی کرنی ہے اور اگر آپ روایتی کاروبار یا ہنر کے ساتھ نوکری ڈھونڈتے رہے تو آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں۔ میں آپ کو حال کے لاک ڈاؤن کی مثال دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ وہ تمام روایتی کاروباری حضرات جو آن لائن اپنی پروڈکٹس پیش کرتے رہے ان کا لاک ڈاؤن سے زیادہ نقصان نہیں ہوا، اور جو لوگ کام ہی آن لائن کرتے تھے ان کو حیرت انگیز منافع ہوا۔

فیصل آباد کی ایک رہائشی گھریلو خاتون فیس بک پر وہ کپڑا بیچتی ہیں جو وہ ہول سیل سے خریدتی ہیں۔ یہ کام وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں کرتی ہیں اور اپنی سہولت کے اوقات میں۔ وہ لائیو ہو کر اپنی خواتین گاہکوں سے گفتگو کرتی اور کپڑے سے متعلق سوالوں کے جواب دیتی ہیں، روایتی بھاؤ تاؤ بھی ہوتا ہے پھر سودا ہونے کی صورت میں وہ سوٹ یا کپڑا، آپ کو پارسل ہو جاتا ہے۔ کپڑے کا چھوٹا کاروبار کرنے والے کو اس قابل احترام خاتون سے سیکھنا ہو گا ورنہ دکان کے اخراجات اور مندے میں وہ پس جائے گا۔

فیس بک پر ہی ایک خاتون جو عظیم گلوکارہ نور جہاں کی بہو ہیں، اقبال ٹاؤن میں واقع اپنے گھر سے، کئی برسوں سے کھانا پکا کر فراہم کرتی ہیں۔ مینیو (تصاویر اور قیمتوں کے ساتھ) ان کے پیج پر درج ہے۔ آپ کو جو بھی آرڈر کرنا ہے، وہ اس تاریخ اور وقت پر دستیاب ہو گا، پہلی صورت میں آپ ادائیگی کر کے ان کے گھر سے کھانا اٹھا لیں، دوسری صورت میں اضافی ادائیگی کرنے پر کھانا آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ دوسری جانب ایک روایتی ریسٹورنٹ، بیکری چلانے والی خاتون جو کامیابی سے لاہور کے دو پوش علاقوں میں اپنا کاروبار چلا رہی تھی، آج کل کس اذیت سے دوچار ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کی برسوں کی محنت ہفتوں میں ڈوب رہی ہو اور وہ بے بسی سے صرف دیکھ سکتا ہو۔ روایتی ریسٹورنٹ چلانے والے کو اس خاتون سے سیکھنا ہو گا ورنہ مندی اسے کھا جائے گی۔

فوڈ پانڈا، اب پرچون کی طرف بھی آ چکا اور یہی ماڈل آگے کی صورت ہے اس لئے روایتی دکان دار کو نہ صرف آن لائن آنا ہو گا بلکہ اسے دکان کے ملازم کے ساتھ موٹر سائیکل سوار، ڈیلیوری کرنے والے مزدور بھی چاہییں۔ اسے یہ کرنا ہو گا ورنہ بڑے شاپنگ مال اور گروپ، پرچون ڈیلیوری پر چھا کر اسے کھا جائیں گے۔

بنک اور اس سے جڑے روایتی ملازمین خصوصاَ چھوٹے درجوں پر کام کرنے والے جلد ملازمت سے فارغ ہونے والے ہیں کیونکہ بنک اب زیادہ برانچیں افورڈ نہیں کر پائیں گے اور ان کی ترجیح ہو گی کہ روائتی بنکنگ زیادہ سے زیادہ فون اور انٹرنیٹ پر منتقل ہو جائے جس کے نتیجے میں ان کے اخراجات میں کمی آئے گی مگر دوسرا لازمی نتیجہ بنکنگ سیکٹر میں وسیح بے روزگاری ہو گا، بنک ملازمین کو ابھی سے متبادل ذرائع آمدنی پر کام کرنا ہو گا ورنہ اچانک آئی آفت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔

طالب علموں کو اپنے مضامین کا انتخاب کرتے وقت جاننا ہوگا کہ ان مضامین کے پڑھنے کے نتیجے میں ماضی کی روایتی ملازمتیں ملنے کے مواقع کم ہوں گے لہذا جس مضمون کا بھی انتخاب کیا جائے اس کے ساتھ انٹرنیٹ کے کورسز لازمی کریں تاکہ وہ اپنی فیلڈ میں نہ صرف مہارت حاصل کریں بلکہ اسے آن لائن پریکٹس بھی کر سکیں۔

مختلف دفاتر میں کام کرنے والا روایتی عملہ، بہت بڑے پیمانے پر بے روزگار ہونے کو ہے۔ اسے جان لینا چائیے کہ اور کچھ نہیں تو ایک موٹر سائیکل یا سائیکل ہی خرید چھوڑے تاکہ ڈیلیوری پہنچانے والے بڑھتے ہوئے رجحان سے فائدہ اٹھا کر ایک دم فارغ نہ ہو جائے۔

فیکٹریاں، ملیں اب اپنی مصنوعات کو براہ راست صارف تک پہنچانے پر کام شروع کر چکیں اس لئے دھیرے دھیرے درمیان کی دکان داری غائب ہو جائے گی جس کا مطلب یہاں بھی بڑے پیمانے بیروزگاری آنے والی ہے۔ روایتی دکان دار کو بھی اب آن لائن ابھرتے کاروبار کی شکل میں اپنی جگہ بنانی ہو گی۔ ماضی کی مارکیٹس میں لوکیشن کی نوعیت پر بھاری پگڑی ادا کر کے جن لوگوں نے دکان خریدی تھی انہیں معلوم ہونا چائیے کہ انہیں اب اتنی قیمت شاید نہ ملے جو انہوں نے ادا کی تھی اور نہ ہی کاروبار اب ویسا چلے گا جتنا ماضی میں چلتا تھا لہذا انہیں بھی منافع بڑھانے کے لئے انٹر نیٹ پر کوئی راستہ نکالنا ہو گا۔

گلوکار اور موسیقی سے جڑے کاروبار شدید متاثر ہو چکے، شادیاں، فنکشنز شروع ہو گے تو ضرور مگر بہت آہستہ اور کب کوئی نہیں جانتا۔ اس کاروبار سے جڑے اساتذہ، گلوکار اور موسیقاروں کو سوچنا ہو گا کہ وہ انٹر نیٹ پر گروپ پرفارمنس کیسے دے سکتے ہیں۔

سونے چاندی سے جڑے سنار حضرات بھی روایتی دکان داری پر بیٹھے رہے تو بڑی کمپنیاں انہیں کھا جائیں گی۔ مختصر یہ ہے کہ کاروبار اور تجارت کا روایتی طریقہ بری متاثر ہو چکا اور دکان پر بیٹھ کر گاہک کا انتظار والا مارا جائے گا، اسے اب گاہک تلاش کر کے اس تک پہنچنا ہوگا نہ کہ صرف گاہک کا انتظار۔

اس وائرس کے بعد بازاروں میں رش ہو بھی جائے تو خریدار بہت کم ہوں گے جو بیروزگاری اور مندے کا لازمی نتیجہ ہے۔

یہ بدل چکے وقت کی ایک نہایت محدود اور مختصر جھلک تھی جس کا یہ کالم متحمل ہو سکتا تھا۔ عرض کرنے کا مقصد مایوس کرنا نہیں بلکہ احساس دلانا ہے کہ دنیا ایک دیوہیکل تبدیلی سے گزر چکی ہے اگر اس تبدیلی کو ہم نے پہچاننے میں دیر لگا دی تو وقت یا تاریخ کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ہم سب کو کچلتے ہوئے گزر جائے گا۔ بنیادی انسانی مسائل تو وہی پرانے ہیں یعنی روٹی، کپڑا،مکان، تعلیم،صحت اور انہیں حاصل کرنے کا طریقہ بھی وہی پرانا یعنی پیسہ۔

دولت ختم نہیں ہوئی اس کے حصول کی نوعیت تبدیل ہوئی ہے۔ ہر غیر معمولی واقعہ ہم سب کو غیر معمولی انتخاب کا چانس دیتا ہے، جب برسوں سے قائم جمے ہوئے ادارے، فیکٹریاں، کاروبار اپنی جگہ سے ہلتے ہیں تو بے شمار نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے، وہ موقع آ چکا۔ جو اس کو سمجھ کر فائدہ اٹھا جائے گا وہ نہ صرف بچے گا بلکہ آگے بھی بڑھے گا۔ جو جتنی دیر کرے گا اس کے لئے اتنا ہی مشکل ہو گا کہ وہ نئی جمع ہوتی بھیڑ میں اپنی جگہ بنائے۔

معیشیت وہ میدان ہے جس کے اوپر معاشرے کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ معیشت تو بدل جائے مگر سیاسی، انتظامی ڈھانچہ پرانی روایت پر موجود قائم رہے گا، وہ غلطی پر ہے۔ اسے بھی بدلنا ہو گا، کیا اسے چلانے والے نئی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے وہ آزادیاں دیں گے جو آج لازمی ہیں یا نئی حقیقتیں پرانے انتظام کو جبر سے اکھاڑ پھینکیں گی۔ میرا اندازہ ہے کہ نظام چلانے والوں کو ابھی تک زمینی تبدیلی کا اندازہ نہیں لہذا شاید یہاں جو بھی ہوگا وہ ماضی کے روایتی طریقوں سے مختلف ہوگا اور نیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments