کورونا وائرس: لاک ڈاؤن میں 20 ہزار کلو مفت سبزیاں تقسیم کرنے والی خاتون


چھایارانی

چھایا رانی ساہو نے اب تک بھدرک ضلع کے 20 سے 25 دیہاتوں میں تقریباً 20 ہزار کلو سبزیاں تقسیم کی ہیں

انڈیا میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے اور اس سے بچاؤ کے لیے نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا کی دستیابی اور روزگار سے متعلق مشکلات کا سامنا ہے۔

ایسی صورتحال میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک مشرقی ساحلی ریاست اڑیسہ کی رہائشی چھایا رانی ساہو ہیں۔

چھایا رانی ساہو ایک کسان ہیں جو اپنے کھیتوں میں اگنے والی سبزیوں کو گاؤں گاؤں جا کر لوگوں میں مفت تقسیم کر رہی ہیں۔

لاک ڈاؤن میں مارکیٹس بند ہونے کے سبب لوگوں کے لیے سبزی کی فراہمی مشکل ہو گئی تھی۔ ایسے میں انھوں نے لوگوں کو سبزیاں دے کر ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

چھایا رانی ساہو کی عمر 56 سال ہے اور وہ بھدرک ضلع کے کڑودا گاؤں میں رہتی ہیں۔

ان کے پاس آٹھ ایکڑ اراضی ہے جس پر زیادہ تر بھنڈی، بینگن، کدو، ٹماٹر، مرچ، ادرک اور دھنیا جیسی سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔

بی بی سی

کورونا وائرس: انڈیا کے یہ دو سائنسدان کیا کمال کرنے والے ہیں؟

کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

’کورونا وائرس انڈیا کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا‘

کیا جون جولائی میں کورونا وائرس انڈیا میں تباہی مچانے والا ہے؟


تین کلو سبزی کا پیکٹ

عام طور پر وہ واسودیو پور بازار میں سبزیاں فروخت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں گاؤں وہ گاڑی پر لاد کر بھی سبزیاں بیچنے جاتی ہیں۔ اسی بازار سے گاؤں کے دوسرے لوگ بھی سبزیاں خریدتے ہیں لیکن یہ بازار لاک ڈاؤن کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔

چھایارانی

سبزیاں دینے کے علاوہ چھایارانی ساہو ضرورت مندوں کو دودھ بھی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع کے قرنطنیہ مراکز میں ان کے گھر سے کھانا بھی بھیجا جاتا ہے

چھایارانی ساہو کے چھوٹے بیٹے مانو کمار ساہو کہتے ہیں: ’ہمارا بلاک ریڈ زون میں ہے اس لیے وہاں کی سبزی منڈی بند کر دی گئی ہے۔ اس بلاک کے بہت سے گاؤں میں لوگ اپنے کھیتوں میں سبزیاں اگاتے ہیں لیکن دیگر دیہاتوں میں لوگوں کے پاس سبزیاں اگانے کے لیے مناسب زمین دستیاب نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ سبزیاں سبزی منڈی سے خریدتے ہیں۔‘

’لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ سبزیاں خریدنے کے قابل نہیں رہے۔ ایسے گھر بھی ہیں جن میں چار سے پانچ افراد ہیں لیکن ان کے پاس راشن، کھانا اور پانی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں میری والدہ نے ان تک سبزی پہنچانے کا فیصلہ کیا۔‘

مانو ساہو نے کہا: ’ہم تقریبا تین کلو سبزی کا پیکٹ تیار کرتے ہیں اور اسے گھر گھر پہنچاتے ہیں۔ اس پیکٹ میں مختلف قسم کی سبزیاں ہوتی ہیں۔ ہم ایک دن چھوڑ کر مختلف دیہات میں پنچایت سے رابطہ کرتے ہیں اور ضرورت مندوں تک سبزیاں پہنچاتے ہیں۔‘

30 سال سے کاشتکاری کر رہی ہیں

چھایارانی اور ان کا بیٹا

چھایارانی کے چھوٹے بیٹے بھی اس کام میں ان کی مدد کر رہے ہیں

چھایا رانی ساہو نے چار اپریل سے اس کام کی شروعات کی ہے۔ اب تک انھوں نے بھدرک ضلع کے 20 سے 25 دیہاتوں میں تقریباً 20 ہزار کلو سبزیاں تقسیم کی ہیں۔

فی الحال ان کے چھوٹے بیٹے بھی اس کام میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ چھایارانی ساہو کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بیٹیاں اور بڑے بیٹے شادی شدہ ہیں۔ بڑے بیٹے گجرات کے شہر سورت میں ملازمت کرتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا مانو ساہو گاؤں سے باہر پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔

چھایا رانی تیس برس سے کھیتی باڑی کر رہی ہیں۔ بوائی، کیڑے مارنے والی دوا کے چھڑکنے اور کٹائی سے لے کر ہر طرح کے تمام کاموں میں وہ خود بھی شامل رہتی ہیں۔

وہ اور ان کے شوہر صرف اوڑیا زبان ہی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم نے ان سے ان کے چھوٹے بیٹے کے ذریعے بات کی جو ہندی زبان سمجھتا اور بولتا ہے۔

عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا

اپنے ان اقدام کے بارے میں چھایا رانی ساہو نے کہا: ’جب میں شادی کر کے آئی تھی تو میرے سسرال والوں کو بہت زیادہ مالی پریشانی کا سامنا تھا۔ اس لیے میں جانتی ہوں کہ بے بس ہونا کیا ہوتا ہے۔ اس وقت سے ہی ہم نے بہت محنت کی ہے۔ ایک ایک ایکڑ کر کے زمین اکٹھی کی اور اس پر دن رات کام کیا۔ اس لیے اب میں ان لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں جو اس وقت بے بس ہو گئے ہیں۔ جب میں ان لوگوں کو سبزیاں دیتی ہوں تو اندر سے بہت اچھا لگتا ہے۔‘

اس عمر میں بھی اتنا زیادہ کام کرنے کے بارے میں وہ کہتی ہیں: ’آدمی عمر سے نہیں بوڑھا ہوتا ہے بلکہ اپنے دماغ سے ہوتا ہے۔ کام ذہنی طاقت سے کرنا پڑتا ہے اور میں اپنے کام کے لیے ذہنی طور پر بہت مضبوط ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جو میں ٹھان لیتی ہوں وہ کر سکتی ہوں۔‘

چھایارانی

چھایا رانی تیس برس سے کھیتی باڑی کر رہی ہیں۔ بوائی، کیڑے مارنے والی دوا کے چھڑکنے اور کٹائی سے لے کر ہر طرح کے تمام کاموں میں وہ خود بھی شامل رہتی ہیں

چھوٹی سی کوشش

چھایارانی کے شوہر سرویشور ساہو بھی کاشتکاری کے کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ مانو ساہو کہتے ہیں کہ ماں بیشتر زرعی کام دیکھتی ہے۔ ان کے والد زراعت سے زیادہ لانے لے جانے کا کام دیکھتے ہیں۔ وہ بازار تک دودھ بھی پہنچاتے ہیں۔

اپنی اہلیہ کی اس پیش قدمی پر سرویشور ساہو نے کہا: ’ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ہماری چھوٹی سی کوشش کو اتنی اہمیت ملے گی۔ یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کتنے خاندانوں کو اور کب تک ہم سبزیاں دے سکیں گے۔ یہ کام ٹھیک لگا تو کرنا شروع کر دیا۔ میری بیوی اس میں مجھ سے زیادہ کام کرتی ہیں اور ہر کوئی اس کی تعریف کر رہا ہے۔ یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔‘

مانو ساہو کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال کھیتی باڑی سے پانچ سے چھ لاکھ کماتے ہیں۔ اس وقت وہ سبزیاں نہیں بیچ رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کا گھر چل رہا ہے۔ اب بازار گذشتہ سات آٹھ دن سے کھلنا شروع ہوا ہے لیکن کچھ گھنٹوں کے لیے ہی کھلتا ہے۔

دودھ اور کھانا بھی فراہم کرتی ہیں

سبزیاں دینے کے علاوہ چھایارانی ساہو ضرورت مندوں کو دودھ بھی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع کے قرنطنیہ مراکز میں ان کے گھر سے کھانا بھی بھیجا جاتا ہے۔

مانو ساہو کہتے ہیں: ’ہم معمولی حیثیت کے لوگ ہیں۔ میری والدہ لوگوں کی مدد کر رہی ہیں، میڈیا ان کی تعریف کر رہا ہے، مجھے انھیں دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ وہ اس عمر میں بھی بہت ساری ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ یہ ایک ترغیب دینے والی بات ہے۔‘

وہ سب کب تک اس طرح سے لوگوں کی مدد کرنے کا خیال رکھتے ہیں؟ اس کے جواب میں ساہو نے کہا کہ ابھی کچھ سوچا نہیں ہے جب تک مدد کر پائیں گے، کرتے رہیں گے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp