کورونا وائرس: امریکہ میں پھنسے انڈین اور پاکستانی طلبا کے حالات کیسے ہیں؟


امریکہ

کورونا وائرس کی وجہ سے امریکہ میں زندگی رک سی گئی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے بہت سارے طلبہ و طالبات پچھلے کئی ہفتوں سے امریکہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان طلبا کو امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔

وہ 21 مارچ کا دن تھا۔

لاہور کی آمنہ خان کو اطمینان تھا کہ آخر کار انھیں اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آنے کا موقع مل رہا ہے۔

اس وقت تک امریکہ میں اور خاص طور پر نیو یارک میں کورونا وبا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی موت ہو چکی تھی۔

نیو یارک کے جس بروکلین کے گنجان علاقے میں وہ رہتی تھیں وہ دیکھتے ہی دیکھتے کورونا وائرس کا ہاٹ سپاٹ بن چکا تھا۔

امریکہ

نیو یارک کے جس بروکلین کے گنجان علاقے میں وہ رہتی تھیں وہ دیکھتے ہی دیکھتے کورونا وائرس کا ہاٹ سپاٹ بن چکا تھا

اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے طلبا امریکہ آتے ہیں

لاہور کی مشہور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی (کے ای ایم یو) سے گریجویشن کرنے کے بعد آمنہ امتحان اور انٹرویو کی تیاری کے لیے امریکہ پہنچ گئیں۔ وہ ایک ایسے کورس میں داخلہ لینے کی امید کر رہی تھیں جس میں داخلہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔

یہ کورس نوجوان ڈاکٹروں کے لیے تربیتی میدان کی طرح ہوتا ہے۔

انھوں نے طیارے میں سوار ہونے سے 12 گھنٹے قبل ہی فلائٹ کے لیے ویب چیک کر لیا تھا۔ انھوں نے اوبر ٹیکسی لی اور سیدھے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پہنچ گئیں۔ ان کے پاس دو بڑے سوٹ کیس تھے۔

لیکن وہاں پہنچنے کے بعد انھیں پتا چلا کہ ان کی پرواز کچھ گھنٹے قبل ہی منسوخ کر دی گئی ہے۔

پرواز کی منسوخی ’کسی ڈراؤنے خواب کی طرح تھی‘

آن لائن میٹنگ پلیٹ فارم زوم پر اس دن کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’میرا دماغ جیسے ماؤف ہو گیا تھا۔ میں ناممکن سے حالات میں پھنس گئی تھی۔ اگر پرواز منسوخ نہ ہوئی ہوتی تو میں پاکستان واپس پہنچ چکی ہوتی۔‘

وہ اب نیو یارک سے متصل نیو جرسی کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہ رہی ہے۔ یہ اپارٹمنٹ انھیں وہاں کی مقامی پاکستانی کمیونٹی نے فراہم کرایا ہے۔

انھوں نے کہا: ’یہ میرے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا کیونکہ پاکستان نے بھی اپنے ہاں آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کردی تھی۔‘

آمنہ

آمنہ

ایک صوفے اور کچن والے گھر میں رہنے پر مجبور

بروکلن میں ان کے مالک مکان نے بحران کی اس گھڑی میں بھی 900 ڈالر کے کرایہ کو کم کرنے سے انکار کردیا۔ ایسی صورتحال میں ان کے لیے اپنا خرچہ حاصل کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

ایئرپورٹ پر ان کے سامنے کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ انھوں نے اپنے مکان مالک کو فون کیا اور وہاں واپس پہنچ گئیں۔

لیکن اس کے کچھ ہی دن بعد وہ نیو جرسی منتقل ہو گئیں۔

اس اپارٹمنٹ میں ایک صوفہ ہے جس پر وہ سوتی ہیں اور ایک باورچی خانہ ہے جہاں وہ کھانا بنا سکتی ہیں۔

انھیں کرایہ ادا نہیں کرنا ہوتا ہے اور وہ راشن اور دیگر ضروریات اپنی معمولی بچت سے پورا کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اب ایک ماہ سے زیادہ کا خرچ باقی نہیں بچا ہے۔

امریکہ

بمشکل ایک ماہ کا خرچہ، پھر کیا ہوگا؟

انھوں نے بتایا: ’ایک ماہ کے بعد میرے لیے یہاں رک پانا ناممکن ہو جائے گا۔ جب آپ کسی دوسرے ملک میں ہوتے ہیں تو کچھ اخراجات ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ بچ نہیں سکتے ہیں۔‘

اب وہ پروازوں کے شروع ہونے کا انتظار کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے گھر جانے کے لیے ٹکٹ بک کر سکیں۔

وہ کہتی ہیں: ’یہ اپنے گھر میں رہنے کی طرح بالکل نہیں ہے۔ آپ اکیلے رہتے ہیں۔ آپ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ یہ ایک مشکل وقت ہے۔‘

امریکہ

کئی ممالک کے لوگ امریکہ میں پھنس گئے

ایسے حالات ان لوگوں کے ساتھ بھی ہیں جو دوسرے ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے پیسے ختم ہو رہے ہیں اور وہ کورونا کے خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یونیورسٹیوں، تعلیمی اور تربیتی اداروں کو اپنے دروازے بند کرنے پڑے ہیں۔

ویزے کی پریشانیوں کی وجہ سے یہ لوگ کام بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ انھیں اپنے ممالک کی کرنسی میں اتار چڑھاؤ سے بھی کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔

کچھ طلبہ واپس آنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ طلبہ وہیں رہنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی تعلیم ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 11 لاکھ طلبہ رہتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق یونیورسٹیوں نے طلبا کو متبادل رہائش کا بندوبست کرنے میں مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے طلبا کو دراصل راحت مل پائی ہے۔

محکمہ تعلیم امریکہ کے حکام کے مطابق کیئرز(کورونا امدادی اور سکیورٹی ایکٹ) سے صرف اس امداد کے اہل طلبہ ہی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے حکام کے مطابق یہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے اور یہ ان لوگوں تک جا رہا ہے جو دوسری صورت میں طلبا کی وفاقی امداد کے اہل ہیں۔

تاہم کالج اور یونیورسٹیاں اپنے طلبہ بشمول بین الاقوامی طلبا کی مدد کے لیے وفاقی ٹیکس ادا کرنے والے ڈالرز کا استعمال نہیں کر سکتی ہیں۔

امریکہ

انڈیا کے طلبا کی کہانی

ہاسپیٹیلیٹی یا مہمان نوازی کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والی رشمی پورسوامی اور مہاراشٹر سے آنے والے ان کے دوست یہاں انٹرنشپ کر رہے ہیں۔

یہ طلبا خوش قسمت رہے ہیں۔ انھیں ایشین امریکن ہوٹل مالکان ایسوسی ایشن (اے اے ایچ او اے) سے منسلک ہوٹل مالکان سے مدد ملی ہے۔ اب یہ طلبا واشنگٹن ڈی سی کے ڈلاس ایئرپورٹ کے قریب ایک جگہ پر قیام پذیر ہیں اور ہوٹل مالکان انھیں کھانا فراہم کرا رہے ہیں۔

رشمی نے کہا: ’ہمیں لنچ اور ڈنر ملتا ہے۔ ہم یہاں چھ افراد ہیں۔ اگر ہوٹل بند ہوتا ہے تو مالکان ہمیں گھر کا کھانا دیتے ہیں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔‘

رشمی نارتھ کیرولینا کے ایک ہوٹل میں انٹرنشپ کر رہی تھیں۔ وہ ایک سال سے یہاں ہیں لیکن ابھی تک ان کی صرف نصف انٹرنشپ پوری ہوئی ہے۔

ڈینور کے ایک ہوٹل میں انٹرنشپ کرنے والی نیکیتا دھوم کہتی ہیں: ’ہم ساری رات پب جی کھیلتے ہیں۔ رات کا کھانا کھاتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں۔ ہم دوپہر کے کھانے کے وقت اٹھتے ہیں تاکہ لنچ کر سکیں اور ہم پھر سو جاتے ہیں۔ ہم باہر نہیں جا سکتے ہیں۔‘

کلپیش جوشی

اے اے ایچ او اے کے کلپیش جوشی کا کہنا ہے کہ ان کی ایسوسی ایشن کے پاس دو ہزار سے زیادہ کمرے ہیں

ہوٹل ایسوسی ایشن مدد کررہی ہے

اے اے ایچ او اے کے کلپیش جوشی کا کہنا ہے کہ ان کی ایسوسی ایشن کے پاس دو ہزار سے زیادہ کمرے ہیں۔ یہ وہ کمرے ہیں جو مقامی اور بین الاقوامی سفر کی بندش کی وجہ سے خالی پڑے ہیں۔

مسٹر جوشی کہتے ہیں: ’ہمارے ہوٹل کھانا فراہم نہیں کرتے (اس کے برعکس برصغیر انڈیا اور پاکستان کے ہوٹلوں میں صبح سے رات تک کھانا فراہم ہوتا ہے)۔ کورونا بحران کی وجہ سے ناشتہ فراہم کرنا بھی بند کر دیا گیا ہے۔ ہوٹل ایسوسی ایشن اور گرودوارے کے طلبا کو کھانا مہیا کرا رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ مقامی قونصل خانے کی کال کے بعد ہوٹل مالکان نے اس معاملے میں پہل کرنے کا فیصلہ کیا۔ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے ہوٹل کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

کورونا کی وبا کی وجہ سے مقامی اور بین الاقوامی سفر تعطل کا شکار ہے اور اس کی وجہ سے ہوٹلز میں ٹھہرنے والے کمیاب ہیں۔

بیمہ نہیں ہے، اگر انفیکشن ہوا تو کیا ہوگا؟

کے ای ایم یو کے گریجویٹ اور ریزیڈنسی کے خواہشمند محمد جواد جاوید پاکستان کے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے یہاں آئے ہیں۔ انھیں اس بات کی فکر ہے کہ اگر انھیں انفیکشن ہو گیا تو کیا ہو گا۔

جاوید اپنی میڈیکل کی طالبہ بیوی کے ساتھ یہاں آ‏ئے ہیں اور ان کا بیمہ نہیں ہے۔

وہ بتاتے ہیں: ’ہمیں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر ہم وائرس کی زد میں آ گئے تو کیا ہو گا۔ ہم نے اپنے کام سے وابستہ بہت سے لوگوں کو اس وائرس کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔ ایسے میں ہم بے حد پریشان ہیں۔‘

انھوں نے کہا: ’اگر ہمیں انفکشن ہو جائے تو کون ہماری مدد کرے گا؟ بغیر ہیلتھ انشورنس کے آپ کا صرف چار پانچ دن کا آئی سی یو کا میڈیکل بل 10 ہزار سے 20 ہزار ڈالر تک ہو سکتا ہے۔‘

وہ یہاں اپنی تین ماہ کی انٹرنشپ مکمل کرنے اور ایک امتحان دینے آئے تھے۔ اس کے لیے وہ پانچ سال سے سخت محنت کر رہے تھے۔

’پاکستان گئے تو واپس کیسے آئیں گے، پیسوں کی دقت علیحدہ‘

وہ اب تک صرف تین ہفتوں کی ہی انٹرنشپ کر سکے تھے۔ امتحان میں تاخیر ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اب وہ ایک بڑی پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

اگر وہ 15 جولائی تک انٹرنشپ اور امتحان میں پاس نہیں ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی رہائش یا تربیت میں ایک سال کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔

اگر وہ پاکستان پہنچ جاتے ہیں اور اسی دوران امریکہ میں امتحان شروع ہو جاتا ہے تو پھر انھیں واپس امریکہ آنا پڑے گا اور ٹیسٹ اور انٹرویو میں شرکت کرنا پڑے گی۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ انھیں زیادہ رقم خرچ کرنی پڑے گی۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سفری پابندیوں کے موجودہ ماحول میں انھیں امریکہ واپس آنے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔

یہ غیر یقینی کا ماحول ہے اور وہ تصویر کے واضح ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

حکومتی امداد کی ضرورت ہے، لیکن کیا حکومت سنے گی؟

جاوید کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے کا خرچ بہت زیادہ ہے۔ جب آپ پاکستانی روپے میں ڈالر کا تبادلہ کرتے ہیں تو یہ 160 روپے فی ڈالر آتا ہے۔‘

جاوید رضاکار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور وہ فون پر کورونا مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ڈاکٹروں کی مدد کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں: ’ہم امتحان دینا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو شاید ہم واپس نہیں آسکتے ہیں۔‘

ان کا ویزا 25 اگست کو ختم ہو رہا ہے۔ دوسری جانب آمنہ چاہتی ہیں کہ حکومت پاکستان طلبا کے لیے کچھ کرے تاکہ وہ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp