کامیاب لوگوں کی مضحکہ خیز عادات – مکمل کالم


مجھے دو قسم کی کتابیں بہت پسند ہیں، ایک مزاحیہ کتب اور دوسری سیلف ہیلپ (خود اعانتی)۔ سچ پوچھیں تو بعض اوقات سیلف ہیلپ کی کتابیں مجھے مزاحیہ لگتی ہیں جبکہ طنز و مزاح کی کچھ کتابیں مجھے سیلف ہیلپ جیسا لطف دیتی ہیں۔ سیلف ہیلپ کی کتابوں میں ذہین فطین اور کامیاب لوگوں کے حالات زندگی سے متعلق قصے سنا کر یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اگر فلاں نالائق بچہ یونیورسٹی سے بھاگ کر اربوں ڈالر کی کمپنی کی بنیاد رکھ سکتا ہے تو ”شاباش، تم بھی کر سکتے ہو“۔ اسی طرح اِن کتابوں میں کامیا ب لوگوں کی عادات و اطوار کو بھی بہت مخولیا انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور پھر عام بندے کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنی عملی زندگی میں انہی عادات کو اپنائے، کامیابی قدم چومے گی۔

ہمارے ایک دوست نے ایسی ہی ایک کتاب پڑھ کر کاروبار شروع کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ کامیاب لوگ رِسک لینے سے نہیں گھبراتے۔ اُس مرد عاقل نے بھی رِسک لینے کی ٹھانی، بینک سے قرضہ لیا اور آٹو پارٹس کی ایک چھوٹی سے فیکٹری کھول لی، یہ فیکٹری چند ماہ چلنے کے بعد بند ہو گئی، بینک کا قرضہ چڑھ گیا اورہمارے دوست کا دیوالیہ نکل گیا۔ آج کل موصوف فارغ ہیں اور ”گھر بیٹھے لاکھوں کمایے“ قسم کی کوئی کتاب لکھ رہے ہیں۔

آپ کا یہ خادم گزشتہ کئی برس سے یہ بات کہہ رہا ہے کہ سیلف ہیلپ کی کتابوں اور موٹیویشنل سپیکرز (ترغیبی مقررین) کی تقریروں میں ایک مفروضہ قائم کر لیا گیا ہے کہ کامیاب لوگوں کے نقش قدم پر چل کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اِن کتابوں / تقریروں میں عموماً ایسے ارب پتیوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جنہوں نے کالج سے بھاگ کر کوئی دکان کھولی اور پھر چند ہی ماہ میں وہ دکان ڈیپارٹمنٹل سٹورز کی ایک عالمی چین میں تبدیل ہوگئی یا پھر فلاں سائنس دان فزکس میں بالکل نالائق تھا، اسے روزانہ کلاس سے باہر نکال دیا جاتا تھا مگر اسی سائنس دان نے فزکس کا نوبل انعام جیتا۔ دراصل ہمیں کروڑوں لوگوں میں سے فقط اُن چند لوگوں کے بارے میں بتا یا جاتا ہے جو نہ صرف ذہین فطین ہوتے ہیں بلکہ اپنی خدادا د ذہانت اورقابلیت کے ساتھ ساتھ قسمت کے دھنی بھی ہوتے ہیں اسی لیے کامیاب ہوجاتے ہیں، مگر اُن کروڑوں لوگوں کی کہانیاں کوئی نہیں سننا چاہتا جو قابل اور ذہین بھی تھے مگر کامیابی حاصل نہیں کر سکے کیونکہ اگروہ کامیاب ہی نہیں تو پھر ہم انہیں ذہین یا با صلاحیت کیسے مان لیں؟

لگ بھگ یہی بات گزشتہ دنوں بی بی سی نے ایک مختصر سی ڈاکیومینٹری میں کی اور فدوی کی اِس تھیوری پر گویا مہر تصدیق ثبت کردی کہ محض کامیاب لوگوں کی نقل کرنے سے کامیابی نہیں ملتی۔ ڈاکیومنٹری میں اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیاگیا کہ بِل گیٹس اور مارک زوکر برگ کی طرح اور بھی لاکھوں لوگ تھے جو یونیورسٹی نہیں گئے مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بھی زندگی میں ارب پتی بنے بلکہ اُن کی اوسط آمدن اُن لوگوں کے مقابلے میں کہیں کم رہی جنہوں نے یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ اسی طرح سٹیو جابز کا اپنی کامیابی کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ اُس کے مزاج کی تندی (غصہ) تھی جس وجہ سے وہ کامیاب ہوا، اِس کے برعکس اگر ہم کسی ناکام شخص کو دیکھیں جو بد مزاج بھی ہو تو فوراً اُس غریب کو لتاڑیں گے کہ پہلے اپنے غصے کا علاج کرواؤ۔

دراصل لوگ جب کامیاب ہو جا تے ہیں تو اُن کی اچھی، بری اور مضحکہ خیز عادتیں سٹائل بن جاتی ہیں، پھر وہ فخریہ انداز میں بتاتے ہیں کہ دراصل میں رِسک ٹیکر تھا، میں روایت شکن تھا، میں ہمیشہ صبح چار بجے اٹھتا تھا، اس لیے کامیاب ہوں! کامیابی کا معاملہ کافی گنجلک ہے، ہم بہت سے ذہین اور با صلاحیت لوگوں کو دیکھتے ہیں جو دن رات محنت بھی کرتے ہیں مگر اِس کے باوجود وہ تمام عمر ناکامی کا حصار نہیں توڑ پاتے جبکہ بے شمار لوگ ہمارے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں جو اوسط درجے کے ذہن کے ساتھ بہت کامیاب ہیں۔ نفسیات دان رابرٹ سٹرن برگ نے اِس مسئلے کا بہت شاندار حل تجویز کیا ہے، یہ ایک امریکی لکھاری ہے جو ذہانت اور کامیابی جیسے موضوعات پر تحقیق کرتا ہے، اِس کا کہنا ہے کہ کامیابی کے لیے صرف ذہین یا ٹیلنٹڈ ہونا کافی نہیں، بلکہ کامیاب زندگی گذارنے کے لیے ذہانت کو پانچ مختلف طریقوں سے استعمال کرنا پڑتا ہے، اِس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ بہت جینئس ہوں، اوسط درجے کی ذہانت والا شخص بھی یہ کام کر سکتا ہے۔

سٹرن برگ کہتا ہے کہ سب سے پہلے تو آپ کو اپنی زندگی کے اہداف مقرر کرنے ہیں، آپ کیا کرنے چاہتے ہیں، کتنے وقت میں کہاں پہنچنا چاہتے ہیں اور کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی چونکہ جامد نہیں رہتی سو یہ اہداف وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی کیے جا سکتے ہیں مگر ضروری ہے کہ یہ اہداف نتیجہ خیز اور با معنی ہوں۔ دوسری بات، اپنی ذہانت کے بل بوتے پر آپ میں حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے، کسی بھی معاملے پر رائے قائم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ اُس کی اچھی طرح پڑتال کریں اور پھر حقائق کی بنیاد پر رائے بنائیں، اسے تجزیاتی ذہانت کہتے ہیں۔ تیسری بات، خود میں تخلیقی ذہانت پیدا کریں، یہ خداداد صلاحیت ہوتی ہے مگر حاصل بھی کی جا سکتی ہے، روزانہ ایک نیا آئیڈیا سوچیں، کوئی نیا خیال، اِس سے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں، کوئی کہانی لکھنے کی کوشش کریں، کسی نئے کاروبار کا منصوبہ سوچیں، کسی مسئلے کا حل تلاش کریں، کوئی اچھوتی بات جو مفید بھی ہو، جب نت نئے آیڈیاز آپ کے دماغ میں آئیں گے تو پھر آپ زندگی میں اُن پر کام کرنے کے بارے میں بھی سوچیں گے۔ یہ چوتھا مرحلہ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر اچھوتا آئیڈیا قابل عمل بھی ہو، یہاں اپنی دوسری خوبی ’تجزیاتی ذہانت ‘ کو بروئے کار لا کر آئیڈیے کی پڑتال کریں اور دیکھیں کہ یہ کس قدر قابل عمل ہے، اِس میں جان ہے یا نہیں، اگر آپ کو لگے کہ اِس آئیڈیے میں دم ہے تو پھر اسے عملی شکل دینے کے بارے میں سوچیں، رابرٹ سٹرن برگ اسے ’عملی ذہانت ‘ کا نام دیتا ہے گویا آپ صرف گفتار کے غاز ی نہ ہوں بلکہ اپنے پلان اور منصوبوں کو عملی شکل بھی دینا جانتے ہوں اور لوگوں کو اپنے آیڈیے کی افادیت پر قائل بھی کر سکیں۔

ممکن ہے آپ کے پاس کسی کاروبار کا اچھا آئیڈیا ہو، اس کے تمام پہلوؤں پر بھی آپ نے غور کرکے اطمینان کر لیا ہو کہ یہ کامیاب ہو جائے گا لیکن اِس کے بعد اگر آپ کسی سست الوجود کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے تو آپ کی تخلیقی ذہانت کسی کام نہیں آئے گی۔ میرا ایک دوست اِس کی زندہ مثال ہے، موصوف روزانہ ایک نیا اور اچھوتا کاروبار سوچتے ہیں، اوبر کی طرز پر ٹیکسی سروس چلانے کا آئیڈیا بھی آج سے پندرہ سال پہلے آپ کے ذہن میں آیا تھا، اِس بنیاد پر آنجناب خیالوں میں ارب پتی بھی ہوگئے، مگر عملاً کچھ نہیں کیا، ہر ایسے آیڈیے کے بعد عالی جناب ’میٹھا پوڑا‘ کھا کر سو جاتے ہیں۔

پانچویں اور آخری بات، آپ میں وہ دانش ہو نی چاہیے کہ جس آیڈیا پر آپ کام کریں وہ کوئی مشترکہ فلاح کا باعث بھی بنے، اس میں سے خیر کا پہلو نکلے، شر کا باعث نہ ہو۔ اِن پانچوں باتوں پر عمل کرنا بظاہر مشکل لگتا ہے مگر اوسط درجے کا ذہین شخص بھی یہ تمام کام کر سکتا ہے چاہے اُس میں کامیاب لوگوں کی ایک بھی مضحکہ خیز عادت نہ ہو! سو، آج کے بعد اگر آپ کسی موٹیویشنل سپیکر کی یہ تقریر سنیں کہ بل گیٹس بھی کالج سے بھاگ گیا تھا، مارک زوکر برگ کا بھی پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا، وہ لوگ اگراربوں ڈالر کی کمپنیاں بنا سکتے ہیں توآپ کیوں نہیں۔۔۔ تو ایسے میں صرف اِس بات کا خیال رہے کہ کہیں اِن باتوں پر اندھا دھند تالیاں پیٹنے والوں میں آپ تو شامل نہیں !

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments