آٹزم کا شکار بچے کی ماں لاک ڈاؤن کے دوران اپنے بیٹے کو کیسے سنبھال رہی ہیں؟


کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائی گئی پابندیوں سے جہاں دنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہیں وہیں آٹزم کا شکار بچے بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

سکولوں کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں کے مراکز بھی بند ہیں جس کی وجہ سے یہ بچے بھی اپنا سارا وقت گھروں میں ہی گزار رہے ہیں۔

لاہور کی رہائشی عائشہ امجد کا تیرہ برس کا بیٹا علی بھی آٹزم کا شکار ہے اور کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ان کے روز مرہ کے معمولات زندگی بھی متاثر ہوئے ہیں۔

عائشہ نے ہمیں بتایا کہ ان کا بیٹا روزانہ سکول جانے کے علاوہ ہفتے میں دو روز مختلف سپورٹس اور شام کے وقت سائیکل چلانا بھی سیکھ رہا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ ٹائم ٹیبل بدل گیا، جس کو قبول کرنا علی کے لیے آسان نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بچوں کو کورونا وائرس کے بارے میں بتائیں، ڈرائیں نہیں

خواتین میں آٹزم کی تشخیص مشکل کیوں

لاک ڈاؤن میں ایک حاملہ خاتون پر کیا گزرتی ہے؟

’علی کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا۔ وہ بار بار پوچھتا کہ لاک ڈاؤں کب ختم ہو گا، ایک دن تو ایسا آیا کہ وہ نہ گھر رہنا چاہتا تھا نہ باہر جانا چاہتا تھا لیکن میں نے علی کو اس کے والد کے ساتھ اس کے سکول بھیجا۔ سکول کے گیٹ پر نوٹس پڑھ کر اسے کچھ تسلی ہوئی کہ اس کا سکول واقعی بند ہے اور اسے زبردستی گھر نہیں بٹھایا جا رہا۔‘

’اس کے سر کو بھی ویڈیو کال کی، انھوں نے بھی اسے سمجھایا کہ اب آپ کو گھر میں بیٹھ کر پڑھنا ہو گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ باہر وائرس ہے، جراثیم ہیں اگر باہر جاؤ گے تو بیمار پڑ جاؤ گے۔ ‘

عائشہ نے بتایا کہ علی کو قرآن پڑھانے روزانہ فجر کے بعد قاری صاحب گھر آیا کرتے تھے لیکن کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے انھوں نے بھی آنا چھوڑ دیا اور اس چیز نے بھی علی کو خاصا پریشان کیا۔

لاہور میں ایسے ہی بچوں کے لیے ایک تربیتی مرکز (STEP AHEAD) کی سربراہ سعدیہ عاطف کہتی ہیں کہ ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دنوں میں گھر میں رہتے ہوئے بچوں کو ان سرگرمیوں میں مصروف رکھیں جن میں وہ دلچسپی رکھتے ہوں۔

’ان بچوں کے کچھ مخصوص رویے اور دلچسپیاں ہوتی ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ ان میں کوئی تبدیلی آئے۔ بچے کو ایسی سرگرمی کروائیں جس میں وہ بھرپور طریقے سے حصہ لے۔ گھر میں رہتے ہوئے کوشش کریں کہ اس کی توجہ میں کم سے کم خلل آئے۔‘

وہ کہتی ہیں ’ان بچوں کو سکھانے کا انداز مختلف ہے، ان بچوں کو سمجھانے کے طریقے مختلف ہیں لیکن ایسا نہیں کہ یہ بچے سمجھ نہیں سکتے یا کچھ بن نہیں سکتے۔‘

سعدیہ عاطف نے کہا کہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ آٹزم کے شکار بچوں کے ساتھ بہت زیادہ ہمت اور صبر و تحمل سے پیش آئیں۔

عائشہ امجد نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اور ان حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری اور دن رات اپنے بیٹے کے ساتھ ابھی بھی محنت کر رہی ہیں۔

وہ آج کل گھر میں بھی روز نہ صرف علی کو پڑھاتی ہیں بلکہ اسے مختلف قسم کی جسمانی سرگرمیوں میں بھی مصروف رکھتی ہیں۔

’میں پانی کی خالی بوتلوں رکھ کر رکاوٹیں بناتی ہوں اور اسے ورزش کراتی ہوں۔ رسی زمین پر رکھ کر اس کے ارد گرد واک کراتی ہوں، اس سے پیٹنگ بھی کراتی ہوں، کچھ دن پہلے اس نے ٹشو پیپر باکس بنایا ہے۔‘

’لوگ آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ بچہ پاگل ہے‘

لیکن عائشہ کا یہ سفر کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ انھیں دس برس قبل پتا چلا کہ ان کے بیٹے کو آٹزم ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ خبر سننے پر انھیں ایسا لگا جیسے ان پر بجلی گری ہو۔

’لوگ تو آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ بچہ پاگل ہے لیکن ایک ماں اس تکلیف سے کیسے گزر رہی ہوتی ہے وہ ایک ماں کو ہی پتا ہوتا ہے۔‘

’میں ڈپریشن میں چلی گئی، میرے گھر میں بھی جھگڑے ہونے شروع ہو گئے، میں سوچتی تھی کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے لگا کہ میں ختم ہو جاؤں گی لیکن یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو گا۔‘

’میں جب اسے آواز دیتی تھی تو یہ ریسپانس کم دیتا تھا۔ جو سنتا تھا وہ بول لیتا تھا لیکن کھانا خود نہیں مانگتا تھا، واش روم جانے کا نہیں بتاتا تھا۔ بہت بیمار رہتا تھا، سکول میں جو ٹیچر اسے کہتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا۔ دو دن سکول جاتا اور پھر مہینہ مہینہ گھر رہتا۔‘

تو علی میں تبدیلی کیسے آئی؟

عائشہ بتاتی ہیں کہ جب علی نے سکول جانا شروع کیا تو اسے سکول میں ایڈجسٹ ہونے میں بھی بہت وقت لگا اور سب سے مشکل کام آرام سے بیٹھنا اور ٹیچر کی بات سننا تھا۔

عائشہ کہتی ہیں کہ لیکن سپورٹس کے ساتھ وہ تبدیلی آئی جو ادویات سے بھی نہیں آئی۔ علی نہ صرف اب باسکٹ بال اور فٹ بال کھیلتا ہے بلکہ تیراکی اور گھڑ سواری بھی سیکھ رہا ہے۔ علی کی نیند، چیزوں پر توجہ دینے کی صلاحیت اور کھانے کی عادات میں بھی بہتری آئی ہے۔

’اب وہ روزانہ نہ صرف سکول جاتا ہے بلکہ کلاس میں آرام سے بیٹھتا اور ٹیچر کی بات سنتا ہے۔ علی کو پرانے واقعات، ان کی تاریخ، وہ کہاں اور کس وقت رونما ہوئے سب یاد رہتا ہے۔ تین چار برس میں علی میں بہت زیادہ تبدیلی آئی اور مجھے لگتا ہے کہ میری ساری محنت رنگ لے آئی۔‘

عائشہ کو یقین ہے کہ ان کا بیٹا آنے والے دنوں میں کامیاب اور نارمل زندگی گزارے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک مرحلہ وار عمل ہے جس پر بہت بہت سوچ سوچ کر، وقت لگا کر اور مسلسل محنت سے کامیابی ملتی ہے۔

’ایک ٹائم ایسا بھی آیا کہ ڈاکٹرز نے کہا کہ علی کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں آپ کیا کریں گی لیکن میں نے کہا کہ اگر مجھے ایک ٹانگ پر بھی کھڑا ہونا پڑا تو میں کروں گی۔‘

عائشہ کا ماننا ہے کہ آٹزم کا شکار بچوں کے والدین اگر اپنے بچوں میں بہتری چاہتے ہیں تو انھیں پہلے اس حقیقیت کو قبول کرنا ہو گا کہ ان کے بچے میں مسئلہ ہے۔

’پہلے خود قبول کریں اور پھر محنت کریں، کامیابی تو اللہ کی ذات دیتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنے بیٹے کو کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر رہوں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp