یوم مادر: امی کی کچھ باتیں


وہ آج سے 14 برس پہلے کی ایک گرم دوپہر تھی جب میں تعلیم کی غرض سے گاؤں چھوڑ کر دہلی کے لئے روانہ ہوا۔ بابا مجھے چھوڑنے کے لئے ساتھ آ رہے تھے۔ دو بھائیوں میں سے ایک بیرون ملک تھے اور دوسرے دہلی میں ہی ملازم تھے اس لئے مجھے رخصت کرنے کا ذمہ امی اور دو بہنوں پر تھا۔ صبح سے ہی دونوں بہنیں اور امی میرے سفر کی تیاریوں میں لگ گئے۔ بابا میرے لئے ضرورت کی چیزیں خرید لائے تھے جنہیں امی میرے لئے تیار کیے گئے بڑے سے بیگ میں رکھ رہی تھیں۔

چہرے سب کے اداس تھے لیکن جذبات پر قابو کیے تھے۔ میرا بیگ تیار کیا گیا۔ بابا نے اپنا سامان رکھا۔ امی نے کھانا تیار کرکے ڈبے میں رکھا اور ایک تھیلا الگ باندھ دیا۔ لیجیے صاحب، بس کا وقت ہو گیا۔ بس ہمارے گھر کے سامنے واقع سڑک پر بائیں طرف سے آتی اور ایک کلومیٹر آگے سے سواریاں بھر کر لانے کے بعد ہمارے ہی گھر کے سامنے سے واپس گزر کر دہلی جاتی تھی۔ سیٹ مل جائے اس لئے ہم نے واپسی کے بجائے بس میں جاتے ہوئے ہی بیٹھ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

رخصت کی گھڑی آئی۔ میں نے اور بابا نے سامان اٹھایا اور چلنے کا ارادہ کیا۔ امی اندر سے قرآن لے کر آئیں اور دروازے پر کھڑی ہو گئیں تاکہ اس کے سائے تلے گزار سکیں۔ پہلے بابا نکلے اور پھر میں۔ جیسے ہی میں ذرا آگے بڑھا امی نے پیچھے سے بازو کھینچا اور سینے سے لگا کر رو پڑیں۔ صبح سے آنکھوں میں جو گھٹا چھائی تھی وہ اب برسنے لگی تھی۔ یہ آنسو جیسے دوسری آنکھوں کے لئے اشارہ بن گئے۔ پیچھے کھڑی دونوں بہنیں اور آگے کھڑے بابا کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔

بس میں بیٹھا تو مجھے کھڑکی سے نظر آیا کہ امی اور بہنیں دور کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ بس آگے بڑھ گئی۔ کافی دیر بعد جب بس واپس ہمارے گھر کی طرف سے ہوتی ہوئی گزری تو وہ تینوں وہیں کھڑے ہوئے تھے۔ اتنے فاصلے سے میں تو انہیں نظر نہ آیا ہوں گا البتہ بس کو جاتے ہوئے دیکھ لیا ہوگا۔

دہلی آکر میں بھائی کے ساتھ رہنے لگا اور تعلیم میں لگ گیا۔ یونیورسٹی کیمپس کی تعلیمی سرگرمیاں، لائبریری، کلاسز اور اسائنمینٹ کے پھیرے میں گھر سے دوری کا احساس دبا رہتا تھا۔ یونیورسٹی سے لوٹتا تو بھائی پوچھتے گھر پر بات ہوئی؟ میں کہتا نہیں۔ وہ نمبر ملا کر موبائل پکڑا دیتے۔ ادھر سے بابا، امی اور بہنیں باری باری سے تقریباً ایک جیسے سوال پوچھتے۔ کھانا کھایا؟ آواز کو کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کسی چیز کی پریشانی تو نہیں؟ گھر کب آؤ گے؟ میں سب کی تسلی کرتا لیکن ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ اگلے فون پہ اسی فکرمندی سے وہ احوال پرسی کرتے۔

بھائی کی ہفتے میں دو دن چھٹی ہوا کرتی تھی اس لئے وہ گھر تواتر سے جایا کرتے تھے۔ وہ ہر بار مجھ سے بھی چلنے کو کہتے لیکن ایک تو تعلیمی شیڈول اور دوسرے سفر کا چور ہونے کی وجہ سے میں ہمیشہ معذرت کر لیتا۔ جب وہ گھر سے پلٹتے تو میرے لئے بہت سی چیزیں ساتھ ہوتیں۔

بابا مجھ سے ملنے کے لئے بار بار دہلی آتے۔ امی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے کم آ پاتی تھیں۔ عید بقرعید پہ میں جب گھر جاتا تو امی کا بس نہیں چلتا تھا کہ وقت کو روک کر کھڑی ہو جائیں اور مجھے واپس جانے ہی نہ دیں۔ میرا تعلیمی سفر پورا ہوتا چلا گیا اور میں نے دہلی میں ہی اپنا کریئر شروع کیا۔ ادھر گھر پہ بہن بھائیوں کی شادی سے نمٹنے کے بعد امی کو ذرا فرصت ہوئی تو صحت کے مسائل پیدا ہونے لگے۔ اس لئے ان کا علاج کے لئے دہلی آنا جانا بڑھ گیا۔ اب بھی یہی صورتحال ہے کہ وہ بابا کے ساتھ ڈاکٹروں سے مشورے کے لئے دہلی آتی ہیں البتہ اب طبیعت میں بہتری آ گئی ہے۔

طبیعت کی خرابی کے باوجود میرے پاس پہنچتے ہی کام میں لگ جانا ان کا معمول ہے۔ کبھی میرے کپڑے دھونے کا مطالبہ کریں گی، کبھی ضد کرکے کھانا پکائیں گی اور کبھی میرے کمرے کی صفائی میں لگیں گی۔ ایک بار طبیعت زیادہ خراب تھی لیکن خاموشی سے میرے کپڑے دھونے بیٹھ گئیں۔ کوئی چیز گرنے کی آواز سن کر میں اور بابا جب پہنچے تو جاکر انہیں اٹھایا۔

اب گویا یہ زندگی کے معمول میں ہے کہ دن میں کم از کم دو وقت میرا فون رنگ کرنے لگے گا۔ اسکرین پر امی کا نمبر ہوگا۔ میں فون اٹھاؤں گا تو پوچھا جائے گا کھانا کھا لیا؟ میں کہوں گا ’ہاں‘ تو دوسری ہدایات دی جانے لگیں گی اور اگر میں کہوں گا ’ابھی نہیں کھایا‘ تو کہا جائے گا کہ کب کھاؤ گے جلدی کھا لو۔ کئی بار دفتری مصروفیات کی وجہ سے میرے لہجے میں ٹالنے یا جھنجھلانے کا رنگ آ جاتا ہے۔ ادھر سے کہا جاتا ہے ’ارے بیٹے میرا دل نہیں مانتا اس لئے پوچھ لیتی ہوں، کیا کروں ماں ہوں۔‘

امی کی یہ خبر گیری صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں مقیم بھائی اور سسرال میں رہ رہی بہنوں تک کے لئے اسی پابندی سے ہے۔ اپنے کھانے اور دوا کی پابندی کی فکر ہو یا نہ ہو لیکن ہماری فکر میں مبتلا رہنا گویا ان کا مقصد زندگی ٹھہرا۔

ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر جی چاہ رہا ہے کہ امی سے دو تین باتیں کہوں۔ امی، میں تیرا بچہ ہوں اور تو میری ماں ہے۔ ماں بچوں کو دعائیں دیا کرتی ہے لیکن آج یہ بچہ اپنی ماں کو دعا دینا چاہتا ہے کہ تو ہمیشہ سلامت رہے۔ تجھ سے ہمیں بڑی ڈھارس ہے۔ امی، تیرے فون پہ اگر میں کبھی جھنجھلایا ہوں تو وہ دفتری مصروفیت کی وجہ سے ہوا ہوگا ورنہ تیرا فون آنے سے تو میرا دل بڑھتا ہے۔ اور ہاں امی، جب 14 برس پہلے میں دہلی کے لئے رخصت ہوا تھا اور تو مجھے لپٹا کر رونے لگی تھی وہ بات یاد کرکے میں اب بھی ویسے ہی رونے لگتا ہوں جیسے اس دن رو پڑا تھا۔

تیرا سایہ باقی رہے۔
تیرا چھوٹا بیٹا

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments