میرا گاؤں: پہلے کچھ لوگ ہوا کرتے تھے


کوئی پانچ سال ہوتے ہیں جب آخری دفعہ گاؤں گیا تھا۔ چند دن پہلے خالو کی وفات کراچی میں ہوئی لیکن خاکی جسم کی امانت آبائی گاؤں کی مٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ وہیں باہر سے تعزیت کے لئے آنے والے ایک دوست نے پوچھا کہ آپ بھی اسی گاؤں میں رہتے رہے ہیں؟ کیا بتاتے کہ گاؤں کا کون سا کونا کھدرا ایسا ہے جہاں جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں ہم نہیں پھرے۔ ہماری آبائی زمینوں کے پاس سے گذرنے والی نہر کا کون سا حصہ ہے جو ہمارے لئے سوئمنگ پول کا کام نہیں دیتا رہا۔ دادا کا گھرگاؤں میں تھا اور نانی کا بھی۔ جس طرف سے ڈانٹ زیادہ پڑتی، دوسرے گھر میں پناہ لے لیتے۔ بزرگوں کی محبتوں کو بلیک میل کرتے، ناجائز فائدہ اٹھایا کرتے۔

نجیب الطرفین راجپوت برادری، ددھیال منہاس پھگواڑی (منہاساں)، گرداسپور اور ننھیال بھٹی، بکھوبھٹی سیالکوٹ سے تھے۔ اب صدی پوری ہونے کو ہے جب بزرگ اس گاؤں میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ ددھیال بلکہ ننھیال کی زمینیں چھوٹے پردادا میاں سلطان خاں مرحوم نے آباد کرائیں، باقی بھٹی برادری کی بہت سی زمینیں چوہدری لاب دین صاحب نے۔ دونوں بزرگان تہجد گزار تھے اور ہمدرد بھی۔ ان کے گریۂ نیم شبی اور محنت کی بدولت ہی برکت پڑی کہ آج گاؤں میں لہلہاتے کھیت اور باغ نظر آتے ہیں۔

ہم نے جن بزرگوں کو دیکھا اور آج کہہ سکتے ہیں کہ، زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے، ان میں چوہدری محمد ابراہیم، میاں محمد احمد خاں، رانا نصرت احمد ناصر جیسے پورے علاقے میں جانے پہچانے چوہدری تھے جو لوگوں کے، علاقے کی سیاست کے فیصلے کرتے۔ صاحبزادہ میاں نور حسن اور ملک سیف اللہ جیسے سیکڑوں مربعوں کے مالک جاگیرداروں کے فیصلے میاں محمد احمد خاں کیا کرتےاور علاقے بھر کے نمبرداروں اور چوہدریوں کی بھی رانا نصرت احمد ناصر کے آگے پیش نہ جاتی۔ چوہدری ابراہیم سفید لباس میں جس قدر وجیہہ لگتے اور معمولی پڑھا لکھا ہونے کے باوجود جس دھڑلے سے بڑے بڑے افسروں سے اپنا تعارف کراتے تھے، وہ دوبارہ دیکھنےکو نہ ملا۔ ماما جی اکمل کو جب دیکھا، نماز باجماعت میں دیکھا یا زیر لب دعاوں میں مشغول۔ مولوی غلام محمد حق جو تقریباً تین نسلوں کے استاد تھے۔ جس کسی کو زمیندارے یا جانوروں کے بارے میں مشورہ چاہیئے ہوتا، میاں محمد شفیع منہاس کے پاس حاضر ہو جاتا۔ چوہدری محمد شفیع بھٹی جیسا متقی کون ہو گا۔ ایک لمبی فہرست ہے کس کس کا نام لیں اب تو ان سے اگلی نسل کے بھی کتنے ہی لوگ قصۂ پارینہ ہو چکے۔

سارے ہی بزرگ تھے، سارے ہی اپنے بڑے تھے اس لئے کسی کے سامنے بھی دوسری برائیاں تو ایک طرف، سگریٹ تاش تک کی بھی ہمت نہ ہو سکی۔ اپنے سے بڑی عمر کے مزارعوں کا ادب کرنا بھی سکھایا گیا تھا، اس لئے انہیں بھی چاچا اور بھا وغیرہ سےمخاطب کرتے تھے، اب بھی کرتے ہیں۔ زمینوں پر مزارعوں نے یا ہمارے کام کرنے والوں نے تربوز، خربوزے، پھٹیں وغیرہ لگائے ہوتے تو موجیں ہو جاتیں۔ سامنے بھی توڑ لیتے تو انہوں نے کیا کہنا تھا لیکن وہ خود ہی محبت سے توڑ کر دے دیتے جنہیں نہر کنارے بیٹھ کر کھانے کا مزا فائیوسٹار ہوٹل کے ریسٹورنٹس میں بھی نہ آیا۔

دودھ کے جانور ہر کسی کے اپنے ہوتے، اس لئےزیادہ تر کی ضرورت گھر سے ہی پوری ہوجاتی۔ ہمارے دادا جی کی کوشش ہوتی کہ بہترین جانور وافر تعداد میں رکھے جائیں۔ دودھ مکھن، لسی گھر کی ہوتی۔ ایک دو دفعہ نور کے تڑکے ادھ رڑکا (اردو لفظ معلوم نہیں) پینے کا موقع ملا، جنت کی نہروں کے دودھ کا ذائقہ ایسا ہو تو ہو، دنیا میں ویسا مشروب دوبارہ نہیں ملا۔ لسی گاؤں کے بہت سے لوگ ہمارے گھر سے لینے آتے۔ اگر کسی کو دودھ بھی درکار ہوتا تو وہ بھی دیا جاتا۔ دادا جی کی وفات کے بعد گاؤں کے ہی ایک بزرگ نے بتایا کہ میں آپ کے ڈیرے پر گیا۔ وہاں بندھا ایک بچھڑا مجھے پسند آ گیا۔ میں نے آپ کے دادا جی سے پوچھا کہ ماما جی یہ مجھے پسند آ گیا ہےمجھے دے دیں، کتنے پیسوں کا ہے۔ فوراً بولے اگر تمہیں پسند ہےتو ابھی کھول کر لے جاو، اگر پیسوں کا لینا ہے تو شہر میں بیوپاری بہت۔

زندگی اور موت کی بھی کوئی سمجھ نہیں آسکی۔ جن کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے، وہ آنکھ سے اوجھل ہوتے ہیں اور پھر ایک سال کیا، کئی برسوں کے ہندسے آگے بڑھتے رہتے ہیں کسی دن بیٹھے یاد آتی ہے یا قبروں پہ جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کو دس سال بیت چکے، ان کو پندرہ۔ پردادا کی والدہ سے لے کر کون کون سے بزرگ ہیں جو اس مٹی کے سپرد نہیں کئے جا چکے، تا دم تحریر آخری خالو تھے۔ ہر کسی کی اپنی اپنی اچھی عادات اور ہر شخص نگینہ لیکن انہی ہاتھوں سے چھ فٹ کی قبر میں اتار دیتے ہیں۔ اور پھر جانے کون سا عالم، کون سا برزخ، کون سی جنت۔ کوئی واپس آئے تو حال سنائے لیکن کوئی نہیں آتا۔

کیا خبر کون سا دن آتا ہے کہ ہمیں وہاں چھوڑ کے آتے ہوں گے، پیچھے رہ جانے والوں کی آنکھوں میں آنسو ہوں گے یا یہ کہ جان چھوٹی کہ اس کے بغیر کون سے کام بند تھے یا آگے ہو جائیں گے۔ روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں؟

مگر اس اٹل لمحے کے آنے تک زندگی کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں اچھی گذرے، کسی کی ہنسی کاباعث تو بنیں، کسی کے رونے کا نہیں۔ کسی کے دکھ بانٹ لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے دائرے میں اس دنیا کے لئے کچھ بہتر کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments