کیا پاکستانی معشیت لاک ڈاؤن کے بعد پیدا ہونے والے 50 لاکھ مزید بچوں کا بوجھ سہہ پائے گی؟


انڈیا میں بڑھتی آبادی

یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے سائے میں عالمی سطح پر آبادی میں 11 کروڑ 16 لاکھ بچوں کا اضافہ ہو گا اور ان میں سے تقریباً ایک چوتھائی یعنی تقریباً دو کروڑ 90 لاکھ جنوبی ایشیا میں پیدا ہوں گے

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے 40 ہفتوں کے اندر پاکستان میں مزید 50 لاکھ بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔

اگرچہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے بعد پیدا ہونے والے بچوں اور سالانہ شرحِ پیدائش میں کوئی خاص فرق تو نہیں لیکن رواں سال یہ مسئلہ اس لیے سنگین ہے کیونکہ گذشتہ برس کے 3.3 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں لاک ڈاؤن کے باعث پاکستانی معیشت کی شرح نمو منفی 1.5 فیصد ہو جائے گی جس کے نتیجے میں بے روزگاری، غربت اور بھوک میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک پر برے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے سائے میں عالمی سطح پر آبادی میں 11 کروڑ 16 لاکھ بچوں کا اضافہ ہو گا اور ان میں سے تقریباً ایک چوتھائی یعنی تقریباً دو کروڑ 90 لاکھ جنوبی ایشیا میں پیدا ہوں گے۔

جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد دو کروڑ انڈیا میں پیدا ہوں گے۔ اس کے بعد پاکستان میں 50 لاکھ، بنگلہ دیش میں 24 لاکھ جبکہ افغانستان میں 10 لاکھ بچوں کے پیدائش متوقع ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کووڈ 19 تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے اقدامات زندگی بچانے والی طبی خدمات کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نئے پاکستان پر قرض، واجبات کے بوجھ کا نیا ریکارڈ

کیا پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی شرائط نرم کروا سکتا ہے؟

’معاشی نقصان سے غربت میں تقریباً نصف ارب افراد کے اضافے کا خدشہ‘

یونیسیف کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اگرچہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حاملہ مائیں کووڈ 19 سے زیادہ متاثر نہیں ہو رہیں، لیکن تمام ممالک کو یقینی بنانا ہو گا کہ ان حاملہ ماؤں کو قبل از پیدائش، بچہ پیدا کرنے اور اس کے بعد آنے والے مراحل کے لیے طبی سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔‘

آبادی

پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح خطے کے باقی ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے

موجودہ صورتحال میں آبادی میں مزید 50 لاکھ اضافے کا کیا مطلب ہے؟

پاکستان میں مستحکم ترقی سے متعلق کام کرنے والے تحقیقی ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح تقریباً 2.4 فیصد ہے جو خطے کے باقی ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ انڈیا میں یہی شرح ایک فیصد ہے یعنی انڈیا کی آبادی میں اضافے کی شرح ہمارے نصف سے بھی کم ہے۔

وہ کہتے ہیں ’آبادی بڑھنے کا اثر وسائل پر پڑتا ہے۔ تعلیم و صحت سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، نئے پیدا ہونے بچوں کو 20-22 سال بعد ملازمتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غدائی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انفراسٹکچر اور گھروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو ملک کی آبادی میں اضافے سے جڑی ہوئی ہیں۔‘

’اگر تو پاکستان کے وسائل اسی تناسب سے بڑھ رہے ہوں تو صورتحال قابو میں رہتی۔‘

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی حالیہ رپورٹ جس میں دنیا بھر کی معیشتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی معاشی بحران کی پیش گوئی کی گئی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’اگر ہم 2020 کی بات کریں تو کووڈ 19 کے بعد لگائے گائے لاک ڈاؤن کے باعث اقتصادی شرح نمو گذشتہ برس کے 3.3 فیصد نمو کے مقابلے میں منفی 1.5 فیصد ہو جائے گی جس کے نتیجے میں بے روزگاری، غربت اور بھوک میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس پر جب 2.4 فیصد کی شرح سے آبادی بڑھے جائے گی تو اس کا مطلب ہے کہ وسائل اور آبادی کے درمیان فرق 4 فیصد سے زیادہ ہو جائے گا۔‘

عابد قیوم سلہری کہتے ہیں ’اگر تو آپ کی جی ڈی پی اور آبادی یکساں رفتار سے بڑھ رہی ہوں پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملک نے پورے سال میں جتنی اقتصادی ترقی کی اسی حساب سے آبادی بھی بڑھی۔ لیکن اگر آبادی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے اور جی ڈی پی منفی میں جا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جتنے وسائل آپ کے پاس موجود ہیں وہ موجودہ آبادی کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ یقینی طور پر یہ صورتحال ناصرف سماجی بلکہ اقتصادی مسائل کو جنم دے گی۔‘

آبادی

آبادی بڑھنے کا اثر وسائل پر پڑتا ہے۔ تعلیم و صحت سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، نئے پیدا ہونے بچوں کو غدائی تحفظ سے لے کر 20-22 سال بعد ملازمتوں کی ضرورت ہوتی ہے

کیا پاکستانی معیشت پیدا ہونے والے لاکھوں بچوں کا بوجھ سہہ پائے گی؟

ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد پیدا ہونے والے بچوں اور سالانہ پیدائش کی شرح میں کوئی خاص فرق نہیں۔ اگر پچھلے برسوں کا ڈیٹا دیکھیں تو ہر سال تقریباً اتنے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں۔

’اس سال بھی اگر پاکستان میں 50 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں اور ایک ملین افراد پاکستان میں انتقال کر جاتے ہیں تو مجموعی اثرات وہی ہوں گے جو رجحان برسوں سے چلتا آرہا ہے لیکن اس سال یہ مسئلہ اس لیے بھی سنگین صورتحال اختیار کر جاتا ہے کیونکہ ہماری اقتصادی نمو منفی میں جا رہی ہو گی۔ یقینی طور پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔‘

’ایک بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کا خدشہ ہے‘

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے باعث صحت کا نظام اور طبی کارکنان شدید دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ ہسپتالوں، طبی عملے اور سامان تک رسائی مشکل ہو چکی ہے۔ ملک میں پیشہ ور دائیوں کی کمی ہے اور موجودہ لیڈی ہیلتھ ورکزر کو کوورنا وائرس کے مریضوں کے علاج پر مامور کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں اس صورتحال میں لاکھوں حاملہ ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت سے متعلق بڑھتے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔

اسی طرح، یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق بیمار نوزائیدہ بچوں کو طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں ان کی موت کا خطرہ زیادہ ہے۔ نئے خاندانوں میں ماؤں کی صحت اور تندرستی کو یقینی بنانے، دودھ پلانا شروع کرنے میں مدد، اور اپنے بچوں کو صحت مند رکھنے کے لیے دواؤں ، ویکسین اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کچھ بچے ایسی طبی بیماریوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں کہ انھیں فوراً انکیوبیٹر یا انتہائی طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

فائل فوٹو

کچھ بچے ایسی طبی بیماریوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں کہ انھیں فوراً انکیوبیٹر یا انتہائی طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے (فائل فوٹو)

اس بارے میں ڈاکٹر عابد قیوم کہتے ہیں ’پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے اگلے دو سے تین مہینوں میں ہمارے طبی نظام پر بوجھ میں اضافہ ہو گا اور اس صورتحال سے نمٹنا ایک بہت چیلنج ہو گا۔‘

’اگر او پی ڈی نہیں کھل رہیں، میٹرنٹی وارڈز بند ہیں اور حاملہ مائیں وہاں جا کر معائنے و الٹراساؤنڈ وغیرہ کی سہولیات سے مستفید نہیں ہو سکتیں اور لیڈی ہیلتھ ورکزر اور دائیاں حاملہ ماؤں کے پاس جا کر ان کا معائنہ کر کے ان تک ضروری ادوایات نہیں پہنچا سکتیں تو یہ ایک بہت بڑے بحران کو جنم دے گا۔‘

’ہمارا موجودہ صحت کا نظام جو پہلے ہی بڑی مشکل سے کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہے تو اس سب کے نتیجے میں ایک بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کا خدشہ ہے۔‘

عابد سلہری کہتے ہیں کہ ہمیں آبادی اور وسائل کے تناسب کو مدِ نظر رکھنا چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے ایک لائحہ عمل اپنائے اور اس سلسلے میں علما اور مذہبی طبقے کو ساتھ لے کر چلے۔ ’ہم اس وقت تک بچوں میں وقفہ رکھنے پر عمل درآمد نہیں کر وا سکتے جب تک مذہبی طبقہ و علما اس میں حکومت کا ساتھ نہ دیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp