لاک ڈاؤن خاک ڈاؤن نہ بن جائے


مرکزی حکومت کے فیصلے کی روشنی میں آج ہفتے کے دن ملک بھر میں بددلی سے جاری متنازعہ لاک ڈاؤن کھل جائے گا۔ بلوچستان حکومت نے مذکورہ لاک ڈاؤن 19 مئی تک برقرار رکھنے کا چند روز قبل ہی فیصلہ کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ 9 مئی بروز ہفتہ کس کے فیصلے پر عمل ہوگا۔ تاجر طبقہ علماء کرام پی ٹی آئی والے اور بلاشبہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں بسر کرنے افراد چھوٹے کام کاج کرنے روزانہ آمدن پر انحصار پیشہ دیہاڑی دار افراد نیز رمضان و عید کے تجارتی سیزن سے کروڑوں روپے کمانے والے افراد لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر مذکورہ تمام سماجی گروہ معاشی تنگدستی کے ایک جیسے بیانات جذبات کا متفقہ اعلان کر رہے تھے، جیسے بیروزگاری کے ہاتھوں ان پر فاقوں کی نوبت آن پہنچی ہے۔ اس داد و فریاد میں خط ٍ افلاس کی نچلی سطح پر جسم و جان کے درمیان سانسوں کی ڈور تھامے ہوئے ہیں وہ کورونا وبا کا پیدا کردہ بحران نہیں بلکہ ہمارے استحصالی غیر انسانی ظالمانہ معاشی سانچے کا لازمی نتیجہ ہے۔ ثروت مند تاجر تو رمضان و عید کے دنوں کی ” مبارک ” زائد آمدن سے محرومی پر گریہ کناں تھے۔  جبکہ عمران حکومت بھی کورونا وبا کے موثر سدباب کی بجائے بھوک کے ہاتھوں غریب طبقے کے مارے جانے کی درد بھری قوالی میں مصروف تھی۔  اور بلاآخر جمعرات کو فیصلہ صادر ہو گیا کہ ملک بھیرمیں لاک ڈاؤن میں اتنی نرمی کر دی جائے جس سے بھوک کا تدارک ہو جائے بھلے غریب محنت کش جو سماجی فاصلے قائم رکھتے ہوئے کام کاج کر ہی نہیں سکتے وہ اگر کورونا وبا کی زد میں آجائیں تو خیر ہے۔

اگر بلوچستان اور دیگر مثلاً سندھ نے لاک ڈاؤن میں نرمی سے احتراز کیا تو معاشرے سیاسی خلفشار پیدا ہوگا۔  جو طبقات لاک ڈاؤن مخالف ہیں وہ مرکزی حکومت کے فیصلے پر عمل کو پسند کریں گے نیز صوبائی حکومتوں کی جانب سے نرمی پیدا نہ کرنے پر مشتعل ہو سکتے ہیں تو اس فیصلے سے سماجی سطح پر مرکز و صوبائی حکومتی دائرہ احتیار متنازعہ ہو جائے گا۔  لاک ڈاؤن کے مخالف مرکزی اتھارٹی کو پسند کریں گے تو وہ دراصل صوبائی خودمختاری کے آئینی دائرے کی مخالف سمت چلے جائیں گے۔  یہ فضا 18 ویں آئینی ترمیم میں تبدیلیوں یا اس میں کٹوتی کے آمرانہ مرکزیت پسندی کو عملی شکل دینے میں معاون ہو سکتی ہے۔ اس خدشے کے تحت میں سمجھتا ہوں کہ گذشتہ عشرے میں 18 ترمیم میں تبدیلیوں کے لیے چلائی گئی بحث اور اب لاک ڈاؤن میں نرمی بلکہ عملاً خاتمے کے فیصلے میں ربط باہم کو نظر انداز کرنا وفاق پاکستان کے استحکام سے صرف نظر کے مترادف ہو گا۔

رمضان میں لاک ڈاؤن برقرار رکھنے بلکہ اس میں سختی کرنے کی ضرورت تھی۔ پہلی وجہ ملک بھرکے طبی ماہرین کے ماہرانہ مشورے، استدلال اور اپیلیں ہیں تو دوسری جانب لاک ڈاؤن ان غربا کے لیے ایک جوازکو موقع مہیا کرتا ہے کہ وہ اپنی تنگ دستی کی پردہ پوشی کر سکتے تھے۔ بچوں کا کہہ سکتے تھے کہ چونکہ بازار بند تھے اس لیے وہ نئے کپڑے اور جوتے اور دیگر اشیاء جو عید پر آرائش و زیبائش میں استعمال ہوتی ہیں۔ خریدنے سے قاصر تھے۔ یوں ان کی سفید پوشی کا بھرم رہ جاتا۔  لاک ڈاؤن کی بنا پر دیگر سماجی طبقات بھی ماضی کے برعکس خریداری یا تیاری میں کمی کر لیتے تو معاشرے میں گہرائی تک سرایت شدہ معاشی سماجی طبقاتی تفریق کے مظاہرے میں کورونا کے سبب کچھ کمی آ جاتی۔ کورونا جو سماجی فاصلے کے ذریعے انسانوں کو تحفظ پر مجبور کرتا ہے متذکرہ تناظر میں شاید سماجی معاشی طبقاتی تفریق کے دکھاوے میں ہی سہی کمی کا باعث بن جاتا۔  کاش کاش۔۔۔

بلوچستان کے محکمہ صحت کے ڈی جی نے گزشتہ روز پریس کلب کوئٹہ کے صدر کے ساتھ صوبے میں کرونا کے متعلق مشترکہ پریس کانفرنس میں بھیانک خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے پیش نظر بلوچستان حکومت کو پورے شد و مد سے 9 مئی سے لاک ڈاؤن نرم کرنے سے انکار کر دینا چاہیے اور ساتھ ڈی جی ہیلتھ کی تنبیہات کی روشنی میں حتمی فیصلے کے صوبائی اسمبلی کا اجلاس فوری طلب کر لینا چاہیے تاکہ بلوچستان اسمبلی متفقہ طور پر آئین میں دئیے گئے اپنے اختیارات بروئے کار لائے۔ ڈی جی ہیلتھ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کرونا کیسز آنے والے ہفتوں میں تین (3) لاکھ جبکہ ستمبر کے وسط تک 95 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ صوبے کی مجموعی آبادی تقریباً سوا کروڑ ہے اگر 95 لاکھ افراد کے کرونا سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے تو اس کے معنی ہیں کہ بہت گھمبیر بحران پیدا ہو سکتا ہے چنانچہ انہوں نے واشگاف طور پر حکومت کو لاک ڈاؤن ختم/ نرم کرنے کی بجائے کرفیو کے نفاذ کا مشورہ دیا ہے۔

سوال ابھرتا ہے کہ گذشتہ روز جب مرکز لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کر رہا تھا تو اس وقت صوبائی حکومت نے کیا موقف اپنایا تھا؟ کیا اس فیصلے میں صوبوں سے رائے لی گئی ہے؟ آئین کے تحت صوبے اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حتمی فیصلے کے مجاز ہیں۔  کیا جام حکومت اپنے محکمہ صحت کی رائے کو اولیت دے گی یا یا اتحادی پی ٹی آئی مرکزی حکومت کے اقدام پر عمل پیرا ہوگی؟ 95 لاکھ افراد کے کرونا سے متاثر ہوجانے کا امکان یا کسی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا دینے والا بیان صوبے کا نظام ِ صحت ایسی بھیانک وبائی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے استعداد نہیں رکھتا تو پھر عجلت پسندی کیوں اپنائی جائے۔  کیوں لوگوں کو ان کے اپنے رحم و کرم پر چھوڑنے کی غفلت آمیزی اختیار کی جائے؟ بتایا گیا ہے کہ شیخ زید ہسپتال میں 18 وینٹیلیٹر نصب کر دئیے ہیں یہ تعدا د 50  تک بڑھانے کا ارادہ ہے کیا پچاس وینٹیلیڑ لاکھوں مریضوں کی ضرورت پوری کرسکیں گے؟ اب 800 ٹیسٹ روزانہ کی صلاحیت بروے کارہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ 800 ٹیسٹ روزانہ شیخ زید ہسپتال کی استعداد کار ہے یا پورے صوبے کی؟ بالفرض اگر شیخ زید ہسپتال میں روزانہ 800 ٹیسٹ ہورہے ہیں تو ایک ماہ میں تقریبا 24000 ٹیسٹ ہو رہے انہوں نے بتایا کہ ابتک مجموعی طور پر (شائد پورے صوبہ) 31 ہزار سے زائد افراد کی سکریننگ جبکہ 12289 افراد کے کرونا ٹیسٹ کئے گئے ہیں یہ بات مان لیں تو سوال یہ ہے 24000 ماہانہ کی صلاحیت کے دعوے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے بی ایم سی بے نظیر ہسپتال او مفتی محمود ہسپتال کچلاک میں کل 560 بیڈز کی آئسولیشن کی سہولت ہے۔ جبکہ عمومی طور پر مریضوں کو اپنے گھروں میں ہی قرنطینہ کا کہا جاتا ہے۔ یہ بات کہنا ضروری نہیں ہر گھر میں کسی مریض کو قرنطینہ کی سہولت دستیاب نہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق صوبہ میں مقامی طور پر کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔  اگر لاک ڈاؤن اورمکمل احتیاطی اقدامات نہ کئے گئے تو 3 جولائی تک مریضوں کی تعداد تین لاکھ 11 جولائی تک 18 لاکھ جبکہ ستمبر کے وسط تک یہ تعداد 95 لاکھ ہو سکتی ہے اس وقت کوئٹہ میں دو پی سی آر مشینیں کام کر رہی ہیں مزید پانچ ملنے کی امید ہے۔  حکومت لورالائی، لسبیلہ، جعفر آباد اور تربت میں بھی لیب قائم کر رہی ہے۔  گویا تاحال ان اضلاع و اندورن صوبہ کرونا کے مقابلے کے کچھ بھی موجود نہیں یہ المناک واقعاتی حقیقت اس صوبے کی ہے جہاں سے اب تک محتاط اعداد وشمار کے مطابق 22 ٹن سونا 26 ٹن چاندی 2 لاکھ 44 ہزار میڑک ٹن تانبہ اور دو لاکھ ٹن سے زیادہ آئرن چین جا چکی ہے 2003 سے 2019 کے عرصہ میں۔ کرونا کے متعلق چین سے جو امدادی سامان پاکستان آیا ہے محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق شائد وہ ابھی تک بلوچستان نہیں پہنچ پایا۔ ۔

ڈی جی صحت نے حکومت کو کرفیوکے نفاذ اور عید سے قبل کوئٹہ و دیگر اضلاع و علاقوں کے درمیان لوگوں کی آمدورفت روکنے کے لیے بھی سخت اقدامات کی تجویز دی ہے۔ بلوچستان میں کرونا کی صورتحال کے ادراک کے بعد بھی اگر صاحبان اختیار و اقتدار لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے حامی ہوں تو اس کا مطلب ہوگا وہ جان بوجھ کر انسانی المیوں کو جنم دینے کا نادر موقع دینے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ مگر کیوں؟ اس کو جواب صرف وہ دے سکتے ہیں ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہوگی۔

پس نوشت: حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرونا وبا کے پھیلاؤ کے دنوں میں پاک بھارت سرحدی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ دونوں اطراف کے صاحبان اختیار کو کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے پر امن پسند رویہ اپنانا چاہیے تاکہ کشیدگی میں کمی کرکے اپنے اپنے مالی وسائل کا رخ عوام کی جان سلامتی کی سمت موڑنے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ بھارت کی جارحیت دہلی کی عاقبت نااندیشی کے سوا کیا ہے؟ کیا جنوبی ایشیا کے عوام بعد از کرونا ایک خوشحال، پرامن اور آسودہ زندگی کی امید کر سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments