اقبال احمد: ایک ’مترجم‘ کی یاد میں


کرفیو زدہ بیروت کے ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں دھیمی روشنی تلے فیض احمد فیض اپنی شاعری پڑھ رہے تھے، ایڈورڈ سعید سن رہے تھے اور ڈاکٹر اقبال احمد مترجم کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ سعید لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اقبال نے ترجمہ کرنا چھوڑ دیا اور شاعری فضا میں بھر گئی۔ کئی پڑھنے والوں نے اس کہانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شاعری کو کسی مترجم کی ضرورت نہیں ہوتی خاص طور پر اگر شاعر فیض ہوں۔ لیکن میرے نزدیک یہ ایک اچھے مترجم کی خوبی ہے کہ اس کی موجودگی کا احساس دونوں افراد کو نہ ہو۔ اس منطق کے مطابق بہترین مترجم وہ ہوا جو ایسا ترجمہ کرے کہ کچھ دیر بعد شاعر اور سامع ایک دوسرے کی زبان ہی سیکھ جائیں۔ ڈاکٹر اقبال احمد کی زندگی بھی اسی مترجم کی سی تھی۔

اقبال احمد کے احباب یہ گواہی دیں گے کہ وہ ایک ایسے انسان تھے جو ہر محفل میں گھل مل جاتے تھے۔ کئی زبانوں پر عبور، کئی ملکوں کے سفر، کئی کتابوں کے مطالعے اور کئی تاریخی واقعات کے رموز سے آشنائی نے انہیں ایک ثقافتی مترجم بنا دیا تھا۔ وہ ایک انسان یا گروہ کی بات دوسرے تک ان کی زبان میں پہنچانے کا نایاب ہنر سیکھ چکے تھے۔ نتیجتاً خواہ وہ الجزائر کا انقلاب ہو یا فلسطینیوں کی جد و جہد، امریکی جارحیت ہو یا نوآبادیاتی نظام کا ظلم اقبال دنیا کے کسی ایک کونے میں ڈھائےجانے والے مظالم کو تمام دنیا تک پہنچاتے، ان کا تجزیہ کرتے اور ان کو ایک تاریخی پس منظر فراہم کرتے۔ اس طریقے سے بظاہر دو مختلف تاریخی واقعات اور ان کے محرکات کا موازنہ کرکے ڈاکٹر اقبال ان میں مماثلت کی نشاندہی بروئے کار لاتے تھے۔ یہی وہ طریقہ تھا جس سے وہ دنیا کے ایک انسان کو اس سے میلوں دور بیٹھے ہوئے دوسرے انسان سے جوڑ دیتے تھے۔ جو بھی ان سے پاکستان میں بیٹھے ہوئے فلسطین کے حالات سنتا وہ یہ محسوس کرتا کہ گویا وہ خود فلسطین کا ہی باسی ہے بالکل اسی طرح جیسے سعید یہ محسوس کرنا شروع ہوگئے کہ اردو ان ہی کی زبان ہے۔ اس صورت میں یہ مترجم اپنے ترجمے میں تحلیل ہو گیا اور اسے سب بھلا بیٹھے۔

آج اقبال احمدکو ہم سے بچھڑے 21 برس گزر چکے ہیں اور ان کو لوگ اس طرح نہیں جانتے جس طرح وہ ان کے ہم عصروں سے شناسا ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ان سے امریکہ میں برِ صغیر کی نسبت زیادہ لوگ واقف ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی نے اس مترجم کے کام کا ترجمہ اردو میں شاذ و نادر ہی کیا ہے۔ اقبال احمد کے انٹرویوز کا ایک مجموعہ اردو زبان میں موجود ہے لیکن ان کے بیشتر لیکچرز اور تقاریر اب بھی صرف انگریزی میں میسر ہیں۔

دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کے الفاظ کی طرح ان کے ایک خواب کا ترجمہ بھی ادھورا رہ گیا۔ اس خواب کا نام خلدونیہ ہے۔

 اقبال احمد نے ہمیشہ سے یہ چاہا تھا کہ پاکستان میں ایک لبرل آرٹس یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جائے جس کے لئے انہوں نے حکومتِ پاکستان سے زمین بھی لے رکھی تھی۔ اس ادارے کا مقصد نہ صرف طلباء میں تنقیدی سوچ پیدا کرنا تھا بلکہ ماضی کو حال کے ساتھ جوڑنا بھی تھا۔ اقبال احمد ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے کہ کسی بھی خطے کو اس کی روایات سمجھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا اور جب تک روایت اور جدت کے تعلق کو تاریخ کی نگاہ سے نہ سمجھا جائے تب تک کسی بھی جگہ کے لوگ اپنے آپ کو پہچاننے سے قاصر رہیں گے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ روایت جدت میں مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے بلکہ شاید ہی ہم کبھی کسی بھی شے کو قطعی طور پر روایتی یا جدید قرار دے سکیں۔ اقبال احمدکے نزدیک روایت اور جدت کے بندھن کو سمجھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ تاریخ میں کوئی ایک ایسا وقت نہیں آتا جہاں ہم وثوق سے کہہ سکیں کہ روایت ختم ہوگئی اور جدت شروع۔

اس سے دو چیزیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ تاریخ ایک بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس کی کوئی خاص ابتدا یا انتہا کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ اور جو لوگ اس بات کے قائل رہے کہ تاریخ ختم ہو سکتی ہے جیسے فوکویامہ جس نے کتاب “تاریخ کا اختتام” لکھی، وہ ہمیشہ غلط ثابت ہوئے۔ یا ایڈورڈ سعید کے الفاظ میں ” فوکویامہ کی کتاب تاریخ کا اختتام دراصل فوکویامہ کا اختتام ہے”۔ اس لئے تاریخ کی پیچیدگی کا سامنا کئے بغیر اور اسے عاجزی سے جانچے بغیر ہم اپنے معاشرے کو نہیں سمجھ سکتے۔ دوسری چیز یہ کہ معاشرہ کسی ساکت شے کا نام نہیں بلکہ یہ تبدیلیوں اور مستقل پیچ و تاب کا حامل ہے جس وجہ سے ان تبدیلیوں کو سمجھے بغیر ہم کسی بھی جگہ کو پوری طرح نہیں جان سکتے۔

یہ وہ دو عمومی خیالات ہیں جن کا نام دراصل خلدونیہ ہے۔ خلدونیہ یونیورسٹی کی زمین پر تو قبضہ کرلیا گیا اور اس پر غالباً ایک گالف کورس بنا دیا گیا۔ لیکن ان دو خیالات (جن کو میں حقیقی خلدونیہ مانتا ہوں ان) کا بھی حقیقت میں کوئی خاص ترجمہ نہیں ہو پایا۔آج بھی ہم اپنی روایات اور اپنے بدلتے معاشرے کے درمیان موجود تناؤ کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی بجائے اس سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

یہ تمام صورتِ حال ناامیدی کا منظر ضرور پیش کرتی ہے لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اقبال کو 21 برس بعد بھی یاد کیا جا رہا ہے۔ ان کی وضع داری کو، ان کی بہادری کو، ان کی بلاغت کو اور ان کے اس ترجمے کو جس نے کئی اور خیالات کی بنیاد رکھی۔ یہ مترجم اب ہم میں نہیں رہا لیکن وہ ہمیں ایک دوسرے کی زبان ضرور سکھا گیا ہے۔ اس کا کام یہیں تک تھا۔ گفتگو کو آگے بڑھانا اب ہمارے ذمے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments