مجھے سیکولر ازم کیوں پسند ہے؟


انسانی معاشرے کو منظم کرنے کے لیے تاریخ میں مختلف ریاستی نظام اختیارکیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی کسی خاص خاندان کو حقِ حکمرانی بخشا جاتا تھا، کبھی کسی مخصوص نسل یا زبان سے تعلق رکھنے والوں کو حقِ حکمرانی ودیعت کیا جاتا تھا اور کہیں کسی خاص عقیدے کے پیشوا منصبِ حکمرانی کے اہل قرار دیے جاتے تھے۔ اسی طرح ریاست کا نصب العین بھی تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ کہیں ریاست کا مقصد شخصی اقتدار کا فروغ قرار پاتا تو کہیں ریاست کسی خاص نسل یا قبیلے کی منفعت کے لیے کشور کشائی کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ کبھی ریاست کو کسی خاص عقیدے کی ترویج کے لیے آلہ کار بنایا جاتا تھا۔

ہزاروں برس کے تجربات کی روشنی میں بالآخرانسان اس نتیجے پر پہنچا کہ ریاستی بندوبست کی یہ تمام صورتیں معاشرے میں امن، انصاف اورترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ انسانوں کے لیے امن ، تحفظ، انصاف اور بلند معیارِ زندگی کے حصول کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کو ریاست کا مساوی رکن تسلیم کیا جائے اور مختلف الوہی یا نظریاتی مقاصد کی بجائے ریاست کو انسانوں کی دنیاوی زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ قرار دیا جائے۔ ریاست کو صرف ان معاملات میں دخل اندازی کی اجازت ہونا چاہیے جنھیں غیر جانب دارانہ اور معروضی سطح پر پرکھااور جانچاجا سکے۔ عقیدہ انفرادی انسانی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے اور کسی فرد یا ادارے کے لیے کسی دوسرے انسان کے عقیدے کی پرکھ ممکن نہیں۔ چنانچہ مذہب میں مداخلت یا کسی مذہب کی بالادستی قائم کرنا یا کسی مذہب کو غلط قرار دینا ریاست کا کام نہیں۔

سیکولرازم کا کسی مذہب کی مخالفت یا حمایت سے کوئی تعلق نہیں۔ سیکولرازم ایسا ریاستی نظام ہے جو مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے تحفظ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ سیکولر ریاست ان مقاصد کے حصول کے لیے فہم عامہ ، اجتماعی مشاورت اور انصاف کے اصول بروئے کار لاتی ہے۔

John Locke

سیکولر ریاست کا مقصد ہماری دنیا وی یا زمینی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے پیٹ میں غذا، بدن پر لباس اور سر پر چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ اُن کے لیے مناسب روزگار اور مناسب تفریح کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست شہریوں کو حصولِ علم اور مختلف فنون میں ذوق پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اُن کے جان و مال اور شخصی آزادیوں کی حفاظت کرتی ہے۔ زندگی کو آرام دہ بنانے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ سیکولر ریاست کا فرض ہے کہ ایسے قوانین ، ادارے اورپالیسیاں اختیار کرے جن کی مدد سے معاشرے سے جرم اور تشدد کو ختم کیا جا سکے، جہالت مٹائی جا سکے، غربت کا قلع قمع کیا جا سکے اور بیماریوں کی روک تھام کی جا سکے۔

سیکولر ریاست ایسے امور میں دخل اندازی سے گریز کرتی ہے جہاں غیر جانب دارانہ فیصلہ سازی ممکن نہ ہو مثلاً سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے عقائد میں مداخلت نہیں کرتی۔ شہری اپنی زبان ، ثقافتی ترجیحات، مذہبی عقائد نیز علمی اور سیاسی نظریات اپنانے کی آزادی رکھتے ہیں بشرطیکہ کوئی شہری دوسرے شہریوں کی ایسی ہی آزادیوں میں مداخلت نہ کرے۔ برطانوی فلسفی جان لاک (John Locke) نے سترہویں صدی میں رواداری کے موضوع پر اپنے معروف مقالے Letter Concerning Toleration A میں واضح کیا تھا کہ اگر ریاست مذہبی امور میں غیر جانبدار نہ ہو تو اس کے لیے اپنے تمام شہریوں کو یکساں تحفظ دینا ، امن قائم کرنا اور تمام شہریوں کی ایک جیسی بہبود کی ضمانت دینا ممکن نہیں رہتا۔

اٹھارہویں صدی میں امریکا آزاد ہوا تو وہاں نئی ریاست کے آئینی خدوخال پر پرزور مباحث شروع ہوئے۔ امریکی اعلانِ آزادی کا مصنف تھامس جیفرسن ریاست ورجینیا کے ایوان نمائندگان کا رکن تھا۔ اس مدبر انسان نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1777ء میں مذہبی آزادی کا مسودہ قانون پیش کیا جو طویل مباحث کے بعد 1786ءمیں منظور کیا جا سکا۔ بمشکل سوا سات سو الفاظ پر مبنی اس تاریخ ساز دستاویز کی اہمیت اس امر سے سمجھی جا سکتی ہے کہ 1948ءمیں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا اعلامیہ مرتب کرتے ہوئے مذہبی آزادی کے باب میں ورجینیا کے قانون برائے مذہبی آزادی ہی کی خوشہ چینی کی تھی۔ خود پاکستان کے تینوں دساتیر میں مذہبی آزادی سے متعلق شقوں پر اس قانون کے اثرات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔

تھامس جیفرسن مذہبی تعلیمات پر یقین رکھتا تھا اور مذہب کا مخالف نہیں تھا۔ اس کی تنقید کا ہدف دراصل مذہب کی سیاسی وابستگیاں اور سیاسی پہلو تھے جو اس کے نزدیک قابل قبول نہیں تھے۔ جیفرسن کا کہنا تھا کہ”ہر ملک اور ہر عہد میں مذہبی پیشوا آزادی کا دشمن رہا ہے۔ وہ ہمیشہ جابر حکمران کا ساتھ دیتا ہے اور اپنے مفادات کے بدلے اس کی بدعنوانیوں میں اس کا مددگار رہتا ہے۔ جب تک مذہب اور ریاست ایک دوسرے سے نتھی رہیں گے، انصاف اور آزادی کے تصورات احمق کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہوتے“۔

مذہبی آزادی کی حمایت یا مذہبی استبداد سے نفرت میں جیفرسن ان لوگوں سے بھی ایک قدم آگے تھا جو محض رواداری پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ایسی مذہبی آزادی کو ضروری سمجھتا تھا جسے قانون کا مکمل تحفظ حاصل ہو۔

”حکومت کے جائز اختیارات کے دائرے میں صرف ایسے افعال آتے ہیں جو دوسروں کے لیے ضرر رساں ہوں۔ لیکن میرے پڑوسی کے مجھ سے مختلف عقائد سے

مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ اس سے نہ میری جیب کٹتی ہے اور نہ میری ٹانگ ٹوٹتی ہے۔ آخر ریاست اپنے شہریوں کے عقیدے پر پابندیاں کیوں لگائے؟ یکسانیت کی خاطر ….لیکن کیا مذہبی یکسانیت کا حصول ممکن ہے؟ انسانی تاریخ میں مذہب کے نام پر لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے نذر آتش کر دیے گئے۔ انہیں طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ ان پر جرمانے کئے گئے اور انہیں قید میں رکھا گیا مگر یکسانیت پیدا نہ ہو سکی۔ جبر کا نتیجہ کیا نکلا؟ آدھی دنیا احمق بن گئی اور آدھی منافق…. “

اس قانون کا مقصد بلالحاظ مذہب تمام شہریوں کی آزادی ضمیر کا تحفظ تھا۔ جیفرسن کے اپنے لفظوں میں ”یہودی، عیسائی، مسلمان، ہندو یا کسی بھی طرح کے عقائد رکھنے والے شہریوں کی حفاظت کرنا تھا۔“

سیکولرازم کی اصطلاح برطانوی مفکر جارج جیکب ہولیایک (George Jacob Holyoake) نے 1896ءمیں اپنی کتاب The Origin and Nature of Secularism میں استعمال کی تھی۔ یاد رہے کہ اس وقت تک آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ جیسی استثنائی مثالوں کے سوا کہیں بھی جمہوریت کی وہ شکل رائج نہیں تھی جس سے ہم آج کل مانوس ہیں۔ امریکا میں کالوں اور برطانیہ میں عورتوں کو مساوی شہری حقوق حاصل نہیں تھے۔ آدھی سے زیادہ دنیا نوآبادیاتی نظام کے تحت غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔

george jacob holyoake

پاکستان میں سیکولرازم سے اختلاف رکھنے والے حلقوں کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ تاہم پاکستان میں رائے عامہ کا وہ حصہ بھی موجود ہے جس کے لیے سیکولرازم خدشہ نہیں، تمدنی ایقان کا حصہ اور پاکستانی شہری ہونے کا جزو لا ینفک ہے۔ ان کے لیے سیکولرازم پاکستان سے محبت کا ارفع ترین اظہار اور اعلیٰ ترین نصب العین ہے کیونکہ صرف سیکولرازم ہی سے ایسے پاکستان کی ضمانت دی جا سکتی ہے جس میں مسلمان (شیعہ، سنی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر )، مسیحی (کیتھولک، پروٹسنٹ )، ہندو، پارسی سمیت پاکستان کے تمام شہری عقیدے کی بنا پر کسی خوف و خطر کے بغیر زندگی گزار سکیں۔ جس میں بلوچ، پنجابی، سندھی اور پختون شہریوں کو اپنی لسانی اور ثقا فتی شناخت کی بنا پر غدار کہلانے کا خدشہ نہ ہو بلکہ یہ سب اکائیاں پاکستان کے وفاق کی مضبوطی کی علامت ہوں۔ سیکولرازم ہی سے پاکستان کی ترقی، اداروں کے استحکام اور یہاں کے باشندوں کی خوشحالی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

انسانیت نے ہزاروں برس غلامی کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ذات پات کی غیر انسانی تقسیم کے خلاف انسانوں کی جدوجہد صدیوں پر محیط ہے۔ یورپ نے صدیوں تک پاپائے روم کے استبداد کے خلاف جدوجہد میں ہر طرح کے مظالم برداشت کیے۔ جنوبی افریقا کے رنگ دار باشندوں نے نصف صدی تک نسلی امتیاز کے خلاف قربانیاں دیں۔ سوویت یونین کے آزادی پسند وں نے ستر برس تک سائبریا کے یخ بستہ عقوبت خانوں میں اشتراکی جبر کا مقابلہ کیا۔ پاکستان کے باشندوں کو بھی اگر سو برس، پانچ سو برس یا پانچ ہزار برس تک سیکولرازم کے لیے لڑنا پڑا تو اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں گے۔ پاکستان میں بالآخر جمہور کی مکمل بالادستی اور خود مختاری کی وہ صبح ضرور نمودار ہو گی جس پر شدت پسندی کا غیر مبارک سایہ نہیں ہو گا۔ جہاں فوج ہماری جغرافیائی سرحدوں کی پاسبان ہو گی، ہماری مفروضہ نظریاتی سرحدوں کی محافظ نہیں۔ جہاں کسی غیر منتخب ادارے کو پاکستان کے عوام کا طرز زندگی طے کرنے پر اجارے کا یارا نہیں ہو گا۔ جہاں پارلیمنٹ قانون سازی میں مکمل طور پر آزاد ہو گی اور پاکستان کا ہر شہری عقیدے، جنس، زبان، ثقافت، سیاسی خیالات یا معاشرتی رائے کی بنا پر کسی امتیاز کے بغیر پاکستان کا مساوی شہری ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments