سنہ 1857 کا غدر: جب دلی خون میں نہا گیا


غدر 1857

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مشت غبار ہوں

کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزر سکتی کہ ان اشعار کے خالق بہادر شاہ ظفر نے سنہ 1857 میں انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی پہلی جنگ میں ہندوستان کے باسیوں کی قیادت کی ہو گی۔

اس بغاوت کی شروعات دس مئی 1857 کو میرٹھ میں اس وقت ہوئی تھی جب بنگال لانسر کے سپاہیوں نے بغاوت کر کے دلی کی جانب کوچ کیا تھا۔

سنہ 1857 کے واقعات پر انتہائی اہم تحقیق کرنے والی معروف تاریخ دان رعنا صفوی بتاتی ہیں: ’ایسی رائفلیں آئی تھیں جس کے کارتوسوں کو منہ سے کاٹ کر بندوق میں بھرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کے اندر گائے کی اور خنزیر کی چربی ہے لہٰذا جو مسلمان تھے وہ بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے اور ہندو بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے۔‘

’اس کے علاوہ بھی اسباب تھے کہ انھیں سمندر پار لڑائی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ تو براہمنوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پانی یعنی سمندر پار کر لیا تو ان کی ذات ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ترقی بھی صرف ایک حد تک ہوتی تھی۔ ہندوستانی سپاہی صوبے دار سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ اس طرح کی ان کی بہت ساری شکایتیں تھیں۔‘

کچھ لوگوں نے اسے غدر کہا تو کچھ نے جنگ آزادی کا نام دیا۔ 11 مئی سنہ 1857 کو سوموار تھا۔ رمضان کا 16 واں دن تھا اور صبح کے سات بجے بادشاہ بہادر شاہ ظفر ندی کے کنارے لال قلعے کے تصویر خانے میں اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اسی وقت انھیں جمنا پار ٹول ہاؤس سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔

غدر 1857

انھوں نے اس کی وجہ جاننے کے لیے فوراً اپنا ہرکارہ وہاں بھیجا اور وزیراعظم حکیم احسان اللہ خان اور قلعے کی حفاظت کے ذمہ دار کیپٹن ڈگلس کو بھی طلب کر لیا۔ چار بجے باغیوں کے رہنما نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ دیوان خاص کے احاطے میں جمع ہو گئے اور اپنی بندوقوں اور پستولوں سے ہوائی فائرنگ کرنے لگے۔

دلی میں اس زمانے کے بڑے رئیس عبدالطیف نے 11 مئی کے اپنے روزنامچے میں لکھا: ’بادشاہ کی مثال وہی تھی جو شطرنج کی بساط پر شہ دیے جانے کے بعد بادشاہ کی ہوتی ہے۔‘

بہت دیر چپ رہنے کے بعد بہادر شاہ ظفر نے کہا کہ ’میرے جیسے بزرگ آدمی کی اتنی بے عزتی کیوں کی جا رہی ہے؟ اس شور کی وجہ کیا ہے؟ ہماری زندگی کا سورج پہلے ہی اپنی شام تک پہنچ چکا ہے۔ یہ ہماری زندگی کے آخری دن ہیں۔ اس وقت ہم صرف تنہائی چاہتے ہیں۔‘

بعد میں چارلس میٹکاف نے اپنی کتاب ’ٹو نیشنز نیریٹو‘ میں لکھا: ’احسان اللہ خان نے سپاہیوں سے کہا آپ انگریزوں کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور بندھی ہوئی تنخواہ کے عادی ہیں۔ بادشاہ کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔ وہ کہاں سے آپ کو تنخواہ دیں گے؟‘

’سپاہیوں نے جواب دیا کہ ہم سارے ملک کا پیسہ آپ کے خزانے میں لے آئیں گے۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا کہ میرے پاس نہ تو فوجی ہے، نہ ہتھیار اور نہ ہی پیسہ، تو انھوں نے کہا ہمیں صرف آپ کی حمایت چاہیے۔ ہم آپ کے لیے سب کچھ لے آئیں گے۔‘

’بہادر شاہ ظفر تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ فوری فیصلہ نہ کر پانا ان کی شخصیت کا سب سے بڑا نقص تھا لیکن اس دن بہادر شاہ ظفر نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی اور ہاں کر دی۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھے اور سبھی سپاہیوں نے باری باری ان کے سامنے آ کر سر جھکایا اور انھوں نے ان کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ سپاہیوں نے قلعے کے کمروں پر قبضہ کر لیا اور کچھ نے تو دیوان عام میں اپنے بستر لگا دیے۔‘

غدر 1857

بادشاہ نہ تو اتنے بڑے لشکر کو قابو میں رکھ سکتے تھے اور نہ ہی ان کا انتظام کر سکتے تھے لہذا وہ خود لشکر کے قابو میں آ گئے۔ پھر ایک بڑی توپ داغے جانے کی آواز سنائی دی۔

شروع میں دلی والوں نے ہاتھ پھیلا کر ان باغیوں کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ کچھ حلقوں میں ان کی مخالفت بھی کی گئی۔ مشہور تاریخ دان اور مشہور کتاب ’بسیج 1857: وائسز آف دہلی‘ کے مصنف محبوب فاروقی بتاتے ہیں کہ ’لوگ ناراض تھے اور لوگ نہیں چاہتے تھے،اور یہ کوئی ایسی انھونی بات نہیں تھی اور ہم اس سے ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے ہیں کہ دلی والے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘

’ایک بات یہ ہے کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی ہر آدمی اپنے حساب سے لڑنا چاہے گا۔ کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں آپ کے گھر کے اوپر 40 سپاہی آ کر بیٹھ جائیں۔‘

جب ہم آزادی کی لڑائی مہاتما گاندھی یا کانگریس پارٹی کے ساتھ لڑ رہے تھے، بھگت سنگھ کے ساتھ لڑ رہے تھے تو بھی ہندوستان میں ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ تھے جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گھر پر کوئی آنچ آئے یا پولیس ان کے گھر پر آ جائے۔ یہی بات سنہ 1857 پر بھی صادق آتی ہے۔‘

کہا جاتا ہے کہ ان واقعات نے دلی والوں کی زندگی میں بہت ہی اتھل پتھل مچا دی لیکن محبوب فاروقی کا خیال ہے کہ تمام تر انتشار کے باوجود نظام پہلے ہی کی طرح قائم تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’1857 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت افرا تفری تھی، بہت بدنظمی تھی، کوئی تنظیم نہیں تھی، کوئی کنٹرول نہیں تھا، کوئی ڈھانچہ نہیں تھا لیکن میں اپنی کتاب میں یہ بات کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں تھا، کنٹرول ہے، آرڈر ہے، سٹریکچر ہے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ ڈیڑھ لاکھ شہریوں کے درمیان اگر 70-80 ہزار فوجی آ جائيں گے تو کچھ نہ کچھ افرا تفری تو پھیلے گی۔ اگر آج دلی کی جتنی آبادی ہے اس میں 30 لاکھ فوجی آ کر بیٹھ جائیں تو شہر کا کیا حال ہو گا۔‘

’لیکن اس کے باوجود جو بہت ہی حیرت انگیز اور عجیب و غریب چیز ہے کہ اگر کمانڈر ان چیف کوتوال سے کہہ رہا ہے کہ چار سپاہی جو ڈیوٹی پر نہیں گئے تھے ان کو پکڑ لاؤ اور چار سپاہی پکڑ لیے جاتے ہیں اور وہ آ جاتے ہیں اور وہ معافی مانگتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ بہت بڑا نظم و ضبط ہے۔ ‘

غدر 1857

’آپ کو لڑائی کے مورچے پر چار سو چارپائیاں چاہیے اور چارسو چارپائیاں آپ کو فراہم ہو رہی ہیں تو یہ فراہمی کا ایک طریقہ ہے، یہ ہوا سے تو نہیں آ رہی ہیں، کسی نے کہا، کوئی گیا کوئی لے کر آیا اور فورا ہی اس کا پیسہ دیا گیا۔ یہ تو ایک مثال ہے کہ لڑائی صرف سپاہی نہیں لڑتے ہیں۔ لڑائی جب آپ لڑتے ہیں تو آج کے زمانے میں بھی اگر آپ کو ٹاٹ کی بوریاں چاہیے، آپ کو پانی چاہیے، آپ کو مٹی چاہیے، بھارا چاہیے، قلی چاہیے، مزدور چاہیے تو وہ سب ایک سپاہی کے ساتھ چار مزدور ہوتے ہیں تو وہ سب کہاں سے آ رہے تھے؟’

12 مئی کی صبح دلی انگریزوں سے پوری طرح خالی ہو چکا تھا لیکن چند انگریز خواتین نے قلعے کے باورچی خانے کے پاس کچھ کمروں میں پناہ لے رکھی تھی۔ باغیوں نے بادشاہ کی مخالفت کے باوجود ان سب کو قتل کر دیا۔

رعنا صفوی کہتی ہیں کہ ’11 اور 12 کو جب انھوں نے حملہ کیا اور انگریزوں پر وار کیا تو اس وقت کافی انگریز تو شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور کافیوں کو انھوں نے مارا بھی۔ کچھ عورتوں نے قلعے میں آ کر پناہ لی۔ وہیں پر انھوں نے دشمنی میں 56 لوگوں کو مار ڈالا۔ ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے جبکہ ان میں ایک دو مرد بھی تھے۔‘

’بہادر شاہ ظفر کے خلاف جب مقدمہ چلا تو ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ انھیں آپ نے مروایا۔ حالانکہ ظہیر دہلوی کی کتاب اگر پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت 1857 کے غدر کے وقت قلعے میں موجود عینی شاہدین تھے وہ بتاتے ہیں کہ بادشاہ نے بہت کہا تھا کہ یہ کسی بھی مذہب میں نہیں لکھا ہے کہ تم معصوموں کو مارو۔‘

لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی بغاوت کرنے والوں کے قدم اکھڑنے لگے اور دلی سے کھدیڑے جانے والے انگریزوں نے واپسی کی۔ انبالہ سے آنے والے فوجیوں نے بازی پلٹ دی اور انگریز ایک بار پھر دلی میں داخل ہو گئے۔

غدر 1857
10 مئی 1857 کو دو باغیوں کو پھانسی دی جارہی ہے

محبوب فاروقی کہتے ہیں ’سنہ 1857 میں بہر حال افراتفری تھی اور کیوں نہ ہو کہ آپ اس بڑے پیمانے پر ایک ورلڈ پاور اور سپر پاور کے ساتھ لڑائی کر رہے ہیں تو ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ شہر میں جو کچھ جیسا تھا چلتا رہے گا۔ ظاہر سی بات ہے شہر میں شدید دہشت کا ماحول تھا، شک کا ماحول تھا، لڑائی چل رہی تھی تو اس قسم کا ماحول تو ہو گا۔‘

سنہ 1857 کے بعد جو کچھ ہوا وہ اور بھی اہمیت کا حامل ہے کہ 1857 کے بعد جس طرح سے شہر اور شہریوں کو جبر کا نشانہ بنایا گیا اور سارے شہر والوں کو چھ مہینے تک کھدیڑ کے شہر کے باہر کر دیا گیا اور دلی والے چھ مہینے تک جاڑے اور برسات میں کھلے میں رہے، گھروں کے گھر لوٹ لیے گئے۔‘

’مرزا غالب اس بات سے اتنے دہشت زدہ ہوئے کہ انھوں نے 1857 کے بعد سے اپنی زندگی کے باقی 12 برسوں میں کل 11 غزلیں لکھی ہیں۔ یعنی ایک سال کی ایک غزل بھی نہیں نکلتی ہے۔ تو شاعر مرزا غالب اور آرٹسٹ مرزا غالب یا جو وہ پوری کھیپ تھی 1857 کے بعد ختم ہو گئی۔‘

سنہ 1857 کے بعد سے ہندوستانی کبھی اس اعتماد کے ساتھ نہ انگریزوں سے مل پائے نہ بات کر پائے جو اس سے قبل ان میں موجود تھی۔ 1857 کی لڑائی ہندوستانی کی آخری لڑائی تھی جو وہ اپنی شرائط پر لڑ رہے تھے۔ اس کا مطلب اپنے ہتھیاروں پر نہیں بلکہ اپنی ذہنی شرائط پر، اپنی نفسیاتی شرائط پر۔‘

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

غدر 1857

بہادر شاہ ظفر لال قلعے کے عقب سے اپنی پالکی پر بیٹھ کر پہلے حضرت نظام الدین کے مزار پر گئے اور پھر وہاں سے ہمایوں کے مقبرے پر۔ وہاں پر 18 ستمبر 1857 کو کیپٹن ولیم ہاٹسن نے انھیں گرفتار کیا۔

بعد میں سی پی ساؤنڈرس کے تحریر کردہ خط میں انھوں نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’بادشاہ، مرزا الہی بخش اور مولوی کے ساتھ ایک پالکی پر باہر آئے۔ ان کے پیچھے بیگم اپنے بیٹے مرزا جوان بخت اور والد مرزا قلی خان کے ساتھ باہر نکلی تھیں۔ پھر پالکیاں رک گئی اور پھر بادشاہ نے پیغام بھجوایا کہ وہ میرے منہ سے سننا چاہتے ہیں کہ ان کی جان بخش دی جائے گی۔‘

’میں اپنے گھوڑے سے اترا اور میں نے بادشاہ اور ان کی بیگم کو یقین دلایا کہ ہم آپ کی زندگی کی گارنٹی دیتے ہیں بشرطیہ کہ آپ کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان کی بے عزتی نہیں کی جائے گی اور ان کے وقار کو برقرار رکھا جائے گا۔‘

بہادر شاہ ظفر کی جان تو بخش دی گئی لیکن ان کے تین بیٹوں کو پوائنٹ بلینک رینج سے گولی سے اڑا دیا گیا۔ بادشاہ کو لال قلعے کی ایک کوٹھری میں ایک معمولی قیدی کی طرح رکھا گیا۔

اس وقت وہاں تعینات لیفٹننٹ چارلس گریفتھ نے اپنی کتاب ’سیج آف دہی‘ میں لکھا: ’ایک عام سی چار پائی پر مغل بادشاہ کا آخری نمائندہ بیٹھا ہوا تھا۔ ان کی لمبی سفید داڑھی تھی جو ان کے پیٹ تک آ رہی تھی۔ انھوں نے سفید رنگ کا کپڑا اور اسی رنگ کا صافہ باندھ رکھا تھا۔ ان کے پیچھے دو اردلی کھڑے ہوئے تھے جو مور کے پنکھ سے بنے پنکھے سے ان پر پنکھا جھل رہے تھے۔ ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، ان کی آنکھیں زمین پر ہی گڑی ہوئی تھیں۔‘

’بادشاہ سے تین فٹ دور ایک دوسری چارپائی پر ایک برٹش افسر بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے دونوں طرف سنگینے لیے ہوئے انگریز سنتری کھڑے ہوئے تھے۔ ان کو یہ حکم تھا کہ اگر بادشاہ کو بچانے کی کوشش کی جائے تو وہ فورا اپنے ہاتھوں سے انھیں مار ڈالیں۔‘

بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اس حد تک بے عزتی ہوئی کہ انگریزوں کے گروہ کے گروہ انھیں دیکھنے آتے تھے کہ بہادر شاہ ظفر دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔

مسٹر فاروقی کہتے ہیں: ’بہادر شاہ ظفر کو قید کرنے کے بعد سے لال قلعے کی ایک کوٹھری میں رکھا گیا تھا جہاں انگریز سیاح آ کر جس طرح آپ لال قلعے کو آج دیکھنے جاتے ہیں اسی طرح وہ ان کی کوٹھری میں جا کر انھیں دیکھتے تھے کہ یہ ہیں بہادر شاہ ظفر۔ تو جس آدمی کا جس بادشاہ ہندوستان کا دلی میں ہی یہ حال تھا تو ظاہر سی بات ہے کہ انھوں نے اپنی موت کی حسرت میں ہی باقی سال گزارے۔ یہاں سے انھیں رنگون بھیجا گیا اور اسی کے آس پاس رنگون کے بادشاہ کو مہاراشٹر کے رتناگیری بھیجا گیا۔‘

’یہ انگریزوں کی دنیا بھر میں حکومت تھی کہ بادشاہوں کی تجارت ادھر سے ادھر ہو رہی تھی۔ ان کے آخری ایام افسوس ناک اور درد ناک ہیں۔ جسے انھوں نے کہا ’کتنا ہے بدنصیف ظفر دفن کے لیے۔۔۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔‘

’ان پر جو کچھ گزرنا تھی میرا خیال ہے کہ سنہ 57 کے دوران اور اس کے بعد ان پر گزر چکی تھی۔ اس سے برا کیا ہو گا کہ تیموریہ جانشین اور بادشاہ ہندوستان کو آپ نے ایک کوٹھری میں رکھا ہوا ہے اور انگریز عورتیں اور بچے آ رہے ہیں ان کو دیکھنے کے لیے کہ اچھا یہ تھا بہادر شاہ!‘

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp