امریکی الیکشن اور آزادی کی حسینہ


\"mubashir

امریکا میں صبح کے سات بجے ہیں۔ میں نیویارک میں اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہا ہوں۔ سوٹ بوٹ والے مرد تیز تیز قدم اٹھاتے چلے جارہے ہیں۔ لگتا ہے کہ کسی میٹنگ میں پہنچنے کی جلدی ہے۔ ہار سنگھار والی لڑکیاں بھاگم بھاگ کہیں جارہی ہیں۔ شاید ان کی ٹرین چھوٹنے والی ہے۔ کچھ سیاہ فام لڑکے پتوں سے محروم درختوں کے نیچے مستارہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کسی مشروب کا ٹن ہے۔ ایک بڑے میاں اپنی چھڑی ٹیکتے ہوئے ٹہل رہے ہیں۔ انھیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ کیا کوئی ان کا انتظار نہیں کررہا؟

یہ مین ہٹن ہے۔ شاید دنیا کا سب سے مہنگا علاقہ۔ ایک طرف منہ اٹھاکر چل پڑیں تو اقوام متحدہ کا صدر دفتر ہے جہاں دو ماہ بعد نیا سیکریٹری جنرل بان کی مون کی جگہ آجائے گا۔ دوسرے رخ پر نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی عمارت ہے۔ تیسری جانب ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ چار قدم کے فاصلے پر مشہور ٹائمز اسکوائر ہے۔ بیچ میں جانے کون کون سے سینما گھر اور چڑیا گھر اور عجائب گھر۔ میاں ہم جیسے دیہاتیوں کے لیے پورا امریکا ہی عجائب گھر ہے۔

مجھے سردی پسند بھی ہے لیکن اس سے ڈر بھی لگتا ہے۔ صبح سات بجے نیویارک کا درجہ حرارت چھ ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ لیکن امریکا میں سینٹی گریڈ کے بجائے فارن ہائیٹس کا سکہ چلتا ہے۔ اس کے مطابق درجہ حرارت 43 ڈگری ہے۔ میں دل کو تسلی دیتا ہوں اور نہانے چلا جاتا ہوں۔ گرم پانی آرہا ہے۔ خوف ختم ہوجاتا ہے۔

میرا جس ہوٹل میں قیام ہے، اس کا کمرا چھوٹا ہے اور باتھ روم بڑا ہے۔ کمرے میں سردی گھس رہی ہے اور باتھ روم گیزر کی وجہ سے گرم ہے۔ اس کا دروازہ کھلا رکھوں تو ٹی وی سامنے نظر اتا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ باتھ روم کا تخت طاوس بیڈروم میں لے آتا ہوں اور بیڈ کو باتھ روم میں بچھا دیتا ہوں۔

\"donald-and-hillary-2\"

اس ہوٹل کی بارہویں منزل پر شہد خانہ ہے۔ اسے دیکھ کر برسلز یاد آگیا۔ وہاں ہمارے دوست خالد حمید فاروقی ایک دن چاکلیٹ کے کارخانے میں لے گئے تھے۔ کارخانے کے منیجر نے چاکلیٹ کی تاریخ، بنانے کا طریقہ اور مارکیٹنگ کے اسرارورموز سے آگاہ کیا تھا۔ نیویارک کے شہد خانے میں ایک ہنرمند کاک ٹیل بنانے کا طریقہ بتارہا تھا۔ مجھے میٹھا پسند ہے لیکن یاد آیا کہ برسلز میں چاکلیٹ نہیں چکھی تھی۔ یہاں بھی شہد چاٹنے سے پرہیز کیا۔ میٹھے چہرے اور میٹھی باتیں ہی کافی ہیں۔

میں ہوٹل سے نکل آیا ہوں۔ دس بج رہے ہیں۔ ٹائمز اسکوائر جانے کا ارادہ ہے۔ تھوڑا فاصلہ ہے لیکن مجھے راستہ نہیں معلوم۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ایک مسافر راستہ بھٹک جائے گا۔ یہ مسافر بھٹکنے کا شوقین ہے۔ کوئی منزل طے نہ ہو تو پھر بھٹکنے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ آپ آپ کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہیں۔ مسافر جہاں پہنچ جائے، وہی منزل ہے۔

امریکا اس لیے سوپر پاور نہیں ہے کہ اس کے پاس سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔ وہ اس لیے سوپرپاور ہے کہ سب کے پاس مساوی مواقع ہیں۔ کوئی بھی شخص محنت کرکے دولت حاصل کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص محنت کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص محنت کرکے صدارت حاصل کرسکتا ہے۔ چاہے وہ کسی امیگرنٹ کا بیٹا، ٹوٹے ہوئے خاندان کا ٹکڑا اور سیاہ فام ہی کیوں نہ ہو۔

ایک دن میں امریکا کی تعریف کررہا تھا کہ وہاں ہر شخص کو مساوی مواقع ملتے ہیں۔ میری بیوی نے پوچھا، ’’اگر ہم امریکا منتقل ہوجائیں تو کیا ہمارا بیٹا حسین امریکا کا صدر بن سکتا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’اتفاق سے اس وقت ایک حسین ہی امریکا کا صدر ہے۔ ‘‘

فون پر جیونیوز کے اینکر محمد جنید سے بات ہوئی ہے۔ جیونیوز نے امریکا کے انتخابات کی کوریج کے لیے بڑا انتظام کیا ہے۔ محمد جنید نیویارک میں ہیں، آصف علی بھٹی ہیوسٹن میں ہیں، واجد علی سید واشنگٹن میں ہیں، عظیم ایم میاں بھی ہیں، ان کے علاوہ محمود جان بابر ہیں، ذیشان بخش ہیں، ہدیٰ اکرام ہیں۔ نیوز کے علاوہ پروگرامنگ کی پروڈکشن ٹیم ہے، ان کے ساتھ سینئر تجزیہ کار ہیں، دونوں بڑی جماعتوں کے کارکن ہیں، امریکا میں مقیم پاکستانی ہیں۔ یعنی جیو کی الیکشن کوریج مثالی اور دوسروں سے بڑھ کر ہوگی۔

\"new-york\"

آج کا سب سے بڑا سوال ہے کہ الیکشن کون جیتے گا۔ کچھ لوگوں کو جواب معلوم ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ پوری دنیا میں وہ قوتیں جان پکڑرہی ہیں جو نفرت کا کاروبار کرتی ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب، اب آپ نفرت پھیلائے بغیر انتخاب نہیں جیت سکتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بزنس مین ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس بازار میں کیا بکتا ہے۔ اس نے بھی انتخابی مہم میں نفرت بیچی ہے۔ تو کیا وہ صدر بن جائے گا؟
میں چلتے چلتے پتا نہیں کون سی سڑک پر آن نکلا ہوں۔ سامنے دریا ہے۔ دور ایک مجسمہ نظر آرہا ہے۔ یہ ایک خاتون کا مجسمہ ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں تختی ہے جس پر کچھ تحریر ہے۔ دوسرے ہاتھ میں مشعل ہے۔ پیروں میں ٹوٹی ہوئی زنجیریں پڑی ہیں۔ تحریر کا تعلق حریت سے ہے۔ مشعل کا تعلق روشنی سے ہے۔ ٹوٹی ہوئی زنجیروں کا مطلب آزادی ہے۔ اسے مجسمہ آزادی کہتے ہیں۔
امریکا کو نفرت کی نہیں، آزادی کی علامت بننا چاہیے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments