کورونا وائرس: سنہ 1918 میں ہسپانوی فلو عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے کیسے کوششیں کی گئی


ماسک پہنی عورت

سنہ 1918 میں آنے والے ہسپانوی فلو اور موجودہ کورونا وائرس کی وباوں کے درمیان بہت زیادہ مماثلت تلاش کرنا خطرناک ہے کیونکہ ہسپانوی فلو سے دنیا بھر میں تقریبًا پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم کووڈ 19 مکمل طور پر ایک نئی بیماری ہے جو زیادہ تر بوڑھے لوگوں کو متاثر کرتی ہے جبکہ 1918 میں آنے والے انفلوئنزا نے دنیا بھر میں 20 سے 30 سال کی عمر کے افراد کو جن کے مضبوط مدافعتی نظام انھیں اپنا شکار بنایا تھا۔

لیکن موجودہ انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتوں اور منفرد لوگوں نے جو طریقہ اپنایا ہے اس میں پہلے کیے جانے والے اقدامات کی جھلک نظر آتی ہے۔

بی بی سی

ہسپانوی فلو: 1918 کی عالمی وبا کے بعد دنیا کیسے بدلی تھی؟

کروڑوں جانیں لینے والے ہسپانوی فلو سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟

کیا بنی نوع انسان کے لیے یہ آخری صدی ہے؟

برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 جیسی وبا آئے گی؟

کیا موسمِ گرما میں کورونا وائرس ختم ہو جائے گا؟


پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے کورونا وائرس کے خلاف اپنے ابتدائی ہنگامی منصوبے کو تیار کرنے کے لیے ہسپانوی فلو کے پھیلنے کا مطالعہ کیا جس کا اہم سبق یہ ہے کہ اس بیماری کی دوسری لہر جو سنہ 1918 کے موسم خزاں میں آئی تھی وہ پہلے سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہوئی۔

مئی سنہ 1918 میں جب اس کی زد میں آ کر پہلی ہلاکت ہوئی تھی تو اس وقت ملک جنگ میں ہی تھا۔ بہت سی دوسری حکومتوں کی طرح حکومت برطانیہ بھی اس کی گرفت میں آگئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ فلو سے ہونے والی اموات کو روکنے کے بجائے برطانیہ نے جنگی کوششوں کو زیادہ اہمیت دی تھی۔

خواتین

رائل سوسائٹی آف میڈیسن کے لیے سر آرتھر نیوشولم کی 1919 کی ایک رپورٹ کے مطابق ، یہ بیماری جنگل کی آگ کی طرح بھری ہوئی فوجی گاڑیوں اور اسلحہ سازی کی فیکٹریوں اور بسوں اور ٹرینوں پھیل گئی۔

لیکن انھوں نے جولائی سنہ 1918 میں ‘عوامی استعمال کے لیے تیار کردہ یادداشت’ میں لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ بیمار ہوں تو گھر پر ہی رہیں اور بڑے اجتماعات سے پرہیز کریں لیکن حکومت نے ان کی یادداشت کو دفن کر دیا۔

خواتین

سر آرتھر نے یہ دلیل پیش کی تھی اگر ان کے قواعد پر عمل کیا جاتا تو بہت سی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ تاہم انھوں نے مزید لکھا: ایسے قومی حالات ہیں جن میں سب سے بڑا فرض ‘چلتے رہنا’ ہے خواہ صحت اور جان کو خطرہ ہی لاحق کیوں نہ ہو۔’

سنہ 1918 میں انفلوئنزا کا کوئی علاج نہیں تھا اور نمونیا جیسی پیچیدہ بیماری کے علاج کے لیے کوئی اینٹی بائیوٹک نہیں تھی۔ ہسپتال جلد ہی ہار مان گئے۔

ٹیلی فون آپریٹر

انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئیے مرکزی طور پر کوئی لاکڈاؤن نافذ نہیں کیا گیا تھا لیکن بعض معاملوں میں بہت سے تھیٹر، ڈانس ہال، سینما گھر اور گرجا گھر وغیرہ کچھ مہینوں تک بند کر دیے گئے تھے۔

شراب خانے جو پہلے ہی جنگ کے پابندیوں کے سب اوقات کے پابند تھے زیادہ تر کھلے رہتے تھے۔ جنگ کے لیے فٹ بال لیگ اور ایف اے کپ منسوخ کر دیا گیا تھا لیکن دیگر میچوں کو منسوخ کرنے یا ہجوم کو محدود کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

مردوں کی ٹیمیں مقامی مقابلوں میں کھیل رہی تھیں اور خواتین کا فٹ بال جو وسیع پیمانے پر ہجوم کو متوجہ کرتا تھا وہ بھی وبائی امراض میں جاری رہا۔

کچھ قصبوں اور شہروں میں سڑکوں پر جراثیم کُش دوا کا چھڑکاؤ کیا گیا اور کچھ لوگوں نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں جراثیم سے بچنے کے لیے ماسک پہنے۔

حجام

صحت عامہ کے پیغامات واضح نہیں تھے اور آج ہی کی طرح جعلی خبروں اور سازشی نظریات کی کثرت تھی حالانکہ صحت مند طرز زندگی کے بارے میں عمومی سطح پر موجود لاعلمی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

کچھ فیکٹریوں میں سگریٹ نوشی کے قواعد میں اس خیال سے نرمی کی گئی تھی کہ سگریٹ انفیکشن سے بچنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

گلی کی صفائی کرتا آدمی

وبا کے متعلق ایک عام مباحثے کے دوران کنزرویٹو پارٹی کے رکن اسمبلی کلاڈ لوتھر نے سوال پوچھا: “کیا یہ حقیقت ہے کہ دن میں تین بار کوکوا لینے سے انفلوئنزا کی یقینی روک تھام ہوتی ہے؟’

کھانسی اور چھینک کے ذریعے بیماری پھیلانے کے خلاف تشہیری مہم کے تحت پرچے تقسیم کیے گئے اور لوگوں کو خبردار کیا گیا تھا۔

کھلی کچہری

نومبر سنہ 1918 میں نیوز آف دی ورلڈ نے اپنے قارئین کو مشورہ دیا کہ ‘ہر رات اور صبح صابن اور پانی سے ناک کے اندر تک ناک صاف کریں، خود کو رات میں اور صبح کو چھینکنے پر مجبور کریں ، پھر گہری سانس لیں۔ مفلر نہ پہنیں، مستقل طور پر تیز چلیں اور کام سے گھر پیدل جائیں اور کافی مقدار میں دلیہ کھائیں۔’

سنہ 1918 کے وبائی امراض سے کوئی بھی ملک نہیں بچا اگرچہ اس کے اثرات اور اپنی آبادیوں کو بچانے کے لیے حکومتی کوششیں بڑے پیمانے پر مختلف رہیں۔

اجتماع

امریکہ میں کچھ ریاستوں نے اپنے شہریوں کے لیے قرنطینہ نافذ کیا جس کے مشترکہ سامنے آئے جبکہ بعضے نے ماسک پہنے کو لازمی قرار دینے کی کوشش کی۔ سینما گھر، تھیٹر اور تفریح کے دیگر مقامات پورے ملک میں بند کردیئے گئے۔

نیو یارک زیادہ تر امریکی شہروں میں سب سے بہتر طور پر تیار تھا کیونکہ وہ پہلے ہی تپ دق کے خلاف 20 سالہ مہم چلا چکا تھا اور اس کے نتیجے میں وہاں اموات کی شرح بھی کم رہی۔

تاہم شہر کے ہیلتھ کمشنر کاروبار کے دباؤ آ گئے اور انھیں میں بازار کھلے رکھنے پڑے بطور خاص فلم تھیئٹر اور دوسرے تفریحی مقامات کھلے رکھنے پڑے۔

سپرے کرتا آدمی

آج کی طرح اس وقت بھی تازہ ہوا کو انفیکشن کے پھیلاؤ کے خلاف ممکنہ تدارک کے طور پر دیکھا گیا جس سے معاشرے کو کھلا رکھنے کے لیے کچھ باشعور حل نکلے۔

لیکن امریکہ کے بہت سے شہروں خاص طور پر عبادت گاہوں میں بڑے پیمانے پر اجتماعات کو روکنا ناممکن ثابت ہوا۔

وبائی امراض کے اختتام تک برطانیہ میں اموات کی تعداد دو لاکھ 28 ہزار تھی اور ایک چوتھائی آبادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے انفیکٹ ہوئی تھی۔

وائرس کو ختم کرنے کی کوششیں کچھ عرصے تک جاری رہیں جس کے نتیجے میں موسمی انفلوئنزا کی ممکنہ جان لیوا نوعیت سے اب آبادی کہیں زیادہ واقف تھی۔

تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp