افغان طالبان کے عسکری کمیشن کے نئے سربراہ مولوی یعقوب کون ہیں؟


افغانستان میں طالبان تحریک کے سابق امیر ملا محمد عمر کے بیٹے مولوی محمد یعقوب کو تحریک کے عسکری کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔

مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کے نائب امیر بھی ہیں جبکہ انھیں اب سکیورٹی چیف کا اضافی عہدہ بھی دیا گیا ہے۔ ان کی تعیناتی چند روز پہلے افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے کی ہے۔

مولوی محمد یقوب ولد ملا محمد عمر

افغانستان میں طالبان تحریک 1990 کی دہائی میں منظر عام پر آئی اور اس کے بانی سربراہ ملا محمد عمر تھے۔ مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کے بانی سربراہ ملا محمد عمر کے بڑے بیٹے ہیں۔

طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ مولوی محمد یعقوب نے ابتدائی تعلیم پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک مدرسے سے حاصل کی۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مولوی محمد یعقوب بظاہر ایک ’سیاسی اور عسکری سوچ‘ کی شخصیت ہیں اور وہ اس عہدے پر عسکری اور سیاسی وِنگ کے درمیان رابطے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر سابق سفارتکار رستم شاہ مہند کا کہنا ہے کہ مولوی محمد یعقوب طالبان تحریک میں اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اکثر معاملات میں مشاورت کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغان طالبان کی صفوں میں ہزارہ شیعہ رہنما، پالیسی میں تبدیلی؟

’طالبان نے میری بیوی کو ریپ کیا‘

طالبان کے پاس کتنی دولت ہے؟

طالبان سے رہائی پانے والے ٹموتھی کو طالبان سے نفرت کیوں نہیں؟

عسکری اور افغان امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود خان نے بی بی سی کو بتایا کہ مولوی محمد یعقوب ایک وقت میں طالبان تحریک کی امارت کے امیدوار بھی تھے لیکن انھیں نائب امیر مقرر کر دیا گیا تھا، اور اب انھیں نائب امیر کے علاوہ عسکری کمیشن کے سربراہ کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا ہے۔

طالبان تنظیم میں مولوی محمد یعقوب کیا کر سکتے ہیں؟

مولوی محمد یعقوب کی عمر تقریباً 30 سال کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی طاہر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مولوی یعقوب کا نام اس وجہ سے زیادہ معتبر ہے کیونکہ وہ ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں اور اس وجہ سے طالبان کے اندر انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ مولوی یعقوب عسکری ونگ میں پہلے بھی شامل رہے ہیں۔ جب طالبان اور ملا عمر کے خاندان کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے تو اس وقت ملا عمر کے بھائی عبدالمنان اخوند اور مولوی یعقوب کو عہدے دیے گئے تھے۔

اس وقت جب تحریک کی امارت کے لیے کچھ نام سامنے آئے تھے تو ملا عمر کے بھائی کو اس پر تحفطات تھے۔ مولوی یعقوب کو کچھ صوبوں کے عسکری ونگ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ مولوی محمد یعقوب کی اس تعیناتی سے ان کمانڈرز کو بھی پیغام دینا ہے جو امریکہ کے ساتھ معاہدے پر تحفظات رکھتے تھے، خاص طور پر غیر ملکی شدت پسندوں کے بارے میں جو شق شامل کی گئی ہے اس پر کچھ کمانڈر خوش نہیں تھے۔

انھوں نے کہا کہ مولوی یعقوب کی تعیناتی سے شاید وہ کمانڈر اب اپنے مؤقف پر زیادہ زور نہیں دیں گے۔

یہ نیا عہدہ اب کیوں ضروری ہو گیا ہے؟

بین الافغان مذاکرات سے پہلے طالبان تحریک میں بڑی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جن میں یہ تعیناتی بھی شامل ہے۔ افغان طالبان کے امریکہ کے ساتھ قطر میں طے کیے گئے معاہدے کے تحت طالبان اور افغان حکومت کے قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے اور افغان طالبان نے افغان حکومت کے علاوہ دیگر تمام افغان جماعتوں اور گروہوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔

قطر میں قائم افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے رابطے تمام افغان جماعتوں، سیاستدانوں اور گروہوں کے ساتھ ہیں اور ان سے ملاقاتیں بھی کی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ رابطے آئندہ بھی جاری رہیں گے اور ان رابطوں کا مقصد ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے یہ رابطے اور ایک دوسرے کے خیالات اور ان کے مؤقف کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے اور اس سے آسانیاں پیدا ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان رابطوں کا مقصد یہ معلوم کرنا بھی ہے کہ ان جماعتوں، گروہوں یا سیاستدانوں کے ساتھ مشترکہ نکات کیا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات اس وقت شروع ہوں گے جب افغان حکومت اور طالبان دونوں جانب سے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

مولوی محمد یعقوب کی تعیناتی کے بارے میں انھوں نے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔ عالمی سطح پر کورونا وبا کے پھیلنے کے باعث اور ماہ رمضان کے آغاز سے قبل افغان حکومت نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا لیکن افغان طالبان نے ان کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔

طالبان نے مؤقف اپنایا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے کیے گئے معاہدے میں تمام لائحہ عمل موجود ہیں، اور اگر افغان حکومت ان کے پانچ ہزار قیدی رہا کر دے تو اس کے بعد بتدریج مذاکرات بھی شروع ہو سکتے ہیں اور جنگ بندی بھی ہو سکتی ہے۔

افغان حکومت کے مطالبے اور معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر کے بعد امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے قطر میں طالبان، کابل میں افغان حکومت اور پاکستان میں حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مولوی محمد یعقوب کی تعیناتی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ طالبان میں سیاسی حکام اور عسکری کمانڈرز میں رابطوں کی کمی کی وجہ سے طالبان قیادت کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔

طالبان

29 فروری 2020 کو امن معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل طالبان نماز ادا کر رہے ہیں

ذرائع نے بتایا کہ اب چونکہ طالبان مرکزی دھارے میں آنے کے لیے تیار ہیں، تو جہاں دیگر افغان دھڑوں، افغان حکومت اور عالمی سطح پر مذاکرات کے حوالے سے پالیسیاں ترتیب دینی ہیں، وہاں عسکری کارروائیوں پر بھی انھیں نظر رکھنی پڑے گی۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے بتایا کہ طالبان تحریک میں اب شوریٰ زیادہ مضبوط اور بااختیار ہو گئی ہے اور اب ان کی سیاسی ونگ بھی زیادہ منظم ہو گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے پہلے ملا محمد عمر کے دور میں کمانڈرز ہی شوریٰ میں شامل ہوتے تھے اور وہی براہ راست ملا محمد عمر سے بات کر کے فیصلے کرتے تھے۔

طالبان کا عسکری ڈھانچہ

افغان ذرائع کے مطابق طالبان تحریک کے سکیورٹی یا عسکری تنظیم کے حوالے سے دو بڑے زونز ہیں جن میں جنوبی زون اور مشرقی زون شامل ہیں۔ جنوبی زون میں قندھار اور اس کے قریبی علاقے جبکہ مشرقی زون میں جلال آباد اور اس سے ملحقہ علاقے شامل ہیں۔

ان دونوں زونز کے علیحدہ علیحدہ سربراہ ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جنوبی زون کی قیادت صدر ابراہیم اور مشرقی زون کی قیادت عبدالقیوم ذاکر کرتے ہیں۔ یہ دونوں کمانڈر انتہائی تجربہ کار اور ماضی میں طالبان کی جانب سے بڑے آپریشنز میں شامل رہے ہیں۔ اب مولوی محمد یعقوب کی تعیناتی کے بعد دونوں کمانڈر ان کے ساتھ رابطے میں رہیں گے اور عسکری آپریشنز کے لیے ان سے مشاورت کریں گے۔

طالبان ذرائع کے مطابق عسکری کمیشن سال 2015 سے پہلے تک ایک ہی ونگ کے طور پر کام کرتا تھا جب ملا اختر منصور اس کی سربراہی کرتے تھے۔ ملا اختر منصور امریکی ڈرون حملے میں بلوچستان کے دالبندین کے علاقے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

پاکستان میں افغان امور کے ماہر اور سابق سفارتکار رستم شاہ مہمد نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں اور یہ تبدیلی بھی ان کی پالیسی کا حصہ ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جو طالبان کے عسکری کمانڈرز ہیں، ان کے شوریٰ کے ساتھ رابطوں میں مشکلات رہتی ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لیے انھیں شوریٰ کی اجازت چاہیے ہوتی ہے۔ اس لیے اس خلا کو پر کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ مولوی محمد یعقوب کو تعینات کیا گیا ہو۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کے مطابق اب طالبان تحریک کو زیادہ وسیع کر دیا گیا ہے اور ان کے سیاسی ونگ نے جس طرح امن معاہدے کے لیے مذاکرات کیے اور تحریک کو منظم کیا اس سے ایسا لگتا ہے کہ اب طالبان مرکزی دھارے میں داخل ہونے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp