فحش نگار منٹو کی برسی


کہتے ہیں وہ فحش نگار تھا!

بات کچھ سمجھ میں آتی نہیں! کیا جو اس نے لکھا وہ ہوا نہیں؟ یا جو کچھ ہوا وہ لکھا نہیں؟

کیوں تھا آخر وہ ایسا؟ ایک معما، اپنے محبت کرنے والوں کے لئے بھی، اور نفرت کرنے والوں کے لئے بھی!

کہتے ہیں، کثرت شراب نوشی نے اس کا جگر چھید ڈالا! کیا محض شراب وجہ بنی یا ارد گرد پھیلا وہ ننگا سچ جسے بھلانے کے لئے وہ نشے کا سہارا لیتا تھا۔ بدقسمتی سے پھر بھی بھول نہیں پاتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں جگر کے زخموں سے ٹیسیں پھر اٹھنا شروع کر دیتی تھیں۔ اندھوں کے شہر میں آئینہ دکھانے کے بعد وہ کیسے جی سکتا تھا؟ معاشرے کی دوغلی اقدار اور سیاسی غلام گردشیں اس کے سچ کی تاب کیسے لا سکتی تھیں؟ انصاف کے پجاریوں نے جس عینک سے منٹو کو دیکھا اور جس میزان میں تولا، اس میں تعصب کے گہرے شیشے جڑے تھے۔

منٹو کا المیہ یہ تھا کہ وہ شرفا کی پھیلائی ہوئی گندگی سے نظر بچائے اور منہ ڈھکے نہیں گزر سکتا تھا۔ تعفن زدہ شہر اسے ددکھائی بھی دیتا تھا اور اس کی بو سے اس کی طبعیت بھی متلاتی تھی۔ اسی اذیت سے اس کے قلم پہ زندہ لاشیں کہانیاں بن کے اتر آتی تھیں۔

عورت اور اس کی بے چارگی اس کے دل کے اس قدر قریب تھی کہ اس پہ گزرنے والی ہر تلخی نے اس سے وہ سب لکھوا دیا جو اور کوئی ہمت نہ کر سکا۔

کیا سمجھیں ہم منٹو کو ؟

دلال ؟ جسے عورت کا جسم نہیں دکھتا، اس کے پیٹ کی بھوک تنگ کرتی ہے۔ مکھی؟ جو معاشرے کے پھیلائے تعفن پہ بیٹھتی ہے اور بار بار بیٹھ کے توجہ دلاتی ہے کہ جنہوں نے گند پھیلا رکھا ہے، انہیں برا سمجھا جائے۔ نوحہ خواں؟ جو ان چلتی پھرتی ننگی حقیقوں کو دیکھ کے صبر کا دامن ہاتھ سے کھو بیٹھتا ہے۔ مسخرا؟ جو سوسائٹی کی سنگ دلی دیکھ کے کبھی روتا ہے اور کبھی ہنستا ہے۔ بازی گر؟ جو تنے ہوئے رسے پہ دن رات اس امید پہ چلتا ہے کہ ہم اس کے فن کی داد تو دیں اور ساتھ میں خاموشی کا قفل بھی توڑ دیں۔ عاشق؟ جو عورت کے غم میں گھل گھل کے ہنسی خوشی موت کو گلے لگانا چاہتا ہے۔

زینب تو یاد ہی ہو گی جسے سگے باپ نے اپنی بیوی بنا ڈالا تھا۔ بھائی کی بیوی صغری کو اللہ بخش کی گرسنہ نگاہوں سے بچانے کے لئے طلاق دلواتی زینب اپنی ذات پہ ہونے والے المیے سے پتھر کی سنگی مورت بن گئی۔

سمتری کیسے بھولیں جسے کندن لال نے مردہ بہن کی لاش پہ ماتم بھی نہ کرنے دیا۔ بیوی کے مرنے کی پریشانی کے باوجود اس نے سمتری کی ذات تار تار کر ڈالی۔

کالی شلوار کی سلطانہ، جس کی زندگی مفلسی، بھوک اور کچھ ادھوری خواہشات کے گرد گھومتی ہے۔ اسے عام عورت کے برعکس مکان کا کرایہ، بجلی کا بل اور پیٹ کی آگ بجھانے کے مسائل کا سامنا ہے۔ دھندا کرنے کے بعد زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچی جاتی ہے۔ گوشت پوست کی بنی ہوئی یہ عورت من رکھتی ہے جو معمولی ارمانوں پہ مچل جاتا ہے۔ جن میں سے ایک محرم کے لئے کالے کپڑوں کا اہتمام کرنا ہے۔

کم عمر شاداں لہولہان حالت میں گھر پہنچ کے بے ہوش اور ہسپتال پہنچنے کے بعد ایک لفظ خان بہادر کہنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو جاتی ہے۔ مقدمہ چلا لیکن صفائی کے گواہ خان بہادر کے ڈاکٹر اور بیوی نے گواہی دی کہ خان بہادر تو کسی قابل ہی نہیں۔ ادھیڑ عمر خان بہادر رہا ہو کے گھر آئے تو زندگی کے کسی معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ایک صرف انہوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا۔

سوگندھی جو اپنی کھولی کی تنہائی میں چاروں طرف ہولناک سناٹا دیکھتی تھی جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی سب سٹیشنوں پہ مسافر اتار کر اب لوہے کے شیڈ میں اکیلی ہو۔ یہ خلا سوگندھی کو تکلیف دیتا تھا۔ وہ ذہن میں ادھر ادھر کے خیال ٹھونسنے کی کوشش کرتی لیکن تھوڑی ہی دیر میں ذہن چھلنی بن کے خالی ہو جاتا۔ جب دل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملا اس نے اپنے خارش زدہ کتے کو اٹھایا اور ساتھ لٹا کر سو گئی…..

انسانی بے چارگی کی اس سے بہتر تصویر کشی ہو سکتی ہے کیا ؟

ہمیں منٹو سے محبت اس لئے ہے کہ وہ یہ پرواہ نہیں کرتا کہ زمانہ اسے کس پیمانے میں تولتا ہے۔ وہ سماج کو عورت کے متعلق چیلنج کرتا ہے،

” ویشیا کا مکان خود ایک جنازہ ہے جو سماج اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، میں یہ باتیں کرتا رہوں گا۔ یہ لاش گلی سڑی، بدبودار سہی، متعفن سہی، گھناؤنی سہی، لیکن اس کا منہ دیکھنے میں کیا حرج ہے “

منٹو کو عورت کی بے کسی اور خاموشی کھلتی ہے۔ وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے جب عورت اپنے آپ کو حالات کے دھارے کے سپرد کر دیتی ہے اور احتجاج نہیں کرتی،

” میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لئے ذرہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی “

منٹو معاشرے کی اس عورت کے ساتھ آنسو بہاتا ہے جسے وقت کا بہاؤ ایک ایسی منزل کی طرف بہائے جا رہا ہے جہاں پہنچنے کا خواب اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس عورت پہ گزرنے والی کیفیات منٹو اپنے پہ طاری کرتا ہے اور پھر اسی کی طرح لمحہ لمحہ جینا اور مرنا شروع کر دیتا ہے،

“میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پہ دستک دینے آ رہا ہے۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی چٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑا پن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں… میں ان کے متعلق لکھتا ہوں “

پھر اس کی قلم کی دھار کسی زخم کھائے درندے کی طرح سماج کو چیر پھاڑ کے رکھ دیتی ہے۔ وہ چیخ چیخ کے کہتا ہے،

” اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے… مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔ میں تہذیب وتمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا، جو ہے ہی ننگی”

عام حالات میں بھی عورت کی کتھا منٹو خون جگر سے رقم کرتا تھا۔ لیکن بٹوارے میں عورت جب اپنوں کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہوئی، اس نے منٹو کے قلم میں آگ بھر دی۔

“مشرقی اور مغربی پنجاب میں قتل وغارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ہٹے کٹے نوجوان لڑکوں کی ٹولیاں باہر نکلتی تھیں اور ادھر ادھر چھاپے مار کر ڈری دبکی اور سہمی ہوئی لڑکیاں اٹھا کر لے جاتی تھیں”

“سخت اندھیرا تھا گو کہ گاؤں والوں نے مشعلیں روشن کی ہوئی تھیں۔ اس نے اندھیرے میں کئی عورتوں کے سائے دوڑتے دیکھےمگر فیصلہ نہ کر سکا کہ ان میں سے کس پہ ہاتھ ڈالے”

اردگرد اتنا درد تھا جس نے منٹو سے سکینہ سے کا لافانی کردار تخلیق کروا کے معاشرے کہ منہ پہ ایک ایسا تھپڑ رسید کیا جس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

سراج دین جو سترہ سالہ سکینہ کو مختلف کیمپوں میں ڈھونڈتا رہتا ہے جسے بلوائی اٹھا کے لے گئے تھے۔سراج دین بازیابی کے لئے رضاکاروں کی منتیں کرتا ہے۔ وہ آٹھ رضاکار سکینہ کو تلاش کر لیتے ہیں لیکن وہ پھر بھی سراج دین تک نہیں پہنچ پاتی۔ کچھ دنوں بعد جب وہ نیم مردہ حالت میں ہسپتال پہنچتی ہے تو ایک ہی لفظ سمجھتی ہے “کھول دو”۔

فسادات میں لوٹ مار کرتا ٹھنڈے گوشت کا ایشر سنگھ جو آٹھ بندوں کو قتل کر کے ایک لوٹی ہوئی مردہ لڑکی کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ برف جیسی ٹھنڈی مردہ عورت کی کم نصیبی کا نوحہ آج بھی آنکھوں کو اشکبار کرتا ہے۔

منٹو اپنی انگلیاں تو پہلے ہی فگار کیے بیٹھا تھا۔ تقسیم میں عورت پہ کیے گئے ظلم نے اسے خون تھوکنے پہ مجبور کر دیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ معاشرے کے ناخداؤں نے ان پیپ زدہ زخموں کو دکھانے کے جرم میں اس پہ زندگی مزید تنگ کر دی۔ ویشیا کے لئے جنگ کرنے والا، معصوم اور بے قصور عورت کے لئے اپنوں کے ہاتھوں روندا جانا، ارباب اختیار کی دیدہ و دانستہ چشم پوشی اور دوغلے پن کی تاب نہ لا سکا اور زندگی کا بوجھ اتار پھینکا۔

” میں مجسٹریٹ صاحب کو آداب عرض کر کے جانے ہی والا تھا کہ انہوں نے مجھ سے کہا، آپ کب واپس جا رہے ہیں؟

میں نے جواب دیا، غالباَ آج ہی چلا جاؤں گا،

انہوں نے کہا، نہیں… آج نہ جائیے…میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔

مجھے بہت حیرت ہوئی، بہرحال میں نے آمادگی ظاہر کر دی۔

مجسٹریٹ صاحب شام کو کافی ہاؤس پہ ملے، رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے بڑے پیار سے کہا، منٹو صاحب میں آپ کو اس دور کا بہت بڑا افسانہ نگار مانتا ہوں۔ ملنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ یہ خیال لے کر نہ جائیں کہ میں آپ کا مداح نہیں،

میں سخت متحیر ہوا…. آپ میرے مداح ہیں تو آپ نے مجھے جرمانہ کیوں کیا ؟

اس سوال کا جواب ملنا ابھی باقی ہے”

یہ تھی ہمارے معاشرے کی قلعی جو منٹو نے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے کھول دی!

منٹو ، تمہیں رخصت ہوئے اکسٹھ برس گزر گئے۔ مگر تم رخصت ہی تو نہیں ہوئے۔ بیچ چوراہے میں کھڑے ہماری منافقت کے پردے ابھی تک چاک کر رہے ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments