کرونا وبا سے قبل عمرے کا سفر سعادت


مدینہ منورہ کے پرنس محمد بن عبد العزیز انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی ہوائی سفر کی ساری کلفت زائل ہو گئی۔ محض چند گھنٹوں میں پاکستان سے مدینہ منورہ پہنچ جانا یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں۔ خیال آیا کہ گزرے وقتوں میں زائرین اونٹوں کے ذریعے کئی کئی ماہ پر محیط طویل سفر طے کرنے کے بعد دیار حجاز پہنچا کرتے تھے۔ سنتے ہیں کہ خود پاکستان میں حج، عمرہ زائرین کے لئے باقاعدہ بسیں چلا کرتی تھیں۔ احساس ہوا کہ ہم کس قدر خوش نصیب ہیں جو محض سوا پانچ گھنٹوں میں سر زمین مقدس تک آن پہنچے ہیں۔

گھنٹہ آدھ گھنٹہ بعد ہم لوگ اپنے ہوٹل میں موجود تھے۔ یہ ہوٹل مسجد نبویﷺ کے بالکل قریب واقع تھا۔ ایک انتہائی مختصر موڑ مڑتے ہی مسجد نبوی کا گیٹ اور تاحد نگاہ تک پھیلی چھتریاں دکھائی دینے لگتیں۔ محض دو منٹ چلنے پر ہم مسجد میں داخل ہو جاتے۔ چائے پینے اور کھانا کھانے کے بعد میں، امی اور باجی مسجد نبوی میں چلے آئے۔ ٹھیک تین برس بعد میں اس جگہ کو دوبارہ دیکھ رہی تھی۔ وہی صحن، وہی چھتریاں، وہی سبز گنبد، وہی نیلا آسمان، وہی مینار، وہی سنہرے دروازے اور وہی خلق خدا۔

ہم نے عصر اور مغرب کی نماز پڑھی۔ جی بھر کر زم زم پیا۔ اور واپس ہوٹل چلے آئے۔ نماز عشاء کے لئے دوبارہ مسجد کا رخ کیا۔ خواہش تھی کہ روضہ رسول ﷺ پر حاضر ہوں۔ امی کو احتیاطاً وہیل چیئر پر بٹھایا اور خواتین زائرین کے لئے مختص انتظار گاہ میں پہنچ گئے۔ اڑھائی تین گھنٹے بعد داخلے کی اجازت ملی۔ روضہ مبارک کی طرف جانے والا دروازہ کھلا تو زائرین نے برق رفتاری سے روضہ کی راہ لی۔ پندرہ بیس منٹ روضہ رسول پر گزارے۔ درود شریف کا ورد کیا اور نوافل ادا کیے۔

وہیل چیئر پر موجود زائرین کے لئے روضہ مبارک کی جالیوں سے نسبتاً دور ایک علیحدہ حصہ مخصوص ہے۔ اس حصہ میں ہونے کی وجہ سے میں روضے کی جالیوں کو چھو نہیں سکی۔ سبز اور سنہری جالیوں کو دور سے دیکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ تین برس قبل میں ادھر حاضر ہوئی تھی اور ہاتھ بڑھا کر روضہ اقدس کی جالیوں کو بار بار چھو رہی تھی۔ نگرانی پر مامور عرب لڑکی نے مجھے منع کیا تھا۔ کہنے لگی۔ استغفراللہ۔ استغفراللہ۔ ہذا شرک۔ اس کے باوجود مجھ سمیت جسے بھی جالیوں تک رسائی ملتی، نگران کی نگاہ سے بچ کر وہ سبز جالیوں کو چھو لیتا۔

نگران لڑکی کو کون سمجھاتا کہ ہمارے لئے یہ محبت اور عقیدت کا معاملہ ہے۔ اس مرتبہ میں دور سے ان جالیوں کو تکتی رہی۔ پندرہ بیس منٹ بعد نگران خواتین نے ہمیں باہر کی راہ دکھلائی۔ ایک طرف یہ طمانیت کہ پہلے ہی دن روضہ مبارک پر حاضری نصیب ہوگئی۔ دوسری طرف یہ حسرت کہ سبز جالیوں کو قریب سے دیکھنے اور چھونے سے محروم رہی ہوں۔ تہیہ کیا کہ اگلی مرتبہ ( امی اور ان کی وہیل چیئر کے بغیر) اکیلی چلی آوں گی۔ جب میں دل ہی دل میں یہ ارادہ باندھ رہی تھی تو میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ روضے کی سبز اور سنہری جالیوں کے بالکل قریب دو گھنٹے سے زائد وقت گزارنے کی سعادت میرے نصیب میں لکھ دی گئی ہے۔

اگلے دن فجر کے بعد روضہ رسول ﷺکا رخ کیا۔ پتہ چلا کہ انتظار گاہ میں داخلے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں وہیں مسجد میں بیٹھ گئی۔ سوچا کہ ہوٹل واپس جانے کے بجائے قرآن پاک کی تلاوت کی جائے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ دائیں جانب کی انتظار گاہ سے شور اٹھا اور خواتین کا ایک غول برآمد ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہجوم بائیں جانب واقع انتظار گاہ میں داخل ہونے لگا۔ میں دور بیٹھی یہ مناظر دیکھ رہی تھی۔ اگرچہ میں زیارت اور زائرین کے آداب سے بخوبی آگاہ تھی۔

تاہم محبت کے اپنے آداب، اصول اور ضابطے ہوا کرتے ہیں۔ لہذا برق رفتاری سے اٹھی۔ سامنے لگی رسی کو پھلانگا۔ اور اس ہجوم کا حصہ بن گئی۔ مختلف راہداریوں سے گزرتے ہوئے، محض چند منٹوں کے بعد میں روضہ مبارک کی سبز جالیوں کے بالکل قریب کھڑی تھی۔ کافی دیر دعا مانگتی رہی۔ بار بار ہاتھ بڑھا کر روضے کی جالیوں کو چھو تی رہی۔ اتنے میں کسی نے میرا کاندھا تھپتھپایا۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک ضعیف خاتون کھڑی تھیں۔ پنجابی میں کہنے لگیں۔

پتر، تیرے ہتھ لمے نیں۔ میرا رومال وی جالیاں نال لادے۔ (بیٹا تمہارے ہاتھ لمبے ہیں۔ میرا رومال بھی جالیوں سے لگا دو) ۔ سچی بات ہے کہ ان کی یہ بات مجھے علامتی (symbolic) معلوم ہوئی۔ خیال آیا کہ میرے رب نے واقعتاً مجھے لمبے ہاتھ عطا کیے ہیں۔ نہایت سہولت کے ساتھ دنیا جہان کی ہر نعمت، آسائش، اور کامیابی تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ رومال پکڑا اور روضے کی جالیوں سے لگانے کے بعد واپس کردیا۔ پاس کھڑی ایک خاتون نے تسبیح آگے بڑھا دی۔ میں نے وہ تسبیح جالیوں سے لگا کر واپس کی تو ایک کپڑا سامنے آ گیا۔ جسے میں نے جالیوں سے چھو کر واپس کر دیا۔

اسکے بعد میں ایک ستون کے قریب نوافل ادا کرنے لگی۔ درجن بھر نوافل ادا کرنے اور طویل دعا مانگنے کے بعد میں دور بیٹھی روضہ مبارک کو تکتی رہی۔ کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی تو اندازہ ہوا کہ مجھے یہاں آئے ایک گھنٹہ بیت چکا ہے۔ حیرت سے سوچنے لگی کہ کیسے میں ایک غیر متوقع ہجوم کا حصہ بن کر یہاں تک آن پہنچی ہوں۔ میں نے ہری جالیوں کو دیکھ کر خود کلامی کی کہ مجھے خصوصی طور پر داخلے کی اجازت مرحمت ہوئی ہے۔ آج سب سے آخر میں اس جگہ سے جاؤں گی۔

سر دائیں بائیں گھما کر میں پر شوق نگاہوں سے اس مقام مقدس کا جائزہ لینے لگی۔ سبز اور سنہری جالیوں کو دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ یہ حضرت عائشہ کا حجرہ ہے۔ اس جگہ نبی ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے ماہ و سال بسر کیے۔ یہاں نبی ﷺ کی قبر اطہر موجود ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بھی رسول اللہ کے پہلو میں دفن ہیں۔ خیال آیا کہ یہیں کہیں نبی ﷺ صحابہ کرام کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس خوش بخت زمین نے میرے حضور کی قدم بوسی کر رکھی ہے۔

اسی مقام پر حضرت جبریل پیغام رسانی کے لئے نبیﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے۔ منبر کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ عین اس جگہ نبی ﷺ کا منبر ہوا کرتا تھا۔ جس پر براجمان آپ خطبہ فرمایا کرتے تھے۔ اس منبر سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ میرا منبر قیامت کے دن حوض کوثر پر ہو گا۔ ریاض الجنہ کی طرف نگاہ اٹھی۔ خیال آیا کہ اپنے گھر اور منبر کے درمیان والی اس جگہ کو میرے نبی ﷺ نے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دیا ہے۔

میں انہی خیالوں میں کھوئی رہی۔ حسب معمول زائرین کے گروہ داخل اور خارج ہوتے رہے۔ معلوم نہیں کیسے مگر رب جانتا ہے کہ میں کم و بیش سوا دو گھنٹے تک روضہ اقدس پر موجود رہی۔ یہاں تک کہ نگران خواتین کی آوازیں آنے لگیں۔ عربی لہجے میں کہنے لگیں۔ زیارت ختم۔ زیارت ختم۔ دیکھتے ہی دیکھتے روضہ مبارک زائرین سے خالی ہونے لگا۔ ایک دو بار نگران خواتین نے مجھے بھی باہر جانے کو کہا۔ میں نے سر ہلا دیا۔ آہستہ سے بڑبڑائی کہ آج تو سب سے آخر میں یہاں سے جاؤں گی۔

یہ کہہ کر نفل کی نیت باندھ لی۔ پھر میں نے یہ مناظر دیکھے کہ روضہ پر محض گنتی کی چند زائرین رہ گئیں۔ صفائی پر متعین ایک خاتون پلاسٹک کے لفافے میں زمین پر پڑے تنکے وغیرہ اٹھانے لگی۔ میں نے بھی زمین پر پڑے دھاگے وغیرہ اٹھا کر اس کے تھیلے میں ڈالے۔ نگران خواتین نے نیلی لکیروں والے سفید ٹینٹ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے شروع کیے۔ ٹینٹ میں لگے کنڈے نہایت مہارت سے آپس میں ملائے اور روضہ مبارک کے داخلی راستے کو بند کر دیا۔

میں بغور ان کا مشاہدہ کرتی رہی۔ مجھے اپنی خوش قسمتی پر رشک آ رہا تھا کہ میں یوں روضہ مبارک کا دیدار کر رہی ہوں۔ موبائل جیب سے نکالا اور جالیوں کے سامنے کھڑی ہو کر ایک سیلفی لینے لگی۔ ایک نگران آگے بڑھی۔ کہنے لگی۔ ممنوع۔ ممنوع۔ میں نے موبائل واپس جیب میں رکھ لیا۔ میرے رب کی قدرت اور میری انتہائی خوش بختی کہ اس دن میں ان آٹھ دس نگران خواتین کے ہمراہ سب سے آخر میں روضہ رسول ﷺ سے باہر نکلی۔ (جاری ہے )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments