سفرنامہ حج: کعبے پر پڑی جب پہلی نظر


منی۔ عرفات اور مزدلفہ میں ہر سال پانچ دن کے لئے ایک حسین شہر بستا ہے۔ ہر سال پچیس سے چالیس لاکھ تک لوگ فریضہ حج ادا کرنے کے لئے یہاں جمع ہوتے ہیں۔ سفید رنگ کے خیموں کے شہر میں اسی رنگ کے پاکیزہ لباس میں ہر نسل ہر رنگ ہرملک کے باشندے اکٹھے پانچ دن گزارتے ہیں۔ خیموں کے اس شہر میں ہر طرف پاکیزگی ہی پاکیزگی نظر آتی ہے۔ یہیں نویں زوالحج کو ایک دن کے لئے میدان عرفات سجتا ہے۔ حج کے لئے آئے ہوئے سارے لوگ اس دن اس میدان میں جمع ہوتے ہیں۔

اپنے اللہ تعالی کے حضور جھک کر توبہ استغفار کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اپنے رب سے رحمت کی دعا مانگتے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالی بہت ہی غفور الرحیم اور بخشنے والا ہے اور سچے دل سے توبہ کرنے والوں کو معاف فرماتا ہے۔ اس دن سچے دل سے مانگی ہوئی سب دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ عرفات میں دن گزارنے کے بعد سب مزدلفہ میں رات گزارتے ہیں اور یہ ان کی زندگی کی ایک بہترین رات ہوتی ہے۔ اس رات کی تاریکی میں اللہ تعالی کے حضور میں جھکے روسیاہ چہروں پر شرمندگی کے تاثرات اللہ تعالی ہی بہتر سمجھ سکتا ہے۔

اس دن اور رات میں اللہ سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے جو قسمت والوں کو ہی زندگی میں ملتا ہے۔ میری خوش قسمتی کہ میرے اللہ نے اپنے محبوب کے صدقے میں مجھے د و دفعہ یہ موقع فراہم کیا۔ دو سال پہلے حج پر اپنے گزرے ہوئے کچھ لمحات کی روداد اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

سات ذوالحج عصر کی نماز کے بعد بلڈنگ میں اعلان ہوا کہ عشاء کی نماز کے بعد سب لوگ تیارہوجائیں۔ آج رات کو ہماری منی کے لئے روانگی ہے۔ ہماری بلڈنگ کے باہر بسیں آ جائیں گی جو ہم سب کو لے کر منی کے لئے روانہ ہو جائیں گی۔ ۔ ہمارے کمرے میں ہم چھ افراد مقیم تھے۔ میں۔ تاج ولی خان۔ ڈاکٹرناصر علوی۔ عبدالغفار۔ عبدالمجید۔ اور محمد صغیر کیانی۔ سب کی فیملیاں بھی ساتھ تھیں۔ خاتون خانہ۔ بیٹی اور میرا تین افراد کا ہمارا گروپ تھا۔

ہمارے ساتھ والا کمرہ میری خاتون خانہ اور بیٹی۔ تاج ولی خان کی ہمشیرہ اور خاتون خانہ۔ غفارصاحب اور کیانی صاحب کی خواتین خانہ کو مل گیا تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد منی میں قیام کے لئے ہم نے ضروری سامان ایک بیگ میں رکھا۔ کھانے کے لئے کجھوریں۔ بسکٹ چائے کی کیٹل۔ چائے کا سامان اور کپڑے وغیرہ رکھے۔ پاکیزہ ہو کر احرام باندھا اور حج کی نیت سے تیار ہو گئے۔ سب لوگ بھی تیا رہو گئے اور بسوں کا انتظار کرنے لگے، جنھوں نے ہمیں بلڈنگ سے لے کر منی میں ہمارے مکتب تک لے کر جانا تھا۔

کچھ لوگ اپنے بیگ اور خواتین کے ساتھ بلڈنگ سے باہر سڑک پر آ گئے تھے۔ سب لوگ انتہائی خوش تھے آخر کار وہ لمحہ آ گیا تھا جس کے لئے انھوں نے اتنا لمبا سفر طے کیا تھا۔ یہاں آنے کے لئے اپنے رب سے دعائیں مانگی تھیں۔ جوش و ولولے اور اظہار تشکر کی وجہ سے تقریباً سبھی افراد کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ لبوں پرلبیک لبیک کا ورد جاری تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد دو تین گھنٹے انتظار کے باوجود بسیں نہ آنے پر سب کے اضطراب میں اضافہ ہو رہا تھا۔

بسوں کا دور دور تک نام و نشان ہی نہیں تھا۔ کچھ لوگ اب مایوس ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یوں بسوں کے انتظار میں جاگتے سوتے فجر ہو گئی۔ احرام باندھے ہوئے فجر کی نماز ادا کی اور پھر کوچزکے انتظار میں بلڈنگ کے باہر آ کر بیٹھ گئے۔ کوئی چھ بجے کے قریب ایک کوچ آئی۔ سب لوگ اس بس پر پل پڑھے۔ کوئی لائن نہیں کوئی کسی کا خیال نہیں۔ دس منٹ کی دھینگا مشتی کے بعد زورآور بس میں سوار ہو گئے اور باقی لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

بہت غصہ اور بے بسی کا احساس ہوا۔ پھر خیال آیا کہ غصہ اور بے بسی کیوں حج تو ہمیں صبر اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ غصہ تو حرام ہے۔ ان حیالات کے آتے ہی طبیعت بالکل ٹھیک ہو گئی۔ صبح سات بجے تک پھر کوئی اوربس نہ آئی۔ پہلے والی بس میں سوار ہونے کا طریقہ کار اور رش دیکھ کر وہیل چیئر اور دو خواتین کے ساتھ بس پر چڑھنا مجھے بہت مشکل لگا۔ میں نے ارادہ کیا اور بیٹی سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ ہم ٹیکسی پر منی چلے چلیں۔

خاتون خانہ شوگر اور دل کی مریضہ ہونے کی وجہ سے زیادہ پیدل نہیں چل سکتی تھیں اس لئے ہم نے ا ن کے لئے ایک وہیل چیئر کا بندوبست کیا تھا۔ ڈاکٹرناصر صاحب کے ساتھ ان کی والدہ اور ان کی خاتون خانہ تھیں۔ ان کی والدہ بہت ضعیف اور چلنے سے معذور تھیں اس لئے وہ بھی وہیل چیئر پر تھیں۔ میں ٹیکسی لینے کے لئے بلڈنگ سے باہر نکلا تو انہوں نے مجھے کہا کہ میرے لئے بھی ٹیکسی کا بندوبست کر دیں ہم اکٹھے چلتے ہیں۔ باہرسڑک پر نکل کر دیکھا تو ہر طرف ایک ہنگامہ برپا تھا۔

آس پاس کی عمارتوں میں رہائش پذیر سب لوگ اپنے اپنے مکتب جانے کے لئے بسوں۔ ٹیکسیوں اور کاروں میں سوار ہو کر منی جا رہے تھے۔ ایسے میں ٹیکسی ملنا بھی ایک جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ویسے بھی حج کے دنوں میں ٹیکسیوں کے کرائے بھی آسمانوں سے باتیں کر تے ہیں۔ کیونکہ یہی ان کے لئے کمائی کے دن ہوتے ہیں۔ میں بلڈنگ سے تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ خوش قسمتی سے مجھے بڑی سات سیٹوں والی ٹیکسی مل گئی۔ بنگالی ڈرائیور تھا اس سے بیس ریال فی سواری ریٹ طے ہو گیا۔

ہمارے پاس سامان کے علاوہ دو وہیل چیئرز بھی تھیں۔ بلڈنگ سے میری اور ڈاکٹر صاحب کی فیملی کے علاوہ مجید صاحب بھی ہمارے ساتھ ہو گئے۔ ان کی بیوی پہلی بس میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ ہم سب بہت خوش تھے کہ ہمیں ٹیکسی مل گئی ہے اور ہم آسانی سے منی پہنچ جائیں گے۔ جیسے ہی ہم منی کی طرف جانے والی سڑک پر پہنچے تودیکھا کہ بسوں۔ کاروں۔ ٹیکسیوں اور پیدل چلنے والوں کا ایک سیلاب تھا جو منی کی طرف رواں دواں تھا۔

ہمارا ٹیکسی ڈرائیور مختلف جگہوں سے راستہ بناتے ہوئے آگے جا رہا تھا۔ ایک جگہ پر ناکہ لگا ہوا تھا وہاں شرطوں نے روک لیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ان سے کچھ بات چیت کی تو انہوں نے ہمیں جانے دیا۔ تین چار کلومیٹر چلنے کے بعد پھر ایک اور ناکے پر شرطوں نے روک لیا اور بتایا کہ اس مقام سے آگے ٹیکسی کا جانا ممنوع ہے۔ اب ہم ایک ایسے مقام پر تھے جہاں سے ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہمارا کیمپ اور مکتب یہاں سے کتنی دور ہے۔

ڈرائیور نے یہاں بھی شرطوں سے کافی بحث کی لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ آخر میں ایک شرطے نے جب گاڑی میں خواتین اور وہیل چیئرز دیکھیں تو ہمارے ڈرائیور سے کہا کہ آدھا کلو میٹر آگے تک ان کو لے جا کر پل کے ساتھ اتار کے آجاؤ اس سے آگے راستہ بند ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں پل کے پاس اتارا کیونکہ آگے راستہ واقعی بند تھا۔ میں نے اسے کرایہ دیا اپنا سامان اتارا۔ اس نے گاڑی کا نیوی گیٹر دیکھ کر ہمیں بتایا کہ یہاں سے دو کلومیٹر دور آپ کا مکتب واقع ہے اس نے مجھے راستہ بھی سمجھایا۔

ٹیکسی سے اتر کر ہم سب ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو ئے اور اپنے آپ کو پیدل چلنے پر تیار کرنے لگے۔ مجھے بیٹی کی اور ڈاکٹر صاحب کو اپنی بیوی کی فکر تھی جو بھی بیمار تھیں جس وجہ سے ان کو پیدل چلنے میں دشواری تھی۔ میں نے اپنی بیوی اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی والدہ کو وہیل چیئر پر بٹھایا۔ کچھ سامان اس پر رکھا۔ آج کل سمارٹ فون پر گوگل اور حج کے دوران ایک ایپلیکیشن ملتی ہے جس سے آپ کو سفر میں اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔

ہم نے مکہ مکرمہ پہنچتے ہی حج کے سفر کی ایپلیکیشن اپنے فون پر کاپی کر لی تھی۔ سعودی عریبیہ میں انٹرنیٹ بہت ہی مہنگا ہے۔ لیکن سعودی گورنمنٹ نے حجاج کی سہولت کے لئے حج کے دنوں کے لئے ہر موبائل نمبر پر فری ڈیٹا فراہم کیا تھا۔ میں نے اپنے سیل فون پر انٹرنیٹ آن کیا اور گوگل میپ پر جا کر اپنے مکتب کی سٹریٹ کو سرچ کیا تو پتہ چلا کہ ہمارا مکتب یہاں سے دو کلو میٹر دور ہے اور ہمیں پیدل وہاں پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹا لگے گا۔

اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ ۔ ہمارا سات بندوں کا قافلہ پیدل اپنے مکتب کی طرف روانہ ہوا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کئی جگہوں پر بھولے بھی، آخرکار ساڑھے گیارا بجے ہم اپنے مکتب پہنچ گئے۔ اس میں میرا اپنے پہلے حج کا تجربہ بھی کام آیا۔ ہمارے مکتب میں تین خیمے مردوں اور تین خیمے عورتوں کے لئے مختص تھے۔ خیموں میں اوپر نیچے لوہے کے بنک بیڈ لگے ہوئے تھے جن کے اوپرگدے پڑے ہوئے تھے۔ بیڈ اتنے زیادہ آرام دہ نہیں تھے اگر زمین پر گدے لگا دیے جاتے تو وہ زیادہ آرام دہ ہوتے۔

لیکن بنک بیڈ لگانے سے جگہ کی کافی بچت ہو گئی تھی جو گدے زمین پر لگانے سے ممکن نہ تھی۔ میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے خیمے کے ایک کونے میں چھ بستروں پر قبضہ کر لیا۔ دو اپنے لئے اور چار اپنے کمرے والے ساتھیوں کے لئے۔ ساتھ والے خیمے میں ہماری خواتین نے اسی طرح سے اپنے کمرے کی ساتھی خواتین کے لئے جگہ رکھ لی۔ دوپہر کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ اس لئے میں اور بیٹی دونوں مکتب سے باہر نکلے۔ کیمپ سے تھوڑی دور ہمیں ایک برگر شاپ نظر آئی۔

ہم وہاں پہنچے تو کوئی خاص رش نہیں تھا۔ ہم نے برگر اور کولڈ ڈرنکس لئے۔ قیمت مناسب ہی تھی۔ خیمے میں آ کر کچھ دیر ریسٹ کیا اور پھر ظہر کی نماز پڑھی۔ اب خیمے میں دوسرے لوگ بھی آنا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ لوگ پیدل اور کچھ مختلف ذرائع سے اور بہت کم بسوں کے ذریعے پہنچے تھے۔ عزیزیہ بلڈنگ سے منی مکتب تک حجاج اکرام کو شفٹ کرنا معلم کی ذمہ داری تھی۔ لیکن ہمارے معلم نے اچھا بندوبست نہیں کیا تھا۔ بسوں کی تعداد کم تھی اس لئے ہماری بلڈنگ کے حجاج اکرام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

عصر کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے تاج ولی خان کا فون آیا۔ شاہ جی میں بھول گیا ہوں، مکتب نہیں مل رہا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ نیٹ پر وہ گوگل سے چیک کر لیں اور پہنچ جائیں۔ نماز کے بعد پھر ان کا فون آیا کہا انھوں نے کافی ڈھونڈا ہے پر انہیں نہیں مل رہا۔ بہت پریشان ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ اپنے نزدیک کسی مکتب کا نمبر تلاش کریں اورمجھے بتائیں تا کہ ان کو تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ انہوں نے نمبر بتایا۔ میں نے گوگل پر سرچ کیا تو وہ ہمارے مکتب سے ایک میل کے فا صلے پر تھے۔

ان کی خاتون خانہ اوربہن ان کے ساتھ تھیں۔ تھکا ہوا ہونے کے باوجود میں ان کے پاس پہنچا۔ وہ بھی بہت تھکے ہوئے تھے اورخواتین کا ساتھ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ ان کو حوصلہ دیا اور ان کو ساتھ لے کر اپنے خیمے میں پہنچا۔ خیمے میں ہمارے بیڈز پر کچھ لوگوں نے قبضہ کر لیاہوا تھا۔ ان کے پاس کیمپ کا کارڈ ہی نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے ان سے قبضہ چھڑایا اور سب ساتھی ایک جگہ سیٹ ہوئے۔ مغرب سے کچھ پہلے ایک دم ایک کالی گھٹا چھا گئی اور بادل کی گھن گرج سنائی دینے لگی سب حاجی صاحبان خیموں سے باہر نکل آئے۔

تھوڑی بوندہ باندی بھی ہوئی لیکن متوقع ابر رحمت نہ ہوئی۔ مغرب اور عشاء کی نماز خیمے کے باہر باجماعت ادا کی۔ پیدل چلنے اور گرمی کے باعث تھکاوٹ کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہی نیند نے آلیا۔ صبح سویرے ہم نے میدان عرفات کے لئے روانہ ہونا تھا۔ ماشاء اللہ۔ اللہ تعالی نے دو دفعہ اپنے گھر بلایا۔ ایک دفعہ2006 ء میں اکیلے اور دوسری دفعہ اب کی بار بیٹی اور خاتون خانہ کے ساتھ۔ سعودی گورنمنٹ ہمیشہ حج کے بہت اچھے انتظامات کرتی ہے۔

پچھلے کچھ سالوں سے پاکستانی حجاج اکرام کی رہائش کا بندوبست حرم شریف سے دس کلومیٹر دور عزیزیہ میں کیا جاتا ہے۔ وہاں پر بڑی بڑی رہائشی عمارتیں کرایہ پر حاصل کی جاتی ہیں۔ ایک عمارت میں اؤسطً ایک ہزار حاجیوں کے ٹھہرنے کا بندوبست ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے کھانا بھی حج پیکج میں شامل ہوتا ہے۔ آپ کامعلم اگراچھاہے تو آپ کا بہتر خیال رکھا جائے گا۔ اور اگر معلم اچھا نہیں ہے۔ تو آپ کو مشکلات ہوں گی۔ آپ کو بہتر سہولیات میسر نہیں ہوں گی۔

ہماری روایات ہیں کہ ساری عمر کام کرو اور آخری عمر میں حج کرو۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک پاکستانی حجاج اکرام زیادہ تر عمر رسیدہ ہوتے تھے۔ ان پڑھ اور دینی علم سے روشناس بھی کم ہوتے تھے اس لئے انھیں حج میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حج کرتی ہے۔ اور عمر رسیدہ والدین کے ساتھ بھی بیٹے اور بیٹیاں ان کی مدد کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان کی نسبت جب ہم دوسرے ملکوں کا حج کا بندوبست دیکھتے ہیں تو ان پر رشک آتا ہے۔ ان کا کھانے اور رہائش کے انتظامات ہمیشہ ہم سے بہتر ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments