بلوچستان اور ہندوستان


بلوچستان میں ہندوستان کی دلچسپی نئی نہیں جب مسقط نے گوادر کو فروخت کرنا چاہا تب بھی ہندوستان نے اسے خریدنے کی بہت کوشش کی مگر بھلا ہو اس وقت کی متحرک قیادت کا کہ پاکستان نے 8 ستمبر 1958 کو گوادر خرید کر دوبارہ اسے بلوچستان میں شامل کر لیا۔

جب مقبوضہ کشمیر میں ایک جھڑپ کے دوران قابض افواج کے افسر سمیت چند اور فوجی نشانہ بنے تھے یہی خدشہ تھا کہ ہندوستان اس کا الزام پاکستان پر لگانے میں دیر نہیں کرے گا اور اس کے ردعمل میں بلوچستان یا کے پی کے میں کوئی کارروائی کرے گا۔

خاکم بدہن بلوچستان کے علاقے کیچ میں ملک دشمن عناصر کے ذریعے ایک بزدلانہ کارروائی میں مسلح افواج کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔

اس حملے سے جہاں چھ خاندانوں کو اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونا پڑا وہیں وطن عزیز بہادر اور جری جوانوں سے محروم ہو گیا۔

جنوبی بلوچستان کافی عرصے سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ کلبوشن یادو کی گرفتاری کے بعد ملک دشمن کارروائیوں میں کافی کمی دیکھی گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے اپنے ایک اہلکار کی گرفتاری نے ہندوستان کی مسلمان دشمن حکومت کو چراغ پا کردیا، پہلے تو اس نے کلبوشن کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کرنے والے کرنل حبیب طاہر کو نوکری کے جھانسے میں نیپال بلا کر اغواء کیا اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ نہایت بے دردی سے شہید کر دیا۔ اس کے بعد بھارتی ایجنسی نے ایک بار پھر بلوچستان میں اپنا نیٹ ورک مستحکم کر لیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے ایجنٹ اب بھی ایران میں خفیہ طور پر مقیم ہیں اور وہاں بیٹھ کر وطن عزیز کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی 596 میل سرحد ایران سے لگتی ہے جو بہت سارے مقامات پر جغرافیائی اعتبار سے دشوار گزار مقامات پر مشتمل ہے۔ ایسے میں پورے سرحدی علاقوں کا گشت کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں گشت کرنے والے اداروں کو بم پروف گاڑیوں کی فراہمی اشد ضروری ہے۔ اسی طرح عصر حاضر کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا بے حد مفید اور آسان ہو سکتا ہے۔

ایسے سرحدی علاقوں میں جہاں ملک دشمن عناصر کی موجودگی کا خدشہ ہو کی نگرانی کے لیے جدید ترین ڈرون ٹیکنالوجی سے کام لیا جانا فائدہ مند ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ڈرون اسٹیشن اور دیگر سہولیات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایران پوری سرحد پر کافی بہتر سڑک تعمیر کر چکا ہے ان کے ساتھ مشترکہ گشت بھی ان دہشت گرد کارروائیوں سے بچنے کے لیے بہتر ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مقتدر حلقوں کو بلوچستان اور کے پی کے میں انفراسٹرکچر کی ترقی پر کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ریل اور روڈ نیٹ ورک کو بڑھانا چاہیے تاکہ عوام الناس کو بھی اس کا فائدہ مل سکے اور ہمارے دیگر اداروں کے لیے بھی ان علاقوں میں نقل و حمل میں آسانیاں پیدا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ ان علاقوں میں موجود ہندوستانی نیٹ ورک کا قلع قمع کیا جائے۔

ہندوستانی فوج کے میجر نے جس طرح کھلم کھلا بلوچستان میں مداخلت کا اعتراف کیا ہے اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے اس مواصلاتی رابطہ کا سراغ لگایا جانا چاہیے تاکہ ملک دشمن عناصر اداروں کی گرفت میں آسکیں۔ اس سے پہلے مودی بھی کھلے عام بلوچستان کے حوالے سے ہرزہ سرائی کر چکا ہے۔ اس معاملے کو عالمی سطح پر موثر انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو ہندوستان کا اصل چہرہ دکھایا جا سکے۔

کشمیر میں جاری مظالم اور ہندوستانی مسلمانوں کی انتہائی دشمنی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے اور وطن عزیز کو کمزور کرنے کے لیے ہندوستان اس مکروہ کھیل میں ملوث ہے۔ اس سلسلے میں امریکی معاونت سے ہمیں وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول ممکن بنانا چاہیے کہ جس کے ذریعے ہم ہندوستان کی ان حرکات پر کڑی نظر رکھ سکیں۔ ہندوستان کی پاکستان دشمن پالیسیوں کا مکمل اور تفصیلی جائزہ دوست ممالک کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ ان ممالک سے مطلوبہ مدد میسر آ سکے۔ پاکستان کا مستقبل بلوچستان کی ترقی سے وابستہ ہے ایک مربوط، قابل عمل اور مفید منصوبہ بندی پر کاملیت سے عملدرآمد ہی ہمیں ملک دشمن عناصر کے شر سے بچا سکتا ہے۔

ارباب اختیار آخر کب تک قیمتی جانوں کے ضیاع پر فقط اظہار افسوس کے بیانات جاری کرتے رہیں گے اور ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments