پریوں سے ملاقات کرنے کا تیر بہدف نسخہ


\"Mustansir-Hussain-Tarar-2\"

کیا میں جنوں، بھوتوں، چڑیلوں اور پریوں پر یقین رکھتا ہوں؟جنوں کا تذکرہ تو قرآن پاک میں آچکا تو حق ہے، لیکن یہ وہ جنات نہیں ہیں جو ان دنوں دھڑا دھڑ نوجوان لڑکیوں کو چمٹ رہے ہیں اور اُنہیں نکالنے کے لئے عامل حضرات لڑکی کو مار مار کر ادھ موا کردیتے ہیں۔ اور اکثر تنہائی میں ایسا کرتے ہیں کہ ایسے جن تخلیہ پسند کرتے ہیں۔ میرا علم ہر نوعیت کا چونکہ خاصا محدود ہے اس لئے جب کبھی مجھے کسی محیرالعقول نوعیت کے واقعے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ میرے ساتھ کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا، دوسروں کے ساتھ ہوا ہوگا اور میں اُن کی نیت پر شک نہیں کرتا کہ میں اُن کی مانند پہنچا ہوا نہیں ہوں۔

قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد جن حیرت کی سرزمینوں کے مسافر ہوئے، میں نہیں ہوا تو میں نہ اقرار کرتا ہوں اور نہ انکار۔ ان دنوں اپنے بابا یحییٰ خان بہت ’’اِن‘‘ ہیں۔ اُن کی کتابیں جس شاندار گیٹ اپ اور تخلیقی آرائش سے تزئین شدہ چھپتی ہیں یوں تو میڈونا اور شکیرہ کی کتابیں بھی نہ چھپتی ہوں گی۔ اگرچہ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ میں نے حضرت یحییٰ کی خصوصی فرمائش پر اُن کی ایک کتاب پر ایک مختصر دیباچہ لکھا تھا کہ اُن کی نثر اور کردار نگاری بہت مؤثر ہے، اور جو ناقابل یقین، دنگ کر دینے والے واقعات اور سانحات اُن کی کتابوں میں درج ہیں وہ بھی سچ ہی ہوں گے کہ وہ بھی پہنچے ہوئے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اشفاق صاحب نے اُنہیں وہاں پہنچایا، جہاں بھی پہنچایا۔ ہماری پہنچ وہاں تک نہیں ہے، تو ہم بھولی بھینسیں کیا جانیں کہ تصوف کی انارکلی کی کیا شانیں ہیں۔

\"سد

اب رہ گئی بات بھوتوں، چڑیلوں اور پریوں کی۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا مختصر ترین افسانہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص نے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا، کیا تم بھوتوں پر یقین رکھتے ہو؟اُس شخص نے کہا ’’نہیں‘‘اور غائب ہوگیا۔ البتہ اِس طویل حیات کے دوران کچھ پریوں سے ضرور ملاقاتیں وغیرہ ہوئیں، وہ نہایت مہربان پریاں تھیں اور اُنہیں ملتے ہوئے وہ فلمی گانا یاد آتا تھا کہ۔ کوئی دیکھے پیار کی جادوگری، گلفام کو مل گئی سبز پری۔ ہم گلفام تو نہ تھے کہ ہمارا رنگ خاصا مشکی تھا لیکن کچھ سبز پریاں بہرطور ہم پر مہربان ہوئیں، آپ آگاہ ہوں گے کہ ہمارے ہاں سائیں اور صوفی لوگ بھنگ کو سبز پری کا نام دیتے ہیں، اسے ’’ساوی‘‘ بھی کہتے ہیں تو ہم سے قسم لے لیجئے کہ ہماری زندگی میں آنے والی سبز پریاں ہرگز بھنگ والی پریاں نہ تھیں، البتہ ان پریوں میں سے ایک دو بعد میں چڑیلوں میں بدل گئیں، یعنی میں پریوں اور چڑیلوں پر تجربے کی بناء پر یقین رکھتا ہوں۔

\"haramosh-tarar\"

میں آج سے کوئی تیس برس پیشتر سکردو سے تب ایک گمنام وادی خپلو کی جانب سفر کر رہا تھا، میرے برابر میں تشریف فرما ایک مقامی مولانا نے مجھے پہچان لیا اور بلتستان جسے تبت خورد بھی کہا جاتا ہے اس کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتانے لگے اور وہ ایک نہایت کیوٹ سے مولانا تھے، ہولناک نوعیت کے نہ تھے تو میں نے اُن سے پوچھا کہ بلتستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بلند برفانی پہاڑوں اور دور افتادہ وادیوں میں چڑیلیں اور پریاں پائی جاتی ہیں تو کیا یہ سچ ہے؟وہ کیوٹ مولانا کہنے لگے ’’تارڑ صاحب۔ یہ سو فیصد سچ ہے، دور کیا جانا خپلو سے کچھ فاصلے پر پہاڑوں کے اندر میرا گاؤں ہے، اور ہمارے گاؤں میں پریوں کے بچے ہیں، اگر یقین نہ آئے تو میرے ساتھ چلئے دکھا دوں گا۔ پریوں کے بچے ہیں۔

میں نے اُن سے یہ نہیں پوچھا کہ یہ بچے کیا صرف پریوں نے بغیر کسی بیرونی مداخلت کے پیدا کیے ہیں اور اگر مداخلت ہوئی تو کسی نر پرے کی ہوئی یا حضرت انسان کا بھی اس میں دخل یا دخول ہے، میں نے اُن سے صرف یہ پوچھا کہ کیا آپ پریوں سے ملاقات کر سکتے ہیں؟ تو وہ کہنے لگے اور واقعی وہ بہت کیوٹ تھے، اگر آپ پریوں سے ملنے کے خواہاں ہیں تو اس کا ایک طے شدہ طریقِ کار ہے۔ کسی چاندنی رات میں، غسل کیجئے، اپنا بہترین لباس زیب تن کیجئے، اُس پر تیز خوشبو چھڑکئے اور اپنے گاؤں پر امڈتے پہاڑ کی چوٹی تک چلے جائیے۔ پریاں اتر آئیں گی، ازاں بعد کیا ہوگا اس کے بارے میں شرع خاموش ہے۔

\"کٹ

اگر ہم قدرت اللہ شہاب، مفتی جی اور بابا یحییٰ پر شک نہیں کرسکتے تو اُس کیوٹ مولانا پر کیسے شک کر سکتے ہیں۔ تب میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس برس تو نہیں اگلے برس اِدھر آؤں گا، مولانا کیوٹ کے پہاڑی گاؤں میں اُن کا مہمان ہوں گا، کسی چاندنی شب غسل کروں گا، نئے کپڑے پہن کر اُن پر عطر پھلیل چھڑک کر پہاڑ کی چوٹی پر جا کر پریوں کو دعوت عام دوں گا۔ اچھا ہوا، ایسا نہ ہوا۔ اگر مچ ہم کوئی پری نمودار ہو جاتی اور اپنے سامنے کسی گلفام شہزادے کی بجائے نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت بوڑھے کو دیکھ کر کتنی مایوس ہوتی کہ اس نے کیا پیدا کرنا ہے، پری کے بچے کہاں جنم لیتے، ناممکن تھا کہ جنم لیتے۔

ویسے شمالی علاقہ جات کی جتنی بھی لوک داستانیں اور گیت ہیں اُن سب میں پریاں رقص کرتی ہیں اور چڑیلیں راج کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments