سائنس کا پول بھی کھل ہی گیا


دسمبر 2019 سے اب تک تقریباً عرصہ 6 ماہ کا ہو چکا ہے کرونا نامی وبا نے دنیا بھر میں لگ بھگ تین لاکھ افراد کو بے رحمی سے موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے اور 40 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے۔ دنیا بھر کے ذہین و فطین اذہان نے متاثرہ افراد کو قرنطینہ اور اپنے اپنے ملکوں کو لاک ڈاؤن کرکے کرونا کی شدت کو روکنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ یہ حکمت عملی وجود کائنات کے بعد ہر دور میں پھیلنے والی وباؤں کی روک تھام کے لیے صدیوں سے استعمال ہوتی چلی آرہی ہے۔ جو اس جدید ترین دور کے دعویداروں نے اپنائی ہے۔

کعبہ، کلیسا، مسجد، مندر اور معبد میں نظر آنے والے خدائی پجاریوں نے کرونا کی تباہ کاریوں کے خطرے کو بروقت بھانپ کر ملحدین کے طعن و تشنیع کے باوجود اپنی اپنی عبادت گاہوں کے دروازوں پر تالے ڈالنے میں ہی عافیت جانی۔ آب زمزم سے لے کر گنگا جل اور مسیحی بپتسمے سے لے کر کیمل یورائن و پوتر گؤ موتر تک سبھی لیکوئڈز کرونا کے وار کے سامنے بے اثر ثابت ہوتا دیکھ کر تو مجھ ایسے سائنسی نظریات و کمالات کے پروموٹر افراد الکوحلک سینٹایزر سے ہاتھ دھو کر ادیان کی حقیقت کے تقریباً پیچھے ہی پڑ گئے۔ دور و نزدیک کی کوڑیاں لا کر مذاہب کی بیخ کنی کے لئے سائنسی عقل و دلائل کے گھوڑوں پر سوار میدان میں اتر پڑے۔

اور کرونا کے علاج کی دریافت کے لیے دنیا بھر میں مصروف عمل لیبارٹریوں پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ امیدیں باندھ کر بیٹھ گئے۔ مختلف عقائد کے حامل افراد کو صبر کی تلقین و تبلیغ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ اس وقت دنیا بھر میں 150 سے زائد ادویات پر تحقیق ہو رہی ہے۔ دنیا کی 21 سے زائد نامور اور مشہور زمانہ ادویہ ساز کمپنیاں جن میں گلیکسو سمتھ کلائن، سنوفی، موڈرینا، فائزر، جانسن اینڈ جونسن، نواویکس، بائیوٹیک، روش وغیرہ شامل ہیں۔ جو چند دنوں میں ویکسین دریافت کرکے آپ کے ہاتھوں میں پکڑا دیں گی۔

مگر کیا کیا جائے قدرت نے ان سب کی کوششوں کو ملیامیٹ کرکے اپنی واضح برتری ثابت کردی ہے۔ چاند و مریخ کے فاتحین، فائیو جی ٹیکنالوجی کے حامل، آئرن ڈوم، بلسٹک میزائل، ایٹمی آبدوزوں، ایٹم بم کے موجد، بلند و بالا عمارتوں کے معمار، موسم کو تبدیل کر کے، مصنوعی بارش برسانے والے فاخر، اپنا چاند اور سورج تک تیار کرنے والے، ہوا، صحرا اور سمندر پر کنٹرول حاصل کرنے کے دعویدار حتی کہ مرد سے عورت اور عورت سے مرد پیدا کرنے اور رحم مادر میں زیر تخلیق بچے کی پیدائش کے بعد ہونے والی بیماریوں تک کا علاج دریافت کرنے والے پردھانوں نے قدرت کے ننھے منے سے وائرس کے سامنے نہ صرف بے بس ہو کر گھٹنے ٹیک دیے ہیں بلکہ اربوں کھربوں ڈالرز کے نقصان سے بھی دوچار ہوچکے ہیں۔ تمام معاشی اداروں کے بزنس ٹائیکونز اپنی اپنی بلوں میں گھس کر سر پیٹ رہے ہیں۔

اب یونیورسٹی آف پٹسبرگ سے لے کر ایراموس میڈیکل سنٹر تک دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تحقیقی، علمی، سائنسی تجربہ گاہوں اور اداروں کا مذہبی مراکز کی طرز پر لاک ڈاؤن کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

دنیا بھر کے نامور ریسرچرز، پروفیسرز، سائنسدان اور ڈاکٹرز بطور خاص جن میں لوئس فالو، اینڈریا گیمبوٹو، ین کم، گیزا ایڈووس، شاہوا ہوانگ، تھامس کنسٹن، اسٹیفن بالمرٹ، کاراڈونا ہواکیری، مائیکل ایپرلی، ولیم کلمسٹرا، ایمرولا کورکمز اور برٹ ہاگمنز شامل ہیں کو دیگر عالمی مذہبی رہنماؤں کی طرح اپنی عزت بچاتے ہوئے چپ چاپ پتلی گلی سے نکل کر قرنطینہ کی راہ ماپنی چاہیے کیونکہ قدرت نے ان کی قابلیت اور تحقیق کی بینڈ بجا دی ہے۔ (محترم غضنفر عباس غالباً اس گاؤ بجاؤ ترکیب کی کنہ سے واقف نہیں۔ ورنہ ان جیسے شائستہ مزاج لکھنے والے سے اس کا ظہور متوقع نہیں تھا۔ مدیر) اور سائنس کے ڈھول کا پول کھول کر ان سب کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

دنیا جسے لاک ڈاؤن کہہ رہی ہے درحقیقت وہ قدرت کی جانب سے کیا گیا شٹ ڈاؤن ہے۔ کائنات کی ملکیت کا دعویدار انسانوں کی جانب سے کی گئی کرہ ارض کی توڑ پھوڑ کی مرمت کا ٹھکیہ کرونا جیسے نہایت قابل ٹھیکیدار کو دے چکا۔ جو اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اب اپنا بوریا بستر گول کرنے کے چکر میں ہے۔ ماہرین کے مطابق اوزون کی تہہ مکمل طور پر مرمت ہوچکی ہے۔ دنیا بھر کی فضائی آلودگی میں نمایاں کمی کی بدولت ائیرکوالٹی انڈیکس میں بہتری ہوئی ہے۔ کرہ ارض پر بسنے والے دیگر جاندار بھی سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ نایاب پرندے بھی اب صبح دیر تلک شہروں میں چہچہاتے پائے گئے ہیں۔ زیر سمندر آبی مخلوق بھی صاف پانی سے بآسانی آکسیجن جذب کر رہی ہے۔ ایکسیڈنٹ اور مختلف بیماریوں سے ہونے والی اموات کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کرہ ارض کی کافی حد تک تعمیرومرمت مکمل ہوچکی اب محض صفائی ستھرائی کچرے کو ٹھکانے لگانے یہود و ہنود مسلم و ملحد اور سائنس وٹیکنالوجی کی منجی ٹھونکنے کے بعد کرونا کی واپسی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

کربلا و نجف دنیا کے سب سے پہلے کھلنے والے مذہبی مقامات کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ خانہ کعبہ سمیت دیگر مذہبی معبد بھی جلد کھل جائیں گے اور عبادت گزار اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنی من پسند عبادت گاہوں میں مشغول عبادت ہوجائیں گے۔ تاہم سائنس نے مجھے شدید مایوس کیا ہے۔ یقین مانئیے میرا تو سائنس اور ٹیکنالوجی سے ایمان کی حد تک اعتبار اٹھ چکا ہے۔ (رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو – مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments