خان صاحب کے غیر قانونی یار


پاکستان کا ٹرک آرٹ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ٹرکوں پہ لکھے جملے، اشعار اور محاورے اس آرٹ کو مزید دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ ان میں چند جملے اور محاورے تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو دیکھنے میں معمولی محسوس ہوتے ہیں مگر درحقیقت وہ اپنے اندر حکمت کا سمندر تھامے (سموئے ) ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اشاروں اور کنایوں میں بہت کچھ آئینہ کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایسے جملے کہ انسان لکھنے اور لکھوانے والے کے فہم کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

گزشتہ روز سڑک پر سفر کرتے ہوئے میری نظر ایک گاڑی پر پڑی جس کے پیچھے لکھا ہوا تھا ”غیر قانونی یار میرے“ اس لمحے تو میں نے یہ جملہ پڑھ کر نظر انداز کر دیا لیکن وہ الفاظ میرے دماغ میں دیر تک گردش کرتے رہے۔ میں ان کے معنی و مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ سوچتا رہا کہ آخر ”غیر قانونی یار“ ہوتے کون سے یار ہیں۔ بالآخر سوچتے سوچتے اچانک میرے خیال کے گھوڑے ایوان اقتدار کی طرف دوڑنا شروع ہوگئے جہاں مجھے موجودہ حکومت، اس میں موجود لوگ اور اس کے اخراجات اٹھانے والے نظر آئے۔

پھر میں نے عمران خان صاحب سے جہانگیر ترین صاحب تک، خسرو بختیار صاحب سے زلفی بخاری صاحب تک، فواد چوہدری صاحب سے پرویز خٹک صاحب تک، بابر اعوان صاحب سے فروغ نسیم صاحب اور عامر کیانی صاحب سے لے کر ڈاکٹر ظفر صاحب تک نظر دوڑائی تو مجھے سب کے سب عمران خان صاحب کے غیر قانونی یار نظر آئے۔ اس وقت پاکستان مکمل طور پر غیر قانونی یاروں کے ایسے ٹولے کے ہاتھوں میں ہے جو ذاتی انا اور مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے چاہے انہیں ووٹ چوری کرنے پڑیں، معیشت کی کشتی ڈبونی پڑے یا ملک کے آگے بڑھتے ہوئے پہیہ کو روکنا پڑے، وہ کسی بھی چیز سے گریز نہیں کرتے۔

بد قسمتی سے پاکستان ایسے غیر قانونی یاروں کے نرغے میں ہے جہاں پہلے ایک دوست دوسرے دوست کو وزیراعظم بنوانے کے لیے غیر قانونی طریقے سے پیسے کا بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ پھر اس دوست کے احسانات چکانے کے لیے دوسرا دوست وزیر اعظم بننے کے بعد غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے آٹا اور چینی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے اس دوست کی ستانوے ارب کی دیہاڑی لگواتا ہے۔ حقائق منظر پر آنے کے بعد پھر وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے دکھاؤے کے طور پر کسی کی وزارت بدل دیتا ہے تو کسی کے دفاع میں پوری کی پوری کابینہ کو ہم آواز ہوکر سامنے آنے کا حکم دیتا ہے۔

بات اتنی سادہ نہیں کہ یہاں ہی ختم ہو جائے۔ بلکہ خان صاحب غیر قانونی یاروں کو نوازنے کے لیے آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کسی کو دوہری شہریت کے باوجود بھی نواز دیتے ہیں اور جو نوازشات سے محروم رہ جاتے ہیں ان کی احساس محرومی ختم کرنے کے لیے سادگی اور تبدیلی کے نعروں (آئین کی بالا دستی، آئین کے مطابق وزیروں کی تعداد ٹھیک ہے ) کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پچاس کے قریب لوگوں کو وزارتوں سے نواز دیتے ہیں۔

خان صاحب کی اپنے غیر قانونی یاروں پر کرم نوازی کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر سب کے بارے میں لکھا جائے تو کتابی شکل میں شائع کیے جا سکتے ہیں۔

مشہور کہاوت ہے کہ ”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور“ ۔ اگر خان صاحب کو اس کہاوت کے ترازو میں تولا جائے تو وہ اس پر پورا اتریں گے۔ اقتدار ایسی شے ہے جو اسان کو عقلی طور پر اندھا کر کے اسے کسی بھی حد سے گزر جانے کے لیے ہمہ وقت تیار رکھتی ہے۔ گزشتہ بائیس سال عمران خان صاحب انصاف اور قانون کی بالا دستی کا علم بلند کرنے کے عزم کرتے رہے لیکن جونہی اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھا تو وہ نا انصافی اور لا قانونیت پر اتر آئے۔ مثال کے طور پر انہیں چھتیس سال پرانا میر شکیل الرحمان کا کیس یاد آ جاتا ہے، انہیں حزب اختلاف جماعتوں کے دہائیوں پرانے کیس بھی نظر آ جاتے ہیں

مگر انہیں اپنے غیر قانونی یاروں کے مالم جبہ اسکینڈل، بی آر ٹی پشاور، خیبر پختونخوا کی ٹمبر مافیا، توانائی شعبے میں بدعنوانی، آٹا/ چینی چوری، وفاقی محکمہ صحت میں عامر کیانی صاحب کی کرپشن، اور کرونا جیسی موذی بیماری کے درمیان فیس ماسکس کی اسمگلنگ نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اقتدار کی ہوس نے ان کی انصاف اور قانونی بالادستی والی سوچ پر طوطا چشم کر دیا ہے۔

آخر میں یہ کہنے میں بالکل بھی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ لوگوں کو یہ مغالطہ ہے کہ خان صاحب برابری کی سطح پر احتساب کرتے ہوئے سب کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے لیکن ایسا سوچنا بھی خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اگر خان صاحب ایسا کرتے ہیں تو ان کے غیر قانونی یار ان کے پیروں تلے سے سیڑھی کھینچ لیں گے جس کے نتیجے میں خان صاحب کی یہ غیر قانونی حکومت ان کے غیر قانونی یاروں کے ہاتھوں ہی تلپٹ ہو جائے گی۔ اس لیے غیر قانونی یار ایک دوسرے کو تحفظ دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور یہ لا قانونیت کا کھیل ایسے ہی جاری رہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments