وائرس دشمن بھی، دوست بھی


ان چاہے مہمان اور گھس بیٹھیے سے نفرت سب کو ہوتی ہے، لیکن ایسا ان چاہا مہمان جو میزبانی کے عوض بیماری دے۔ اپنے قیام کو میزبان کی موت تک طوالت دے۔ اور میزبان کا اس قدر نقصان کرے کہ تھوڑی مدت میں میزبان موت کے منہ میں چلا جائے۔ تو یقیناً ایسے مہمان کے خاتمہ کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے؟

یہ بے ادب مہمان بیکٹیریا سے سو گنا چھوٹا ہوتا ہے۔ عام آنکھ سے کیا، عام خوردبین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ بلکہ اسے دیکھنے کے لئے الیکٹران مائکروسکوپ استعمال کرنا پڑتی ہے۔ وائرس زمین پہ انسانی وجود سے بھی قدیم ہے۔ پروٹین کی ایک جھلی کے اندر بند نیوکلیک ایسڈ (RNA یا DNA) پر مشتمل ہوتا ہے۔ دھاگے، راڈ، گول یا دیگر مختلف شکلوں کے ان وائرس کی پیمائش معلوم کرنی ہو تو ہمیں نینو میٹر کا پیمانہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اور اندازہ لگائیے کہ ایک انچ کے دسویں حصہ میں 2,54,000 نینو میٹر ہوتے ہیں۔ قطر 20 سے 300 نینو میٹر اور لمبائی 700 سے 1400 نینو میٹر ہوسکتی ہے۔ اب تک وائرس کی 30,000 اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ جنہیں 71 فیملیز میں ساخت، افزائش، اور صلاحیت وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے۔

وائرس میں علیحدہ وجود اور افزائش نسل، زندگی کی دو ہی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ دونوں صلاحیتیں بھی میزبان کے میسر آئے بغیر ممکن نہیں۔ وائرس کو زندہ رہنے کے لیے، ایک میزبان خلیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خلیہ جانور، انسان، پودے کا، حتٰی کہ آنکھ سے نہ نظر آنے والے بیکٹریا بھی ہو سکتے ہیں۔ وائرس کو میزبان میں منتقلی کے لئے اپنے ہدف کا حفاظتی تالا توڑنا ہوتا ہے۔ حفاظتی تالا توڑ کر خلیہ میں گھسنے والا وائرس ہی کامیاب ہوتا ہے، کہ وہ بن بلایا مہمان بنے اور اپنے میزبان کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرے۔

عمل تخریب سرانجام دینے کو ضروری توانائی بھی میزبان سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔ اور اسی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے خلیے کو ہائی جیک کرکے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اس وائرس سے مزید ان گنت وائرس بنا دے۔ ایک سے کئی وائرس بنانے کے عمل میں بننے والے نئے وائرس میں اگر کوئی فرق آئے گا۔ تو اس کا نقصان بھی بیماری کی مزید پیچیدہ صورت میں میزبان کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ ایک دفعہ وائرس کے بڑھنے کا یہ عمل خلیہ میں شروع ہو جائے تو خلئے کی بیرونی دیوار کے پھٹنے تک جاری رہتا ہے۔

وائرس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے، کہ میزبان کے جسم میں نظام ہضم کے لئے بننے والی مختلف رطوبتوں کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ مختلف درجہ حرارت میں محفوظ رہنے اور خاص درجہ حرارت پر اپنی افزائش کئی گنا بڑھا کر بیماری کو آخری حدود تک لے جانے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ وائرس اپنے میزبان میں گھس بیٹھ کرنے، اندھا دھند افزائش کرنے اور بیماری سے ہلاک کرنے تک ہی نہیں رکتا۔ بلکہ ایک سے دوسرے میزبان میں جسمانی رابطے، کپڑوں، روز مرہ استعمال کی اشیاء، پانی، ہوا میں معلق بوندوں وغیرہ کے ذریعے ایک سے دوسرے میزبان میں پھیلتا ہے۔ لیکن تاحال اس بات کے ناکافی شواہد ہیں کہ پودوں سے وائرس جانوروں میں یا جانوروں سے وائرس انسانوں میں منتقل ہوسکے۔

صدیوں سے یہ وائرس خسرہ پولیو، چیچک، ایبولا اور ایڈز جیسی بیماریوں کا باعث بنتے چلے آ رہے ہیں۔ جبکہ کورونا خاندان کے کووڈ 19 نامی وائرس سے نسل انسانی حالیہ دنوں میں نبردآزما ہے۔

وائرس کے خلاف پہلا اور مضبوط دفاع انسانی جسم کی قوت مدافعت ہے۔ قوت مدافعت کے باعث انسانی جسم بن بلائے مہمان کی شناخت کرتا اور خون میں موجود سفید سیلز اینٹی باڈیز بناکر وائرس کو ناکارہ کردیتے ہیں۔ شدید حملہ یا کمزور قوت مدافعت کی صورت میں ویکسین اور اینٹی وائرل ادویات وائرس کی افزائش روک کر، اس کے خاتمہ کے لئے جسم کو ضروری قوت مہیا کرتی ہیں۔ جبکہ اینٹی بائیوٹک ادویات وائرس کے خلاف غیر موثر ہیں۔

ان گھس بیٹھیوں سے متعلق پہلی کھوج 1898 ء میں ہوئی اور آخر کار 1955 ء میں وائرس کی ساخت دریافت ہوئی۔ دریافت اور جستجو کا یہ انتھک سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس ان چاہے مہمان کو اس کے نقصانات ہی نہیں، خالق کے مربوط سلسلہ ارتقاء کی ایک اہم کڑی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وائرس ہی ہیں، جن کی بدولت مختلف انواع میں جینز کی منتقلی ممکن ہوئی۔ وائرس کی کچھ اقسام انسانی جسم کے لئے تحفظ بھی فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ وائرس کے استعمال سے اینٹی بائیوٹک ادویات کا نعم البدل بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔

بات ان چاہے مہمان سے چلی اور روشن امکانات کے ساتھ مستقبل کی دوستی تک آپہنچی۔ یقیناً مستقبل امیدوں اور امکانات سے پر ہے۔ جب دوست وائرس سے خوفناک بیماریوں کے علاج کا کام لیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments