زندگی دھوپ تم گھنا سایہ


نہ جانے معروف شاعر جناب جاوید اختر نے یہ شعر کس کے بارے میں کہا ہے لیکن میں جب بھی اس شعر کو پڑھتا یا کسی کی زبانی سنتا ہوں تو مجھے اپنی ماں یاد آتی ہے :

تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایہ

الحمدللہ میری ماں اب تک حیات ہیں اور جو لوگ اس سائے سے محروم ہوچکے ہیں، ان کے اوپر مجھے بڑا رحم آتا ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اپنی ماؤں کو کھونے والوں نے زندگی کا ایک بیش بہا خزانہ کو کھو دیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ دنیا میں جس چیز کی حقیقت پر سب انسانوں کا اتفاق ہے وہ موت ہے، لیکن میرا دعویٰ ہے کہ موت کے بعد دوسری چیز ماں کی محبت (ممتا) ہے جس کی حقیقت ہر رنگ و نسل اور مذہب والوں کے ہاں مسلم ہے۔

ماں کی ذات اپنی اولاد کے لئے ہر وقت اور ہر جگہ سراپا محبت، شفقت اور بے پناہ ایثار و قربانی کا استعارہ رہا ہے۔ رب کائنات انسان کا حقیقی رب ہے تو ماں کو ہم اولاد کا مجازی رب کہہ سکتے ہیں۔ بیٹا ہو یا بیٹی خواہ اپنی ماں سے کتنی بے وفائی اور دغا بازی کر لیں مگر ماں پھر بھی اس کو اپنا جگر گوشہ سمجھتا ہے اور اپنی اولاد کو پہنچنے والی رتی بھر تکلیف اس سے برداشت نہیں ہو پاتی۔ ماں کی لازوال محبت کے بارے میں یہاں مجھے ایک حکایت یاد آئی کہ کہیں ایک نوجوان ایک حسین و جمیل دوشیزہ کی محبت میں جنون کی حد تک گرفتار ہوا۔

اس پرخار وادی میں عاشق بے چارے کو ہجر کے مہ و سال کاٹنے اور ہزار صعوبتیں جھیلنے کے باوجود اپنی محبوبہ کو مسخر کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن محبوبہ نے ان کے سامنے ایک شرط رکھی کہ وہ خود کو اس وقت ان کے حوالے کرے گی جب وہ اپنی ماں کا سینہ چاک کرکے اس کا دل ان کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ پیشکش سن کر نوجوان اپنی ماں کا دل نکالنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اگلے روز ظالم نے ماں کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کے سینے سے دل نکال کر محبوبہ کی طرف دوڑنے لگا۔

فرط محبت اور فرط جذبات کے عالم میں نوجوان راستے میں ایک معمولی ٹھوکر لگنے سے گر پڑے۔ اس دوران ان کی مٹھی میں ماں کا دل تڑپ اٹھا، جس سے یہ آواز آئی : ”اف․․․ میرے لال! ٹھوکر لگنے سے تجھے تو تکلیف تو نہیں پہنچی؟ پلیز آئندہ راستے پر چلتے وقت محتاط رہو“ ۔ مطلب یہ کہ اپنے ناخلف بیٹے کے ہاتھوں قتل ہونے کے باوجود بھی ماں سے اپنے بیٹے کی معمولی تکلیف برداشت نہیں ہوئی اور راستے پر پھونک پھونک کر چلنے کا درس دیتی ہیں۔ عباس تابش نے کیا اچھا کہا ہے،

ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

اس رشتے کو نہایت احسن طریقے سے نبھانے کے بارے میں دین اسلام نے ہمارے اوپر کئی ذمہ داریاں ڈال دی ہیں جس کا پاس رکھنا سعادت دارین (دونوں جہانوں کی خوش بختی) کی گارنٹی دیتی ہے۔ قرآن میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”ولا تقل کہما اف، ولا تنہر ہما (انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا) ۔ یعنی اولاد کو ہراس چھوٹے سے کام یا ادا سے احتراز کرنا چاہیے جو والدین کی اذیت کا باعث بنتاہے۔ رسالت مآب ﷺ نے اس رشتے کو اپنے فرمودات کا خاص محور بنایا ہے اور امت کو جابجا والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا کہا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کے مطابق ایک دفعہ ایک شخص رسالت مآب ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت کروں؟ فرمایا ؛ تیری ماں۔ عرض کیا اس کے بعد کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا؛ تیر ماں۔ اس شخص نے عرض کیا کہ پھر․․․․ آپﷺ فرمانے لگے ؛ تیری ماں۔ چوتھی بار جب رسول اللہ ﷺ سے اس بابت عرض کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ ”تیرا باپ“ (بخاری ومسلم) ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی والدین اور اولاد کا ایک دوسرے سے محبت اور تعلق کے رشتے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ؛ والدین کا اپنی اولاد سے محبت کرنا فطری اور طبعی ہے جبکہ اولاد کی طرف سے یہ محبت ارادی اور اختیاری ہوتی ہے، اسی لئے جملہ ادیان میں اولاد کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں۔ انجم سلیمی تو یہاں تک دعویٰ کرچکے ہیں کہ ماں جیسی نعمت کا نعم البدل خدا بھی نہیں ہو سکتا، روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں

ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں
نظیر باقری اس ذات کی زبان سے نکلنے والی دعا کو میدان کارزار میں ایک غیبی ڈھال سمجھتے ہیں کہ؛
اس لئے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ میری ماں کی دعا رکھی تھی۔

آئیے اپنے والدین سے اپنی نافرمانیوں اور سرکشیوں پر معافی مانگیں اور ان کی دعاؤں کی بدولت سعادت دارین حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments