علمائے کرام کی ایک بیٹھک اس مسئلے پر بھی بنتی ہے؟



انسانی حیات میں کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں، جو صرف اسے لیے حل نہیں ہو پاتے، کیونکہ ہم ان پہ بحث کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور جن کو بعض دفعہ حساس موضوعات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایسے میں سب سے حساس موضوع جو ہمارے ملک میں پایا گیا ہے، وہ ہے مذہب اور ان سے جڑی روایات، رسومات اور عقیدے۔ ایک عام انسان ان اب موضوعات پہ بحث کرنے سے بھی ڈرتا ہے کہ، کہیں کچھ وہ غلط نہ کہہ بیٹھے اور توہین کہ زمرے میں نہ آجائے۔ ایسے حساس موضوعات پہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت صرف علمائے اکرام کو ہوتی ہے، جیسے پی ٹی آئی کے مذہبی ونگ کے سربراہ مولانا عبدالقوی نے کہہ دیا کہ کسی بھی مشروب میں اگر چالیس فیصد الکوحل شامل ہے تو وہ حلال ہے۔

یہ تو خیر مولانا تھا پر اگر یہی بات کوئی عام بندہ کہتا تو اسے سر پر جوتے کھانا پڑتے۔ مذہب ایک کھلا اور آزاد موضوع ہونا چاہیے تھا، جس سے جڑی ہر بات کو کھلی طور پہ بیان کیا جا سکتا اور لوگوں کو درپیش مسائل اور ذہن میں اٹھتے سوالوں کا برقت جواب مل پاتا۔ یہ تو ہونے سے رہا، پر جان بوجھ کر یہاں اس لیے بھی مذہب کو حساس بنایا گیا ہے، جیسے عام لوگوں کہ دل میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو اور وہ زیادہ سوال کرنے سے ڈریں۔

لہذا سوال کرنا کوئی گناہ نہیں، سوال بھی تو آپ تب بھی کرتے ہیں جب کوئی بات آپ کی سمجھ میں آنے لگتی ہے، پر وہی سوال آپ کہ لیے ذلت و رسوائی کا سبب بنادیا جاتا ہے، اور کفر کے فتوے لگا کر کافر ٹھہرا دیا جاتا ہے تو پھر زندگی بڑی اذیت ناک بن جاتی ہے۔ میرے آج کے کالم کا موضوع بھی ایسے سوالات پر مشتمل ہے، اور اس کا سیدھا تعلق رمضان اور روزوں سے ہیں۔ ایک دو دفعہ جب یہی سوال میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پہ پوسٹ کر کہ پوچھا تو کچھ مذہبی لوگوں نے جواب دیے بغیر برا بھلا کہہ دیا، جیسے کوئی بہت بڑا گناہ کر دیا ہو۔

رب ذوالجلال نے قرآن کریم میں بڑے صاف لفظوں سے حکم دیا ہے کہ ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقوں میں نہ بٹو“ ، پر اس حکمنامے کے خلاف جا کر مذہب اسلام میں بہتر سے زائد فرقے بن چکے ہیں، اور ان میں سے ہر کسی کا یہی دعویٰ ہے کہ صرف میرا فرقہ ہی حق سچ پر ہے، باقی جھوٹ پر مبنی ہیں۔ تو بات کچھ یوں ہے کہ ماہ رمضان میں ہم مسلمان روزے رکھتے ہیں، اور اس حوالے سے سحری اور افطاری کے بڑے اہتمام ہوتے ہیں، خاص پکوان بنائے جاتے ہیں، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ ساتھ ہی سحری و افطاری کے اوقات میں مقررہ ٹائم بتانے کہ لیے یا تو اذان دی جاتی ہے یا گلی محلوں میں مسجدوں سے سائرن بجا کر اطلاع دیا جاتا ہے کہ روزہ رکھنے کا وقت ختم ہوا، اور روزہ کھولنے کا ٹائم ہوگیا۔ میں کسے ایک فرقے کی حمایت یا مخالفت نہیں کروں گی۔

پر ان سب میں ایک بات جو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ، ہم سب مسلمان ہو کر ایک ہی روزہ رکھنے کہ باوجود سحری اور افطاری کے اوقات میں ایک ہی محلے میں دو الگ فرقوں کی مساجد تعمیر کر کے صرف پانچ یا دس منٹ کی دوری پہ دو دفعہ سائرن بجا کر اطلاع کیوں دیتے ہیں؟ اور روزے دار بھی سحری ہو چاہے افطاری، وہ الگ الگ فرقوں سے ہیں تو پانچ یا دس منٹ کا فاصلہ ضرور رکھتے ہیں۔ یہ اکثر اہل تشیع اور اہل سنت والوں کے بیچ مقابلہ لگا ہوا ہے اور صرف چند منٹ کی دوری کر کے انہوں نے نہ صرف اپنے مذہب کو بانٹا ہوا ہے، بلکہ رمضان کی رحمتوں برکتوں کا بھی بٹوارا کیا ہوا ہے۔ اور دونوں ہی فرقے خود کو درست اور دوسرے کو غلط سمجھنے کی بھول کیے بیٹھے ہیں۔

میں نے جب کچھ شیعہ اور سنی علماء سے اس بات کا تذکرہ کر کے اس سوال کا جواب جاننا چاہا تو کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ سنی علما کہنے لگے شیعوں کا روزہ دیر سے کھولنے سے مکروہ ہوجاتا ہے، اور شیعہ علماء کہ مطابق اہل سنت والے سورج مکمل ڈوبنے سے قبل افطاری کر کے اپنا روزہ مکروہ کر دیتے ہیں۔ بھئی یہ کیا بات ہوئی، یہ تو کوئی منطق نہ ہوئی، جب ہم خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، ہمارا اللہ ایک اور نبی ایک تو پھر یہ پانچ دس منٹ کا فاصلے رکھ کے کیوں ہم نے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے بغض رکھا ہوا ہے۔ ہمارا روزہ، نماز عید، شب برات جب ایک ہی ہے تو پھر یہ پانچ دس منٹ کا فاصلہ کیا ہماری انا کو نہیں ابھارتا۔

مختلف ٹی وی چینلز پہ ہر ایک شہر کے سحری و افطاری کے اوقات کے ساتھ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ کون سا فرقہ کب روزہ رکھے اور کھولے گا۔ بطور مسلمان کیا یہ بات شرمندگی کا باعث نہیں، کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، ایسے میں یہ سب بے تکی چیزیں ڈال کر کیا ہم فتنہ پرستی کو پروان نہیں چڑھا رہے۔

ہمارا ملک ویسے ہی بہت سے مسائل سے دوچار ہے، ایسے میں ہم کیا ان باتوں پہ بحث مباحثہ کر کے ان کو حل نہیں کر سکتے۔ اگر چاند دیکھنے کے لیے مختلف علمائے کرام کی بیٹھک میں لاکھوں روپے خرچ ہو سکتے ہیں، تو کیا ایک میٹنگ اس مسئلے پہ بلا کر اس کو حل نہیں کیا جا سکتا؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے ذمے بھی یہ کام آتا ہے کہ وہ مختلف فرقوں کی پیچیدگیوں کو آسان بنائے، جیسے عام انسان کہ لیے آسانی ہو۔

اگر میں سنی ہوں تو شام کو روزہ افطار کر کہ یہ سوچتی رہوں کہ شیعہ بہن بھائیوں کا کب ٹائم ہوگا افطاری کا، میں ان کہ سامنے شربت پیئے جا رہے ہوں اور وہ اس انتظار میں رہیں کہ ہمارے والا سائرن بجے تو ہی افطاری کریں۔ اور اگر میں شیعہ ہوں تو یہ انتظار کروں کہ میرے سنی بہن بھائیوں کی افطاری کا ٹائم ہوگیا، پر جیسا کہ میرا الگ فرقہ ہے تو مجھے ابھی روزہ افطار نہیں کرنا، چند منٹ اور صبر کرنا ہے۔

ایک عام سادہ سا سوال کہ، ایک دو منٹ آگے یا پیچھے روزہ چھوڑنے سے کیا ہمارے حصے میں زیادہ نیکیاں لکھ دی جائیں گی؟ ہاں! یہی سوچ کر تو ہم اپنے فرقے والے ٹائم کے حساب سے سحری و افطاری کرتے ہیں کہ ہمیں زیادہ نیکیاں ملیں گی، اور سامنے والا تو دن بھر ایسے ہی بھوک پیاس میں رہا اور آخر میں روزہ مکروہ کر کے کھولا ہے۔

یہ سننے پڑھنے میں عام سی باتیں لگتی ہیں، پر ان کا ہماری نظام زندگی میں بہت گہرا اثر ہے، جس کا مجھے احساس ہوا، اور میں نے سوال کرنے کی گستاخی کر ڈالی۔ ممکن ہے اس میں پہ مجھے گالیاں پڑیں، اور میرے ایمان پہ بھی شک کیا جائے، پر میں نے سوال کیا ہے، اور سوال پوچھنا میرا بنیادی حق بنتا ہے۔ میں مذہب کی روشنی میں تو روزہ کی فضلیت بتا سکتی ہوں پر کسی فرقے کی عالمہ نہیں ہوں جو اس کے حساب سے اپنے فرقے کو درست اور باقیوں کو غلط ٹھہرانے کی جرات کر سکوں۔

کیونکی میرے نزدیک روزہ نماز سب مسلمانوں پہ فرض ہیں، اور التجا ہے کہ سب مسلمانوں کہ لیے مذہبی رہنماؤں سے مشاورت کہ ساتھ ایک ہی ٹائم مقرر کر دیا جائے، اور مساجد سے سحری و افطاری کے ٹائم ایک ہی سائرن بجے، پھر وہ پانچ دس منٹ آگے یا پیچھے ہو، مجھے قبول ہے۔ بس یکساں طور پہ سارے مسلمان ایک ہی وقت میں سحری و افطاری کریں، جیسے عرش عظیم پہ یہ تو نظر آئے کہ پاکستان کے مسلمانوں نے بلاشبہ اللہ کی رسی کو کہیں سے، کسی کونے سے تو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments