کورونا وائرس: رہائی پانے والے قیدی جو گھروں کو نہیں جا سکتے


India

جب عارف (فرضی نام) کو 31 مارچ کو مغربی انڈیا کی ایک جیل سے رہائی ملی تو وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتے تھے۔

مگر اگلے پندرہ روز میں انھیں بار بار گھر سے نکال دیا جاتا رہا۔ پہلے اپنے گھر سے اور پھر ایک ساتھی قیدی کے گھر سے اور آخر میں وہ بے گھر لوگوں کے لیے قائم ایک شیلٹر میں پہنچ گئے۔ گھر جانے کے لیے وہ وہاں سے دوبارہ فرار ہوئے مگر ناکام رہے، اور اب ایک دوست کے گھر میں قرنطینہ میں ہیں۔

عارف کی کہانی ان ہزاروں قیدیوں کی داستان ہے جنھیں وبا کو روکنے کے لیے لاگو لاک ڈاؤن کے دوران رہا کیا گیا ہے۔

بتیس سالہ عارف ٹیکسی چلاتے تھے۔ انھیں ایک موبائل فون چوری کرنے کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ وہ چھ ماہ تک مقدمے کی کارروائی کے بغیر مہاراشٹرا کی تیلوجا جیل میں قید رہے۔

وہ ضمانت پر رہائی کے اہل تھے مگر ان کے گھر والوں کے پاس ضمانت کے لیے 15 ہزار روپے نہیں تھے۔ لہٰذا جیل ان کا مقدر ٹھہری۔

کورونا بینر

کورونا: بیرون ملک مقیم افراد کو گھر پیسے بھیجنے میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟

انڈیا کی ’کورونا واریر‘ جو کینسر کے باوجود لوگوں کی مدد کرتی ہے

لاک ڈاؤن میں 20 ہزار کلو مفت سبزیاں تقسیم کرنے والی خاتون

انڈین صحافی آرتی ٹکو سنگھ کا عمران خان پر مضمون اور سوشل میڈیا پر قہقہے

انڈیا میں عوام اور حکومت شراب کی فروخت کے لیے بے چین کیوں


کامن ویلتھ ہیومین رائٹس اِنیِشی ایٹیو کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں عارف سمیت بائیس ہزار قیدیوں کو ذاتی مچلکے یا پرول پر رہا کیا گیا ہے۔

بی بی سی کو عارف کے بارے میں تفصیل ان تنظیموں نے مہیا کی جو جیل سے رہائی کے بعد ان کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ عارف سے بات کرنے کی متعدد کوششیں ناکام رہیں۔ غالباً ملک میں مشکلات اور مصائب کی ایسی ہی ملتی جلتی ہزاروں داستانیں ہیں۔

عارف کی طرح کے مرد و خواتین کی رہائی سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد عمل میں آئی جس میں ریاستوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ کورونا وائرس کی وبا روکنے کے لیے گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں سے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ (اس وقت انڈیا کی 1,339 جیلوں میں 450,000 قیدی ہیں، جن میں 69 فیصد قیدی اپنے خلاف عدالت میں مقدمات چلائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں)۔ ججوں نے کہا تھا کہ سزا یافتہ قیدیوں کو، جن کی سزائیں سات برس یا اس سے کم ہیں، اور جن کے مقدمے زیر سماعت ہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔

عارف کو جس دن رہائی ملی انھیں کوئی لینے نہیں آیا۔

انڈیا

ان کا گھر جیل سے 150 کلو میٹر دور مہد کے قصبے میں ہے۔ والد کا انتقال ہو چکا ہے اور کثرت مے نوشی کی وجہ سے بیوی بھی گذشتہ سال چھوڑ گئی تھی۔ ایک معذور بھائی جو کسی نجی کارخانے میں مزدوری کرتا ہے وہیں پھنس کر رہا گیا تھا کیونکہ اس کے پاس کرایہ نہیں تھا۔ بوڑھی اور بیمار والدہ چھ ماہ سے اپنی ایک کمرے کی کھولی کا کرایہ نہیں دے سکی ہے اور پڑوسیوں کے رحم و کرم پر تھی۔

نہ جیب میں پیسے اور نہ پیٹ میں روٹی، عارف کچھ پیدل چل کر اور کچھ ضروری اشیا لیے ایک سپلائی ٹرک والوں کی منت سماجت کر کے اگلی شام گھر پہنچے۔ مگر وہاں پڑوسی سراپا احتجاج بن گئے۔

انھوں نے کہا ’یہ ممبئی سے آیا ہے۔ ہم اسے نہیں گھسنے دیں گے۔‘ انڈیا کا تجارتی مرکز ممبئی کورونا کی وبا کی شدید لپیٹ میں ہے جہاں 13,500 سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 500 اموات ہو چکی ہیں۔

پریشان حال عارف واپس لوٹ گئے۔ انھوں نے اپنی ماں سے ایک موبائل فون اور 400 روپے ادھار لیے۔ اشیائے ضرورت لے جانی والی ایک گاڑی کو اشارہ کیا، ڈرائیور سے 200 روپے میں بات طے ہوئی جس نے انھیں واپس ممبئی پہنچا دیا۔ یہاں ایک ساتھی قیدی نے انھیں پناہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔

یہاں پڑوسیوں نے پولیس کو فون پر اطلاع کر دی۔ پریاس نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سماجی کارکن منوہر فینسیکار نے بتایا ’وہ پھر سے ممبئی کی سڑکوں پر آگئے۔ ان کی والدہ نے مجھے فون کیا اور اپنے بیٹے کی مدد کرنے کو کہا۔‘

اپریل کے اوائل میں عارف کو ممبئی کے مضافات میں بے گھر افراد کے لیے قائم ایک شیلٹر میں لے جایا گیا۔ وہ تین ہفتے سے زیادہ وہاں رہے۔ 30 اپریل کی رات وہ وہاں سے نکل لیے اور لِفٹ لے کر پھر گھر پہنچ گئے۔

اپنے فرار سے پہلے انھوں نے ایک سماجی کارکن سے کہا تھا ’میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ ہر شخص گھر جا رہا ہے۔ مجھے کچھ رقم دو اور جانے دو۔ میری ماں مجھے بلا رہی ہے۔‘

مگر اس بار پھر، ناراض ہمسایوں نے انھیں گھر میں نہیں گھسنے دیا۔

انڈیا

وہ شہر میں ایک دوست کے گھر چلے گئے۔ سماجی کارکن بتاتے ہیں کہ گذشتہ ہفتے وہ نشے میں دھت ہو کر رکشے میں ماں سے ملنے چلے گئے۔ مگر گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان کی رکشا والے سے کچھ جَھک جَھک ہوگئی اور انھوں نے رکشے کو نقصان پہنچایا۔ اب گھر والے رکشے والے کا نقصان بھرنے کے لیے 4000 روپے جوڑ رہے ہیں۔ سماجی کارکنوں کے مطابق عارف واپس اپنے دوست کے گھر آگئے ہیں جہاں وہ قرنطینہ میں ہیں اور شراب پیتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران قیدیوں کی رہائی آسان نہیں تھی۔ بہت سے گھروں کو نہیں جا سکتے۔ جس دن عارف کو چھوڑا گیا اسی دن دو بچوں کی ایک مفلس ماں کو بھی ممبئی کی جیل سے رہا کیا گیا۔ وہ کچی بستی میں اپنی ایک ساتھی قیدی کے گھر چلی گئی۔ دونوں ایک ساتھ جیل سے رہائی سے پہلے ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں۔ مہاراشٹرا کے لاتُر علاقے میں سماجی کارکنوں نے اب تک رہائی پانے والے 24 قیدیوں کو کرایے کی گاڑیوں میں لے جانے کے انتظامات کیے ہیں۔

جیلوں کے اندر قیدیوں میں گھبراہٹ اور تنہائی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ بہت سے قیدیوں نے رہائی کے لیے بلوا کیا ہے۔ مارچ میں کولکتہ کی ایک جیل میں ہنگامے کی دوران ایک قیدی ہلاک اور 28 زخمی ہوگئے تھے۔ ایک سبب یہ ہے کہ گھر والے ان سے ملاقات کے لیے نہیں آ پا رہے۔

سماجی کارکن مادہوریما دھانوکا نے بتایا کہ ’یہ ملاقاتیں ہی ہیں قیدی جن کا انتظار کرتے اور امید رکھتے ہیں۔ ان رابطوں کے کٹنے سے قیدی جذباتی طور پر مجروح ہو جاتے ہیں۔‘

رفاہی تنظیمیں حکومت سے بیمار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پریاس جیسی تنظیمیں ایسے قیدیوں کی مدد کرتی ہیں، انھیں گھر لے جاتی ہیں، اور انھیں کھانے پینے کی اشیا اور نقد رقم فراہم کرتی ہیں۔

اگرچہ ملک کی سب سے بڑی عدالت جیلوں میں بھیڑ کم کرنا چاہتی ہے مگر پولیس لوگوں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے اور دیگر الزامات میں جیل میں ڈال رہی ہے۔ پریاس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر وی جے راگھاون نے بتایا کہ ’میرے خیال میں قیدیوں کی رہائی سے جیلوں کی بھیڑ بھاڑ میں پانچ سے دس فیصد کمی آئی ہے۔ ہماری جیلیں اب بھی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں اور آفت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔‘

لگتا ہے کہ آفت آ چکی ہے۔

دنیا بھر میں جیلیں وبا کا مرکز بنتی جا رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ انڈیا اس رجحان میں بازی لے گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے تک ممبئی کی آرتھر روڈ جیل کے 2,600 قیدیوں میں سے 77 میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ اس جیل میں بعض اہم قیدی بھی ہیں۔ جبکہ جیل کے 26 حکام بھی اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اور قیدی ساتارا کی جیل میں کورونا وائرس کی بیماری میں مبتلا پایا گیا ہے۔ جیل کے ایک اعلٰی اہلکار دیپک پانڈے نے بتایا کہ ’ہم ان قیدیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔‘

ادھر رہائی کے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے بعد عارف اب بھی گھر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp