کورونا وائرس سے سے لڑنے والے ڈاکٹر کی ڈائری: بریڈ فورڈ کی پاکستانی نژاد ڈاکٹر کو پریشان کن پیغامات کیوں مل رہے ہیں؟


برطانیہ کے بریڈ فورڈ کی ایشیائی برادری میں کچھ افراد جعلی خبریں اور افواہیں پھیلارہے ہیں کہ غیر سفید فام مریضوں کو ہسپتال میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ بریڈ فورڈ رائل انفرمری کے ڈاکٹر جان رائٹ نے اینستھیزیا دینے والی ایک اہلکار سے جانا کہ انھیں کس وجہ سے گالم گلوچ سے بھرپور پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

ہسپتال میں ان برادریوں کے مریوضوں کو الگ تھلگ رکھنے کی وجہ سے بےیقینی اور جھوٹی افواہوں کو ہوا ملی ہے۔ ملک بھر کے شہروں میں ایسا ہو رہا ہے اور بریڈ فورڈ اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

کبھی کبھی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سیاہ فام، ایشیائی اور دیگر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے مریضوں میں موت کی شرح اس لیے زیادہ ہے کیونکہ انھیں وہی عملہ ہلاک کر رہے جنھیں ان کی مدد ملنی چاہیے تھی۔

تاہم مسلمان معالجین کے لیے یہ بات زیادہ باعث کلفت ہے اور اس طرح ان کی لگن اور پیشہ ورانہ مہارت پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور جو رمضان کے مقدس مہینے میں کووڈ وارڈز میں روزے کی حالت میں لمبی لمبی شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔

میری ایک ساتھی فوزیہ حیات جو کہ اینستھیزیا کی کنسلٹینٹ ہیں انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں حال ہی میں ایک مقامی شخص سے ایک نہایت ہی بغض و عناد سے پر بے وقوفانہ پیغام موصول ہوا تھا۔

اس کا پسِ منظر کچھ یوں تھا کہ چند روز قبل فوزیہ کے شوہر نے ہفتوں سے گردش کرنے والی افواہوں کی تردید کرنے کی کوشش کی تھی جن میں دعوی کیا جا رہا تھا کہ لوگوں ہسپتالوں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ غلط ہے اور ان کی اہلیہ فوزیہ اُس انفرمری کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں کام کرتی ہیں اور وہ اس بات کی تصدیق کر سکتی ہیں۔

سش

ایک پاکستانی ڈاکٹر نے خود ساختہ تنہائی کیسے کاٹی

امریکہ، جہاں غیر ملکی ڈاکٹرز کی ’محنت کی قدر نہیں کی جاتی‘

حفاظتی سامان کے بغیر کورونا سے لڑتے ڈاکٹرز کی جانیں داؤ پر

’کورونا وارڈ میں ڈیوٹی لگی تو تھوڑا گھبرائی، لیکن اب کوئی ڈر نہیں‘

پاکستان: صحت کا نظام کتنے مریضوں کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے؟


اس کے بعد فوزیہ کو ویڈیوز فارورڈ کی جانے لگیں جن میں سے زیادہ تر کو تو انھوں نے کھول کر ہی نہیں دیکھا۔ تاہم ان میں سے ایک پر ان کی نظر ضرور پڑی اور انھوں نے اس کا ایک مختصر سا جواب بھیج دیا۔

ان کے مطابق انھوں نے خاص طور پر یہ کہنے کی کوشش کی کہ ’آپ جو کچھ شیئر کر رہے ہیں اس میں محتاط رہیں اور دونوں طرف کے دلائل دیکھیں۔ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ آپ کو تمام تر معلومات حاصل ہیں، نہیں تو آپ نقصان پہنچا سکتے ہیں، آپ کسی کو ہسپتال میں آنے سے روک سکتے ہیں۔‘

رمضان المبارک کے آغاز کے باوجود گالیوں بھرے پیغامات جاری رہے اور ایک ٹیکسٹ میسج خاص طور پر جارحانہ تھا۔

فوزیہ بتاتی ہیں: ‘مجھے ایک پیغام بھیجا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ این ایچ ایس کارکنان بونس کے لیے کام کرتے ہیں، کہ ہم کسی موت کو کووڈ کی موت کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لیے پیسے لے رہے ہیں اور ہم بنیادی طور پر جان لینے کے لیے پیسے لے رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کسی کو اس قسم کی بات کہنا بہت ہی ظالمانہ بات ہے۔’

اس پیغام میں ڈاکٹروں پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو ‘ڈو ناٹ ریسسیٹیٹ’ فارم یعنی ہوش میں نہ لانے والے فارم پر دستخط کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کووڈ 19 کا واقعتاً کوئی وجود نہیں ہے۔

پیغام میں مزید کہا گیا: ‘براہ کرم اپنا ضمیر بیچنا اور مشروم بننا بند کرو اور حق کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ آپ کو اللہ کے دربار میں ان لوگوں کی موت کے لیے اور اس زندگی میں غفلت برتنے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور یہ زندگی بہت ہی مختصر ہے۔’

پھر فوزیہ نے انٹرنیٹ پر ‘مشروم بننے’ کے معنی تلاش کیے تو پتا چلا کے اسے ایسے شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے اندھیرے میں رکھا جائے یعنی کچھ نہ بتایا جائے یا اسے غلط معلومات دی جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘یہ رمضان کا مہینہ ہے اور ہم لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ ہم با عمل (مسلمان) ہیں اس لیے یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ کوئی مجھے یہ میسج بھیجے کہ ‘آپ نے اپنا ضمیر بیچ دیا ہے، آپ بدعنوان ہیں، مشروم ہیں۔۔۔ آپ کے ہاتھ خون آلودہ ہیں۔’

انھیں اس بات پر بھی حیرت تھی کہ یہ پیغام بریڈ فورڈ کی ایک کامیاب کاروباری شخصیت نے انھیں بھیجا تھا۔ ’ایسے شخص سے آپ یہ امید نہیں کرتے کہ وہ جعلی خبروں کی گرفت میں آ جائے گا۔‘

فوزیہ نے کہا: ‘وہ کافی سمجھدار میعلوم ہوتے تھے اور یہی بات مزید پریشان کن ہے۔’

‘اپنی رائے رکھنا ٹھیک ہے لیکن آپ ظالم نہ بنیں اور لوگوں پر الزامات نہ لگائیں۔ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ غم خواری اور فراخدلی کا مہینہ ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ انھیں خدشہ ہے کہ ایک یا دو افواہ باز ایسے مریضوں کو ہسپتال سے دور رہنے کے لیے متاثر کرتے ہیں جنھیں واقعی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

ہسپتال کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سفید فام اور جنوبی ایشیائی مریضوں کے نتائج مساوی طور پر اچھے ہیں لیکن اس قسم کی اٹکل پچو باتوں سے جان کے زیاں کا خطرہ ہے اور اس سے حالات بد سے بدتر ہی ہوتے ہیں۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مجموعی طور پر سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی مریضوں کا کووڈ 19 سے مرنے کا زیادہ خطرہ ہے لہذا ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بلا تاخیر مناسب دیکھ بھال کروائیں۔

فوزیہ نے اس جارحانہ پیغام کی پولیس میں شکایت کی۔ لیکن پھر انھوں نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے مزید آگے نہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بجائے بریڈ فورڈ میں مساجد کی کونسل کے سربراہ زلفی کریم کے مشورے پر وہ ‘ریڈیو رمضان’ میں اس کے بارے میں بات کرنے جارہی ہیں۔ اور وہ لوگوں کو یہ یقین دلائیں گی کہ اگر وہ بیمار ہیں تو ہسپتال میں بغیر تفریق رنگ و نسل اور عقیدے کے ان کی دیکھ بھال کی جائے گی۔

https://twitter.com/BTHFT/status/1259116960878669826

جب میں نے زلفی اور فوزیہ کو ایک دوسرے سے ملایا تو زلفی یہ سن کر پریشان ہو گئے کہ فوزیہ کیسے حالات سے گزریں اور بطور خاص ایسے وقت میں جب وہ زندگی کو بچانے کے لیے سخت کوشش کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ وہ جھوٹی افواہوں سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔

مسٹر زلفی نے کہا: ‘ہم اس کے متعلق تحقیقات کرسکتے ہیں کہ یہ کہاں سے آرہا ہے اور شاید اس میں ملوث لوگوں میں سے کچھ سے ہم بات بھی کریں۔ لوگوں کو تعلیم دینے اور ان میں پیداری پیدا کرنے کے لیے ہت سارے اچھے کام جاری ہیں اور پھر ایسے میں اس طرح کی چیزیں واقعی افسوسناک پریشان کن ہیں۔

‘میرے خیال سے ہمیں فوری طور پر ایسے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اس قسم کے پیغامات پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم لوگوں کو ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے قائل کر سکیں۔’


فرنٹ لائن ڈائری

وبائی امراض کے ماہر اور ڈاکٹر پروفیسر جان رائٹ بریڈفورڈ انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ کے سربراہ ہیں اور وہ جنوبی افریقی ممالک میں ہیضے، ایچ آئی وی اور ایبولا جیسے وبائی مرض کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ بی بی سی نیوز کے لیے یہ ڈائری لکھ رہے ہیں اور بی بی سی ریڈیو کے لیے اسے اپنے ہسپتال کے وارڈوں سے ریکارڈ کرا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp