کورونا وائرس: اوکاڑہ کے نوجوان نے کیسے گھر پر سینیٹائزر بنا کر اپنے گاؤں میں عام کیے


پاکستان میں کورونا وائرس کے خلاف میڈیا کے ذریعے آگہی مہم مسلسل جاری ہے لیکن کئی دیہی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ذرائع ابلاغ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کووِڈ-19 اور اس کے باعث کیے گئے تاریخی لاک ڈاؤن کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

معمولی ذرائع آمدن کے ساتھ زندگی گزارنے والے دیہاتیوں کو روزانہ اپنی فصلوں کی نگرانی اور مویشیوں کے لیے چارہ کاٹنے کی غرض سے اپنے محفوظ گھروں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔

انھیں گندم کی کٹائی کے بارے میں بھی فکر ہے اور اپنی سبزیوں کی دوسرے شہروں تک رسائی کی بھی جو آج کل معطل ہیں۔

زیادہ تر دیہاتی اپنی گزر بسر کے لیے انھی فصلوں پر گزارا کرتے ہیں۔

کورونا بینر

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

مدافعتی نظام بہتر بنا کر کیا آپ کووِڈ 19 سے بچ سکتے ہیں؟

’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کورونا کی وبا کو پھیلا سکتے ہیں: ڈبلیو ایچ او

کیا کورونا کے شدید علیل مریضوں کا علاج صحت یاب مریضوں کے خون سے ممکن ہے؟

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس: ایبوپروفن اور پیراسیٹامول خطرناک یا کارآمد؟


جب پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے متاثرہ شخص کی تصدیق ہوئی تو میڈیکل کے طالبعلم عبداللہ اپنے گاؤں واپس آگئے۔

ان کا بصیر پور نامی گاؤں پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں واقع ہے اور اپنے دینی مدارس کے لیے مشہور ہے جہاں سینکڑوں طلبا چھوٹی چھوٹی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں۔

عبداللہ کہتے ہیں کہ ‘جب میں اپنے گاؤں واپس لوٹا تو دیکھا کہ لوگ کورونا وائرس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ گھر واپس جاتے ہوئے میں نے جب اپنے ایک پڑوسی سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا تو انھوں نے کہا کہ ‘کورونا وائرس مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔”

‘اگلے دن 17 مارچ کو جب میں نے پاکستان میں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت کی خبر سنی تو میں نے ارادہ کر لیا کہ گاؤں کی ہر مسجد میں جا کر لوگوں کو کورونا کے خلاف آگہی دوں گا اور بتاؤں گا کہ موجودہ صورتحال میں گھر پر رہنا کیسے ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔’

عبداللہ بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں مسجد ہی وہ جگہیں ہیں جہاں وہ لوگوں کی اکثریت سے بیک وقت مخاطب ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اٹلی اور چین سے کورونا وائرس کے بارے میں خبریں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے چند ریسرچ پیپر پڑھے اور یوٹیوب ویڈیوز دیکھیں کہ گھر پر ہینڈ سینیٹائزر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

‘اسی دن میں نے اپنے دوستوں کی مدد سے کوار گندل (ایلو ویرا) کے پودے، آئسوپروپائل الکوحل، اور دیگر اجزا خریدیں۔ میں نے فارمیسی پڑھنے والے اپنے چند دوستوں سے بھی بات کی اور سینیٹائزر بنانا شروع کر دیا۔’

پھر عبداللہ اور ان کے دوست جمعے کی نماز سے قبل مسجد گئے اور مساجد کے آئمہ سے کہا کہ وہ لوگوں کو صرف سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد ہی مسجد میں داخل ہونے دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘آدھی مساجد نے تو مجھے لوگوں سے خطاب کرنے نہیں دیا لیکن اچھی بات یہ ہے کہ انھوں نے سینیٹائزر لینے سے انکار نہیں کیا۔’

انھوں نے بتایا کہ ‘جمعے کی نماز سے قبل ان کے مختصر سے خطاب کے بعد لوگ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سوالات پوچھا کرتے۔’

عبداللہ نے مقامی سرکاری ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹروں کو سینیٹائزر فراہم کیے جن کے پاس ویسے سینیٹائزر موجود نہیں تھے۔ ‘باقی بچ جانے والی بوتلیں ہم نے تھانے، ڈاکخانے، ٹاؤن کمیٹی اور ریلوے سٹیشن میں تقسیم کر دیں۔ چند افسران نے تو مزید سینیٹائزر بنانے میں ہماری مدد بھی کی۔’

اس کے بعد وہ سینیٹائزر کی تقسیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو وائرس سے بچنے کے بارے میں بھی آگاہ کرتے رہے۔ ‘چونکہ ہمارے گاؤں میں زیادہ تر لوگوں کے پاس ٹی وی نہیں ہیں، اس لیے انھیں اس سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ کورونا وائرس کس قدر خطرناک ہے۔’

عبداللہ کہتے ہیں کہ ‘جب میں واپس جا رہا تھا تو کافی اداس تھا، مگر جب مجھے ایک 64 سالہ کاشتکار نے بتایا کہ وہ اپنی بھینسوں کے لیے گھاس کاٹنے کے بعد اپنے ہاتھ سینیٹائز کر رہی ہیں اور دوسروں سے فاصلہ بھی رکھیں گی، تو مجھے چین آ گیا۔’

تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp