سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نقل و حرکت سے متعلق درخواست:’ڈاکٹر قدیر اور وکلا کی ملاقات میں کوئی سکیورٹی اہلکار نہیں ہو گا‘


سپریم کورٹ

عدالت نے حکم دیا ہے کہ ڈاکٹر قدیر کے ساتھ ان کے وکلا کی ملاقات میں سکیورٹی اداروں اور اٹارنی جنرل آفس کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں ہو گا

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نقل و حرکت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران حکم دیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے ان کے وکلا کی ملاقات کے دوران سکیورٹی اداروں اور اٹارنی جنرل آفس کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں ہو گا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بدھ کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل وحرکت سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ اس درخواست سے متعلق اُنھوں نے اپنے مؤکل سے کچھ ہدایات لینی ہیں لیکن ان کی سکیورٹی پر مامور خفیہ اداروں کے اہلکار ان سے ملاقات نہیں کروانے دے رہے۔

واضح رہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں۔

سابق فوجی صدر کی حکومت کے بعد ملک میں دو جمہوری حکومتیں اپنی مدت مکمل کر چکی ہیں اور اس عرصے کے دوران بھی ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل وحرکت بہت محدود رہی۔

یہ بھی پڑھیے

‘عراق پر حملے سےڈاکٹر خان نیٹ ورک ختم کرنےمیں مدد ملی’

’شمالی کوریا کی ٹیکنالوجی پاکستان سے بہت بہتر ہے‘

’ٹرمپ کِم ملاقات ہاتھ ملانے سے زیادہ کچھ نہیں‘

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ کچھ دیر میں وکیل صاحب کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کروا دیتے ہیں جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل کیسے آزاد شہری ہیں کہ ان سے ملاقات کے لیے وفاقی حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔

عدالتی حکم پر ایٹمی سائنس دان کو سخت سکیورٹی میں ججز گیٹ کے ذریعے سپریم کورٹ لایا گیا اور اُنھیں عدالت میں پیش کرنے کی بجائے رجسٹرار آفس میں بٹھایا گیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

سابق فوجی صدر کی حکومت کے بعد ملک میں دو جمہوری حکومتیں اپنی مدت مکمل کر چکی ہیں اور اس عرصے کے دوران بھی ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل وحرکت بہت محدود رہی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کے وکلا نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں ملاقات کی تو اس دوران سکیورٹی ادارے کے اہلکار بھی موجود تھے۔

اٹارنی جنرل نے ملاقات کروانے کے بعد عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر قدیر سے ان کے وکلا کی ملاقات کروا دی گئی ہے۔ جس پر وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ ان کی اپنے مؤکل سے صرف سلام دعا ہوئی ہے جبکہ درخواست کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ وہاں پر خفیہ اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی موجود تھے۔

اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایک وکیل کو اپنے مؤکل سے علیحدگی میں ملاقات کی اجازت بھی نہیں ہے۔

اس موقع پر ایڈشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ ان اہلکاروں کی وہاں پر ڈیوٹی تھی تاہم اگلی ملاقات میں سکیورٹی اہلکار نہیں ہوں گے بلکہ وہ خود موجود ہوں گے۔

جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وہ وکیل اور مؤکل کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیوں موجود ہوں گے؟

عدالت نے حکم دیا کہ ڈاکٹر قدیر کے ساتھ ان کے وکلا کی ملاقات میں کوئی اہلکار موجود نہیں ہو گا۔

دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ سکیورٹی اہلکار عبدالقدیر خان کو ان کی رہائش گاہ پر لے جا چکے ہیں، جس پر عدالت نے وکلا کی ملاقات ڈاکٹر عبدالقدیر سے ان کی رہائش گاہ پر کروانے کا حکم دیا۔

اس درخواست کی مزید سماعت 14 مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نقل و حرکت سے متعلق درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم ایک مذہبی جماعت کے فیض آباد دھرنے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کی بھی سربراہی کر چکے ہیں۔

جسٹس مشیر عالم نے اپنے فیصلے میں حکومت سے ان فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی تھی۔

اس بینچ کے دوسرے رکن جسٹس یحیٰ آفریدی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی خصوصی بینچ میں شامل تھے تاہم اُنھوں نے بعض وجوہات کی بنا پر اس بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp