کابل ہسپتال حملے پر سوشل میڈیا ردِعمل: ’وہ ایک نوزائیدہ بچے کی طرف بندوق کا رخ بھی کیسے کر سکتے ہیں‘


منگل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تین مسلح حملہ آوروں نے ایک ہسپتال پر حملہ کیا جس میں بچوں اور خواتین سمیت کم از کم چودہ افراد ہلاک جبکہ ایک درجن کے قریب زخمی ہوئے۔

دوسری جانب صوبہ ننگرہار کے ضلع شیوہ میں ایک سابق پولیس اہلکار کی نماز جنازہ میں ایک خودکش حملے میں کم از کم چوبیس افراد ہلاک اور پچاس سے زیادہ زخمی ہوئے۔

کابل میں حکام کے مطابق حملہ آور زچہ بچہ وارڈ میں گھسے اور وہاں موجود ماؤں اور بچوں پر فائرنگ کر دی۔ اس واقعے میں دو نوزائیدہ بچے، گیارہ خواتین اور متعدد نرسیں ہلاک ہوئیں۔

اس ہسپتال کا زچہ بچہ وارڈ بین الاقوامی فلاحی ادارہ ایم ایس ایف چلاتا ہے۔ وہاں کام کرنے والے کچھ کارکنان غیر ملکی بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

افغان سکیورٹی فورسز کو دفاع کے بجائے طالبان پر حملے کرنے کا حکم

دولتِ اسلامیہ کے مرکزی رہنما شیخ عمر خراسانی ’کابل سے گرفتار‘

افغان امن عمل: کیا انڈیا کی طالبان پالیسی بدل رہی ہے؟

کابل

حملے میں بچ جانے والی چند خواتین گاڑی میں بیٹھی ہیں

اس حملے کی خبر اور پھر تصاویر کا منظرِ عام پر آنا تھا کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں ہر طرف سے غم و غصے کا اظہار ہونے لگا اور منگل کو پیش آنے والا یہ واقعہ 24 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی زیرِ بحث ہے۔

جذبات کے اظہار میں عوام کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی شامل رہے اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’معصوم افراد پر کوئی بھی حملہ ناقابل معافی ہے مگر یوں بچوں اور زچگی کے عمل سے گزرتی خواتین پر حملہ انتہائی بہیمانہ ہے۔‘

سرحد پار پاکستان میں بھی اس کا اثر دیکھا گیا اور پاکستان کے وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’کس قسم کا حیوان عورتوں اور نوزائیدہ بچوں کو قتل کرتا ہے؟ یہ انسان نہیں ہیں۔ انھیں جانور کہنا بھی کافی نہیں۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے اویس نبی نامی صارف نے ایک زخمی بچے کی تصویر شیئر کی اور کہا کہ ’یہ تصویر ہم سب کے لیے بھلانی مشکل ہوگی۔‘

ایک اور تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک فوجی جائے وقوعہ سے زخمی نوزائیدہ بچے کو خون آلود کمبل میں لپیٹ کر امداد کے لیے لے جا رہا ہے۔

کابل،

کابل میں ہسپتال کی دیوار حملے کے بعد گولیوں سے چھلنی نظر آ رہی ہے

بہت سے لوگوں نے اپنے پیغامات میں یہ درخواست بھی کی کہ اس طرح زخمی یا ہلاک ہونے بوالے ان بچوں اور خواتین کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر شیئر نہ کیا جائے۔

سارہ مجید نامی صارف نے پوچھا کہ حملہ آور ’ایک نوزائیدہ بچے کی طرف بندوق کا رخ بھی کیسے کر سکتے ہیں۔ دل پھٹ رہا ہے۔‘

نائیجیریا سے شیڈی ینگ نے زخمی بچوں کی تصاویر شیئر کیں اور کہا کہ انسانیت کی موت کروڑوں بار ہوئی۔

سری لنکا سے سیفی باری نے ٹویٹ کی کہ ’ماہِ رمضان ہے اس لیے گندی زبان نہیں استعمال کرنا چاہتی۔ مگر تم لوگ کہاں سے اس دنیا میں آئے ہو؟‘

برطانوی علاقے یارکشائر سے ڈینیئلا نے ٹویٹ کی ’اگر یہ دنیا کے کسی اور حصے میں ہوتا تو شہ سرخیوں کا حصہ ہوتا۔ ہمیں یہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اسلامی شدت پسندی کے زیادہ تر متاثرین مسلمان ہوتے ہیں۔‘

مشرقی افریقہ سے مجالتی نے لکھا کہ ’میں کئی گھنٹوں سے اس ٹویٹ کو لکھ رہی ہوں اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ سچ کہوں تو مجھے نہیں پتا کیا لکھوں۔ میرا دل درد سے پھٹ رہا ہے۔‘

انڈیا سے مدھوونتی شرینیواسن نے لکھا کہ ’میٹرنٹی وارڈز، جنازے کسی کو بھی نہیں بخشا۔ پیدائش اور موت دونوں ہی میں امن نہیں۔ دنیا افغانستان کے معاملے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔‘

سلمان نامہ صارف نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ کابل حملے میں انسانیت کی موت ہوگئی ہے۔

عروبہ خان لکھتی ہیں کہ افغانستان میں زندگی کی شروعات اور اس کا اختتام ایسے ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32536 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp