یتیموں کا دن


کچرے کے ایک ڈھیر کے پاس کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ آخر اس کہانی کا سرا کہاں سے ملے؟ سوال یہ درپیش تھا کہ بڑے بڑے شہروں کے بیچ اور اطراف میں یہ جو کچرے کے عظیم الشان ڈھیر پڑے رہتے ہیں، ان پر بھی ایک مخلوق پلتی ہے، کیا اس مخلوق سے ہمارا بھی کوئی تعلق واسطہ ہے اور اگر ہے تو ہماری زندگیوں پر ان کے اثرات کی نوعیت کیا ہے؟ یہی سوچتے ہوئے کہانی کا سرا مل گیا اور معلوم ہوا کہ گندگی کے ان ڈھیروں پر پلنے والی کروڑوں گاؤں بھینسوں کے دودھ اور بکرے بکریوں کے گوشت نے معاشرے کو جو تحفے دیے ہیں، ان میں یرقان اور اس کی ترقی یافتہ شکلیں، معدے کے امراض، آنکھوں کی کچھ نئی بیماریاں اور جانے کیا کیا کچھ شامل ہے۔ یہ فضلہ جو ہمارے گھروں سے نکل کر فضا کو متعفن کر دتا ہے، اس پر صرف یہ بے زبان ہی نہیں پلتے بلکہ کچھ دوسرے بھی پلتے ہیں، قدرت کے کسی نامعلوم فیصلے نے انھیں دوسری طرف نہ لا کھڑا کیا ہوتا تو کیا خبر وہ لوگ وہاں نہ ہوتے، اُن کی جگہ ہمارے جیسے خوش حال لوگ ہوتے، بس، اسی خیال نے میری سٹی گم کر دی۔

وہ دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ میں ایسی چمک پیدا ہو چکی تھی جس میں سراب ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں آنکھیں درست دیکھ پاتی ہیں اور نہ کیمرہ فوکس ہو سکتا ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب گلی محلوں میں دکانوں کے شٹر گرا دیے جاتے ہیں، مائیں بچوں کو گھروں میں قید کر لیتی ہیں اور بڑے بوڑھے بستر پر لیٹ کر قیلولے کے بہانے اپنی جوانی سہانی کی یادوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان کچرا گھروں کی رونق میں اضافے کا وقت بھی یہی ہے۔ اپنے اپنے راستوں کو کبھی نہ بھولنے والے مویشیوں کے گلے سست رفتاری سے چلتے اور پاؤں کے گھنگھرو بجاتے یہاں آن موجود ہوتے ہیں۔ ان جان داروں کے بیچ ایک مخلوق اور بھی دکھائی دیتی جو ہماری طرح ہاتھ پاؤں بھی رکھتی ہے اور منہ میں زبان بھی۔ یہ مخلوق بھی دوسرے جان داروں کی طرح رزق کے ان خزانوں سے اپنے جینے کا سامان پاتی ہے۔ کاغذوں کے پلندے، گتے کے ڈبے، دھات کے ٹکڑے یا ایسی ہی بہت سی دیگر چیزیں۔

اس روز میں نے جانا کہ ہماری اس معیشت کے کتنے رنگ اور کتنے پہلو ہیں، ان میں سے کوئی ایک کڑی بھی کہیں آگے پیچھے ہو جائے تو زندگی کی رفتار ہی بگڑ کر رہ جائے۔ وہ ایک سرخ و سفید لڑکا تھا جس نے ایک بڑا سا جھولا کاندھے پر ڈال رکھا تھا اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ گندگی کو کھدیڑ کھدیڑ کر اپنی پسند کی چیزیں نکال رہا تھا۔ گائیں بھینسوں والی کہانی میں میری دلچسپی کم ہوگئی اور میری توجہ اس بچے پر مرکوز ہوگئی۔ اس ڈھیر کے گرد گھومتے ہوئے میں ایک ایسی جگہ پر جا کھڑا ہوا جہاں وہ آسانی کے ساتھ مجھے دیکھ سکے جیسے ہی ہماری نگاہیں چار ہوئیں، میں نے اِسے بلایا تو اپنی نہایت بلند اور کراری آواز میں اُس نے جواب دیا، ”خو، ابھی ٹھیرو“ اور میں ٹھہر گیا۔

وہ ایک افغان بچہ تھا جو پاکستان میں ہی پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ وہ (کراچی کی ایک بستی) صفورا گوٹھ کے پیچھے کسی جھونپڑی میں اپنی ماں کے ساتھ ر ہتا تھا۔ اس کی ماں بھی ایک محنت کش تھی جو ارد گرد کے علاقوں میں چھوٹے موٹے کام کر کے جینے کا سامان کر لیا کرتی تھی۔ وہ میرے ساتھ بات ضرور کررہا تھا لیکن اس کی نگاہیں اپنے کاروبار یعنی کچرے کے ڈھیر پر تھیں اور وہ شاید اس ڈھیر کے ان گوشوں کو آنکھوں ہی آنکھوں نے نشان زد کررہا تھا جن کی تسخیر اسے ابھی کرنی تھی۔ کچھ دیر میں نے خاموشی اختیار کی، اس دوران میں وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی”چراہ گاہ“ کا جائزہ لے چکا تو میں نے اس کے والد کے بارے میں سوال کیا۔ ”خو، وہ تو نہیں ہے“۔ اُس نے روا روی میں جواب دیا۔ ”تو وہ کہاں ہے؟“ میں نے پوچھا تو اسی لاتعلقی کے ساتھ اُس نے اپنا پرانا جواب دہرا دیا۔ اپنے سوال کو ذہن میں محفوظ رکھتے ہوئے میں نے اس سے اِدھر اُدھر کی کچھ دوسری باتیں شروع کر دیں۔ معلوم ہوا کہ شہر کے مضافات میں بہت سے ایسے مراکز ہوتے ہیں جہاں یہ بچے ان کچرا گھروں سے چنی گئی اشیا کو جمع کراتے ہیں۔ ان مراکز پر ایک مخصوص وقت میں کچھ ریڑھیاں آتی ہیں جو طے شدہ معاوضہ دے کر یہ سب کچھ اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ یہ ریڑھیاں کچھ اور مراکز پر یہ چیزیں جمع کراتی ہیں، وہاں سے انھیں پروسس کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

خیر، یہ قصہ طولانی ہے، میری اصل دلچسپی تو اس بچے میں تھی۔ گپ شپ سے اس کا اعتماد بحال ہوگیا اور اس نے بتایا کہ اس کا باپ افغانستان میں ہوتا تھا اور جنگ کیاکرتاتھا۔ ” تم اس سے کب ملے، وہ یہاں کبھی آیا؟ “وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اس سے یکے بعد دیگرے کئی سوالات پوچھے۔ پتہ چلا کہ یہ بچہ اپنے باپ سے کبھی نہیں ملا، وہ اپنے باپ کا نام تک نہیں جانتا اور اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کب، کیسے اور کہاں مارا گیا نیزاس کا آگا پیچھا کیا ہے۔ بچے کے انکشافات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو بے بسی کے عالم میں؛ میں نے اِس سے سوال کیا کہ چائے پیو گے؟۔ ” خو، ام کسی سے کچھ نہیں لیتا“۔ اُس نے شاہانہ وقار کے ساتھ جواب دیا۔ کسمپرسی کے اس عالم میں بھی اس کی غیرت جوان تھی اور وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا روا دار نہیں تھا۔ آفرین ہے، اس کی تربیت پر۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا اوروہاں سے اُٹھ آیا۔ آگے بڑھتے ہوئے میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ بچہ اپنی اطمینان بھری رفتار کے ساتھ ”کام“ کی طرف دوبارہ بڑھ رہاتھا۔

افغانستان کی جنگ کو ہم پاکستانیوں نے آئیڈیالایز بھی بہت کیا ہے اور ایک زمانے میں اس سے امیدیں بھی بڑی بڑی وابستہ کیے رکھی ہیں لیکن اس جنگ کا ایندھن بننے والو ں کے بارے میں کبھی نہ سوچا جس میں صرف جنگ جو ہی نہیں مارے گئے، املاک ہی برباد نہیں ہوئیں بلکہ متاثرین کی بھی بہت بڑی تعداد پیدا ہوئی جیسے یہ بچہ۔ اس بچے کی کہانی نے مجھے بہت دنوں تک بے چین رکھا لیکن جیسے ہوتاہے، یادیں پیچھے رہ جاتیں ہیں اور زندگی آگے بڑھ جاتی ہے، میری زندگی بھی آگے بڑھ گئی لیکن افغان جنگ، پاکستان میں اس کے اثرات نیز سیلابوں اور زلزلوں جیسی آفات نے اپنا کام کام جاری رکھا، لہٰذایتیموں کی آبادی میں اضافہ بھی جاری رہا۔ ملک میں پاکستان آرفن فورم کا قیام خیر کی جانب ایک بڑا قدم ہے اور یہ لوگ بہت بڑا اور نیک کام کررہے ہیں۔ ہماری پارلیمان نے 15 رمضان کو یتیموں کا دن قرار دے دیا، یہ بھی بہت اچھی بات ہے۔ اس سے معاشرہ بیدار ہو گا اور اہل خیر اپنا دست تعاون دراز کردیں گے لیکن کیا کبھی کسی کی نگاہ میں وہ یتیم بچے بھی آسکیں گے جو ڈھور ڈنگروں کی طرح کچرے کے ڈھیروں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments