مزے تو ماہی اب آئیں گے


ہرنام سنگھ اور پرنام سنگھ پرتاب سنگھ کے دو صاحبزادے تھے۔ پرنام سنگھ سگا تھا اور ہرنام سنگھ سوتیلا۔ پرنام سنگھ لاڈلا تھا جبکہ ہرنام سنگھ باپ کو اک آنکھ نہ بھاتا۔ پرتاب سنگھ اک سفر پہ روانہ ہوا تو جاتے ہوئے اس نے پرنام سنگھ کو کافی ساری چیزیں دیں اور ہرنام سنگھ کو صرف اک کچھا اور دھوتی عطا ہوئی۔ جو بالترتیب اس کے تن پہ زیب رہتی۔ جاتے ہوتے پرتاب سنگھ نے کہا خبردار واپسی پہ میں نے حساب لینا ہے۔

وقت گزرا اور پرتاب سنگھ واپس پلٹا اور آتے ہیں اس نے دونوں کو حاضر کیا اور حساب کتاب شروع کر دیا۔ پرنام سنگھ نے حساب کیا دینا تھا اور اس سے حساب کیا لینا تھا الٹا اس نے پرتاب سنگھ سے خرچے اور قرضے کی مد میں پچاس روپے اور اینٹھ لیے۔ ہرنام سنگھ پہلے تپا بیٹھا تھا اوپر سے باپ نے حساب مانگ لیا۔ ہرنام سنگھ نے دھوتی اتار کے پرتاب سنگھ کو تھمائی اور کہا باپو آ جا آج حساب لے لے۔

وطن عزیز میں انٹرٹیمنٹ اور ڈرامہ کے نام پہ عرصہ ہوا دونمبری چل رہی ہے۔ بھانت بھانت کے چینلز ہیں مگر ایک ہی چورن مختلف پیکنگ میں ہر روز فروخت ہوتا ہے۔ اور مال اتنا پرانا ہے کے دیکھ کر ابکائی آئے۔ کرداروں اور کہانیوں کی یکسانیت کا یہ عالم ہے کے کئی فنکار ایک ہی کردار کئی مختلف ڈراموں میں ادا کرتے ہیں حتیٰ کے ان کے نام تک وہی ہوتے ہیں۔ آج کل کے ڈرامے دیکھ کر لکھاریوں پہ ترس آتا ہے۔ لچر پن، بد تہذیبی، گھسے پٹے موضوعات، چالو کہانیاں، بے رونقی جعلی نمود و نمائش، فحاشی و عریانی جس میں ہماری تہذیب کا شائبہ تک نہیں۔

تخلیق کا شدید فقدان ہے کوئی نئی سوچ نہیں کوئی نیا موضوع نہیں۔ بھیڑ چال سی بھیڑ چال ہے۔ وہی سوال وہی جواب وہی نتیجہ وہی امتحان۔ انڈیا پاکستان میں کل ملا کر شاید چھتیس کہانیاں ہیں ہر فلم ہر ڈرامے میں اسی کا چربہ موجزن ہوتا ہے۔ وہی ڈھاک کے تین پات ہر کہانی میں لڑکا لڑکی کی تیسرے درجے کی پریم کہانی جیسے ہماری قوم اور نسل کو ٹھرکیا محبت کے سوا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ پسند کی شادی ہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ زندگی کے حقائق سے نزدیک تو درکنار دور کا واسطہ نہیں۔ کوئی ایسا ڈرامہ نہیں جس میں محنت، لگن، ایثار، قربانی، خاندان، مستقبل، معرفت، اسلام، جہاد، تہذیب جیسی کوئی چیز ہو۔ عوام کی ذہن سازی کی جائے۔ کوئی اچھوتا پیغام دیا جائے نشتر سے مرہم لگایا جائے۔ لوگوں کو شعور و آگہی دی جائے۔ اچھا دودھ ملنا تو مشکل ہے مگر اچھا ڈرامہ بھی کہاں۔ ہم کو ان سے ہے وفا کی امید۔

ایسے میں اگر ارطغرل پاکستان میں نشر اور مقبول ہوا تو حیرت کیسی۔ ناظرین نے یہی کہا آ جا حساب لے لے۔ آ تیرے وی جن کڈاں۔ چند روز میں یوٹیوب پہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا اسے دیکھنا نوشتۂ دیوار ہے عوام کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ارطغرل نے پی ٹی وی کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے۔ ارطغرل کے جاندار مکالمے، فنکاروں کی محنت، تکنیکی مہارت اور غیر روایتی کہانی ہی اسے منفرد کرتی ہے۔ اوپر سے ارطغرل میں وہ خاص بات ہے جو ہمارے ڈراموں میں عنقا تھی جس سے بہت سے لوگوں کو چڑ ہے۔ ارطغرل میں اسلام ہے روز آخرت کا شعور اور ایمان ہے ساری جدوجہد اسلام کے نام پہ ہے۔ دوسرا اس میں عشق رسول ﷺ جابجا موجزن ہے بلکہ اس ڈرامے کی رگوں میں عشق رسول ﷺ خون بن کے دوڑتا ہے۔ تیسرا اس میں روحانیت اور تصوف کی بہترین عکاسی ہے۔ چوتھا اس میں جہاد ہے۔ پانچواں اس میں مقصدیت اور لگن ہے۔ چھٹا داستان شجاعت ہے۔

اب اگر ایسی چیزیں کسی ڈرامے میں ہوں تو لوگ معترض تو ہوں گے۔ کیونکہ ارطغرل غیر مقامی ہے ہمارا ہیرو نہیں ہے۔ سپر مین، بیٹ مین، سپائیڈر مین، ٹارزن، سارے مقامی ہیروز ہیں۔ اور تو اور ویلنٹائن ڈے، اپریل فول، ہیلوئن بھی نواب شاہ کے پرانے تہوار ہیں۔ سنڈریلا، رومیو جولیٹ، جولیس سیزر بھی منگو پیر کے قصے ہیں۔ حتیٰ کے بچوں کے کارٹون بھی مقامی ہیں بس ارطغرل غیر مقامی ہے۔ اس لیے ارطغرل برداشت ہونے کا نہیں۔

پی ٹی وی کو چاہیے ارطغرل کو تھوڑا سا مقامی بنانے کے لیے مقدور بھر کوشش کرے اور ڈرامے کا نام بدل کر ارطغرل گجر یا ارطغرل دا کھڑاک کردے۔ جہاں بے وفائی کا منظر ہو وہاں آواز آئے ”ہیں حاجی ہن ایویں کریساں“ ۔ جہاں جنگی مناظر فلمائے گئے ہیں ان کے پس منظر میں شریکاں نوں آگ لگدی مٹھی مٹھی چلایا جائے۔ اور ڈرامے کا اصل ساؤنڈ ٹریک بدل کر جب ارطغرل گھوڑے پہ سوار ہو تو ملکہ ترنم نورجہاں کا مشہور زمانہ گانا چلایا جائے ”تیرے آن دے کھڑاک بڑے ہوں گے مزے تے ماہیا ہن آن گے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments