اس ڈرامے کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟


وزیر اطلاعات شبلی فراز نے سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بنیادی اہمیت کی دو باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن سے تقاضا کیا کہ حکومت پر تنقید اپنی جگہ لیکن اپوزیشن کے پاس متبادل تجاویز کیا ہیں۔ اپوزیشن کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اپنی تجاویز سامنے لانی چاہئیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اقلیتی کمیشن کی ساخت کے سوال پر سامنے آنے والے تنازعہ پر سینیٹر مشاہداللہ کے سوالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ’ اپوزیشن حساس معاملات پر بحث سے گریز کرے تاکہ عوام کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ہمیں اس وقت قومی اتحاد کی ضرورت ہے‘۔
اس بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ حکومت کے کسی منصوبہ پر تنقید کرنے سے پہلے اپوزیشن کے پاس متبادل تجاویز ہونی چاہئیں۔ کوئی سیاسی پارٹی صرف اس لئے اپنا طریقہ کار پیش کرنے سے انکار نہیں کرسکتی کیوں کہ حکومت وقت اس کی بات کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی یا اسے گمان ہوتا ہے کہ اس کی باتوں کو وقعت نہیں دی جاتی۔ کوئی بھی صورت حال اپوزیشن کو اپنا ہوم ورک کرنے اور معاملات پر متبادل سامنے لانے سے نہیں روکتی۔ اپوزیشن لیڈر اور پارٹیاں اگر صرف تنقید کو شعار بنائیں گی تو عوام کو پتہ نہیں چل سکے گا کہ اگر موجودہ حکومت کی پالیسیاں ناکام ہیں تو اپوزیشن کے پاس ان مسائل کا کیا حل ہے جو کسی ایک وقت میں ملک و قوم کو درپیش ہوتے ہیں۔
تمام جمہوری ملکوں میں جب حکومت کی طرف سے بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو اس پر تنقید کرنے اور مختلف مصارف پر اعتراض کے علاوہ بڑی اپوزیشن پارٹی متبادل بجٹ تجاویز دستاویزی شکل میں سامنے لاتی ہے۔ حکمران پارٹی کو اگر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو تو اپوزیشن کی تجاویز کو قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر کوئی حکومت بجٹ منظور کروانے میں اپوزیشن کی حمایت کی محتاج ہو تو اس سے معاملات طے کرلئے جاتے ہیں۔ تاہم کسی بھی صورت میں جمہوری نظام میں کوئی اپوزیشن اپنی اس ذمہ داری سے فرار اختیار نہیں کرتی کہ وہ متبادل تجاویز سامنے ہی نہ لائے۔ اس طرح میڈیا کے ذریعے عوام کو مختلف پارٹیوں کی ترجیحات کا علم ہوجاتا ہے ۔ حکومت اگر اپنی اکثریت کی بنیاد پر اپوزیشن کی رائے مسترد کرتے ہوئے اپنا ہی منصوبہ مسلط کرتی ہے تو اس کے اچھے برے اثرات کا سیاسی نتیجہ بھی اسے ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کا دعویٰ کر نے اور ہر قیمت پر جمہوری روایت کو مستحکم کرنے کے اعلانات کے باوجود اپوزیشن پارلیمنٹ میں حکومت پر تنقید تو کرتی ہے لیکن متبادل تجاویز سامنے لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ کورونا وائرس کے موجودہ بحران کے حوالے سے اپوزیشن کا متفقہ مؤقف یہ رہا ہے کہ موجودہ حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں تھی اور نہ ہی اس نے کسی ٹھوس حکمت عملی کے ذریعے پاکستانی عوام کی صحت کو لاحق خطرات دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستانی ہسپتالوں میں بروقت ضروری حفاظتی سامان نہیں پہنچایا گیا، کورونا ٹیسٹ کی صلاحیت میں ضرورت کے مطابق اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور لاک ڈاؤن کے بارے میں بے یقینی پیدا کرکے سماجی دوری جیسے بنیادی احتیاطی اقدام کو تقریباً غیر مؤثر کیا گیا ہے، جس کے عوام کی صحت، کورونا کے پھیلاؤ کی روک تھام اور معاشی استحکام کی صورت حال پر دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ الزامات خواہ کتنے ہی درست کیوں نہ ہوں اپوزیشن کے اصرار پر بلائے گئے اجلاس میں اگر اپوزیشن پارٹیوں کی طرف فرداً فرداً یا مشترکہ طور پر حکومتی اقدامات کی رد میں متبادل تجاویز سامنے لائی جاتیں تو عوام کو یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کی تنقید کا جواز کیا ہے۔
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کے ایوان کو مچھلی بازار بنایا گیا اور حکمران اور اپوزیشن پارٹیوں نے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کرنے کی افسوسناک کوشش کی۔ اس صورت حال میں پوچھا جاسکتا ہے کہ سخت مشقت کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر اگر یہی ڈرامہ رچانا تھا تو اس اجلاس کی کیا ضرورت تھی۔ ملک کے درجنوں ٹیلی ویژن اسٹیشن روزانہ کی بنیاد پر ٹاک شوز کے ذریعے الزام لگانے اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا وافر موقع فراہم کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال اور مسائل پر سنجیدہ گفتگو کرنے اور تمام پہلوؤں سے جائزہ لے کر کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کی ضرورت تھی۔ وزیر اطلاعات نے اگرچہ اپوزیشن کو خاموش کرنے کے لئے ضرور یہ کہا کہ اس کے پاس کیا متبادل ہے لیکن خود شبلی فراز کے پاس بھی حکومتی پالیسی کی وضاحت کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں تھی کہ وزیر اعظم نے ملک کے غریبوں کی ہمدردی میں پالیسی بنائی ہے۔ اور غریبوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور قائد ایوان عمران خان کو خود ایوان میں آنے اور اپنی حکومت کا مؤقف پیش کرنے کی ضرور ت محسوس نہیں ہوئی۔
شبلی فراز بلاجواز تنقید کرنے کا جو الزام اپوزیشن پر عائد کررہے ہیں، اس کا آغاز دو روز قبل قومی اسمبلی میں کورونا کے سوال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہی کیا تھا۔ انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی پر صوبائی عصبیت کو فروغ دینے کا الزام لگایا اور سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوال کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ مفاہمانہ رویہ اختیار کیا اور وزیر اعظم کو قومی لیڈر بننے اور مل کر کام کرنے کی پیش کش کی لیکن حکومت کی طرف سے وزیر مواصلات مراد سعید نے ذاتی حملوں نے ذریعے کورونا وائرس کے خلاف حکومتی حکمت عملی کے علاوہ پارلیمانی اشتراک عمل کے بارے میں اس کے طرز عمل کا راز فاش کیا۔ اس کے بعد سے حکومت یااپوزیشن ایک دوسرے کو بدزبانی کا الزام نہیں دے سکتے ۔ گزشتہ تین روز سے فریقین یہ میچ ’برابر‘ کرنے کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں کورونا اور معاشی مسائل کو بھلا دیا گیا ہے اور تقریری مقابلہ جیتنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ اس دوران سینیٹ میں جو واحد اتفاق رائے دیکھنے میں آیا وہ چین کے خلاف پروپیگنڈا کو مسترد کرنے کی قرارداد تھی۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق کی طرف سے پیش کی گئی اس قرار داد میں حفاظتی ساز و سامان فراہم کرنے اور طبی تعاون پر چین کا شکریہ ادا کیا گیا۔ یہ قرارداد پیش کرتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن سینیٹرز یہ بھول گئے کہ یہ پروپیگنڈا امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیا جارہا ہے اور وہ اس پر مصر ہیں کہ چین نے معلومات چھپا کر اور کورونا کے خلاف شروع میں لاپرواہی کے ذریعے پوری دنیا کو اس وبا میں مبتلا کردیا۔
پاکستانی سینیٹرز کو دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان جاری اس سفارتی اور معاشی جنگ میں حصہ دار بننے کی بجائے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے تھا کہ چین کی طرف سے فراہم کی گئی ٹیسٹ کٹس کے معیار پر بھارت کے علاوہ یورپی ملکوں کی طرف سے بھی اعتراضات سامنے آچکے ہیں۔ پاکستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کورونا ٹیسٹ کے درست ہونے کی شرح 65 فیصد ہے۔ یعنی ٹیسٹ کروانے کے باوجود 35 فیصد لوگوں کو معلوم نہیں ہوپاتا کہ وہ کورونا میں مبتلا ہیں یا نہیں۔ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے کورونا ٹیسٹ کرنے کی شرح بہت کم ہے ۔ ان میں بھی اگر ناقص ٹیسٹ کی شرح زیادہ ہو تو اس وبا سے لاحق خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی آچکی ہے کہ چین نے پاکستان کو انسانوں پر ویکسین ٹیسٹ کرنے کے لئے تعاون کی پیش کش کی ہے۔ حکومت، صحت سے وابستہ ماہرین یا اپوزیشن کی طرف سے اس پہلو پر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کسی ملک کے ساتھ تعقات اگر عوام کی بہبود اور بھلائی کے لئے استوار ہوتے ہیں تو پاک چین تعلقات پر بات کرتے ہوئے ان اہم پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر اطلاعات نے اپوزیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھانے کے علاوہ مشورہ دیا ہے کہ حساس معاملات سے سیاسی فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اس کے لئے یہ دلیل پیش کی ہے کہ اس وقت قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کے سیاسی کلچر کا افسوسناک پہلو ہے کہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والا ہر شخص دوسرے سے ذمہ دار ی برتنے اور کسی اہم معاملہ پر خاموش رہنے کی توقع کرتا ہے تاکہ قومی اتحاد کو آنچ نہ آئے۔ شبلی فراز ایک ایسی حکومت کی نمائیندگی کررہے ہیں جس نے قومی اتحاد کی بجائے انتشار پیدا کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اس نے اپوزیشن سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے ان کے عوامی مینڈیٹ کو قبول نہیں کیا ۔ کورونا بحران سامنے آنے کے بعد سے بھی تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت نے اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور متنازعہ معاملات پر مباحث کا آغاز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ سندھ حکومت کے خلاف محاذ آرائی کے علاوہ اٹھارویں ترمیم پر تنازعہ کھڑا کرکے اور اب دسویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کی تشکیل کے ذریعے اتحاد کی بجائے سیاسی محاذ آرائی پیدا کرنے کی سوچی سمجھی کوشش کی جارہی ہے۔
وزیر اطاعات کو اتحاد کی بات کرتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ کیا حکومت پر بھی کسی مشکل وقت میں معاشرے کے تمام فریقوں کو ا کٹھا کرنے کا کوئی فرض عائد ہوتا ہے اورانتشار ، الزام تراشی اور بدزبانی کے علاوہ بھی موجودہ حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی موجود ہے۔ کورونا بحران کے دوران عمران خان کی قیادت میں بے یقینی اور بدنظمی ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ بہتر ہوتا کہ اپوزیشن کو اچھے مشورے دینے کے ساتھ شبلی فراز یہ بھی بتا دیتے کہ ملک میں حکومت کی طرف سے جاری اس ڈرامہ بازی کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments