بہشتی برگیڈ کا حلیمہ سلطان پر حملہ


جس طرح فا ئیر بریگیڈ کا کام کہیں بھی لگی ہوئی آگ کو بجھانا ہے تو ہم پاکستان والوں کے پاس ایک فا ئیر بریگیڈ ایسا ہے جو کہیں بھی آگ لگانے کا کام بخوبی جانتا ہے۔ یہ آگ مخالف کے تن بدن میں بھی ہو سکتی ہے اوراپنے دل و دماغ میں بھی۔ آ گ لگانے کے ساتھ ساتھ یہ جتھہ اپنے تئیں لوگوں کی نقل و حرکت اور افعال پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اپنی آسانی کے لئے ہم انہیں بہشتی بریگیڈ کہ سکتے ہیں۔ اگر اوپر اللہ میاں کی جنت کا انتطام و انصرام فرشتوں نے سنبھال رکھا ہے تو نیچے بہشتی بریگیڈ کے کچھ انسانوں نے اس جنت میں جانے کا امیگرشن آفس کھول رکھا ہے جس کا ہیڈ آفس فی الحال پاکستان میں ہے۔

اس بار رمضان میں کرونا کی وجہ سے تراویح میں چھوٹ کا ہمار ے اس بہشتی بریگیڈ کے اراکین نے یہ حل نکالا ہے کہ اب وہ اپنا وہی وقت ترکی کا چھ سالہ پرانا تاریخی فکشن ڈرامہ ارطغرل دیکھ کر ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔ جوں جوں ڈرامہ آگے بڑھ رہا ہے بہشتی بریگیڈ کی بے چینی اور حب الھیروئنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ڈرامے کے اہم کردار حلیمہ سلطانہ کے روپ میں اپنی ادھوری خواہشوں کی تکمیل دیکھ رہے ہیں۔ کسی کو حلیمہ کے روپ میں اپنی باجی نظر آ رہی ہیں اور کوئی اس میں ممتا تلاش کر ر ہا ہے۔ کچھ تو چھپے ٹھرکی ایسے ہیں جو گوگل پر جا کر یہ معلوم کرتے ہیں کہ اس کی شادی کا کیا سٹیٹس ہے۔

ویسے تو جب سے علما اکرام کی نظر کرم حوروں سے متعلقہ امور پر پڑی ہے بہشتی بریگیڈ والے ہر گوری رنگت اور بڑی آنکھوں والی خاتون کو غور سے دیکھتے ہیں خواہ وہ بے چاری ٹی وی کی سکرین یا پردے کے پیچھے ہی کیوں نہ چھپی بیٹھی ہو۔ ارطغرل میں کام کرنے والی حلیمہ سلطانہ بے چاری نے یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ ترکی سے ہزاروں میل دورپاکستان میں بیٹھے اس کے کچھ ماں جائے ایسے بھی ہوں گے جو اس کے چھ سالہ پرانے ڈرامے اور چند دن پرانی ا نسٹاگرام کی تصاویر کو دیکھ کر اس کے کردار اور اخلاق پر انگلیاں اٹھایئں گے۔ اگر اس نے یہ پوچھ لیا کے بھائیوں آپ کا صابن سلو ہے کیا جو اتنے پرانے ڈرامے میں میرے کردارکو تازہ تصاویر سے ملا رہے ہو۔ یہ تو اس دور کا ڈرامہ ہے جب پاکستانیوں کی اکثریت میرے سلطان کی حورم سلطان کے سحر میں مبتلا تھی جس پرخواتین ارکان اسمبلی بھی ایک دوسرے سے پوچھا کرتی تھیں کہ کل والی قسط دیکھی یا نہیں۔

ارطغرل میں کردار کو لے کر جو بد تہذیبی ہمارے بہشتی بریگیڈ والوں نے انسٹاگرام پر کی ہے وہ ہماری مجمعوعی ذہنیت اور جذباتی عدم توازن کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم لوگ کرکٹ کے میچ کو جنگ کی طرح سنگین بنا لیتے ہیں اور سنجیدہ قومی مسائل کو ٹی وی اور ٹویٹر پر حل کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ باز تو شاید ہم نے آنا نہیں بس اتنی گزارش ہے کہ بہشتی بریگیڈ والے اپنے اصلاحاتی پروگرام کو اپنے تک محدود رکھیں اور بین الاقوامی طور پر ملک کی جگ ہنسائی کا باعث نہ بنیں۔ دوسرا حلیمہ سلطان کو اپنا کچھ سمجھ کر پند و نصیحت نہ کریں اگر اس نے جواب میں زینب اور قصور جیسے واقعات یاد دلا د یے تو مارے شرمندگی کے منہ چھپاتے پھر یں گے۔ پھر ایسی بھی کیا احسان فراموشی، یہ وہی اداکارہ ہے جس نے پاکستان کے خلاف جنگ اور نفرت آمیز پیغام پر بھارتی پریانکا چوپڑا کو آڑے ہا تھوں لیا تھا۔

شاید ہم سب کے اندر کہیں نہ کہیں بہشتی بریگیڈ کا ایک نمائندہ بیٹھا ہے جو دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے، اخلاقیات کا درس دینے اور نکتہ چینی کرنے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔ ہم ڈراموں میں حقیقت ڈھونڈنے اور حقیقی زندگی میں ڈرامے تلاش کرنے والے لوگ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments