این ایف سی ایوارڈ: ’کیا سوا کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص نہیں جو بلوچستان کی نمائندگی کر سکے؟‘


دسویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں بلوچستان سے غیر سرکاری (پرائیویٹ) رکن کی حیثیت سے سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کی تقرری کی مخالفت سامنے آ رہی ہے اور بعض سیاسی شخصیات اور وکلا رہنماؤں کی جانب سے ان کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

چند روز قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی سفارش پر صدر مملکت نے ان کی تقرری کی منظوری دی تھی۔

جاوید جبار پر سب سے بڑی تنقید یہ سامنے آئی ہے کہ سندھ کے رہنے والے ایک شہری کو بلوچستان کی طرف سے کیسے نامزد کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ کہ کیا بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جو اس این ایف سی میں بلوچستان کی نمائندگی کر سکے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تنقید کا جواب جاوید جبار نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ’جو شخص جس شہر میں رہتا ہے اس جگہ سے اس کا ایک خاص رشتہ ضرور ہوتا ہے لیکن ہم ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ کو پاکستان کے تمام حصوں کے لوگوں کی خدمت کرنی پڑے گی۔‘

ان کے بقول بلوچستان سے ان کا گذشتہ دو تین دہائیوں سے کسی نہ کسی حیثیت میں تعلق رہا ہے۔ ’میں نے نہ صرف بلوچستان پر متعدد دستاویزی فلمیں بنائی ہیں بلکہ متعدد ایسی غیر سرکاری اور رضاکار تنظیموں سے وابستہ رہا ہوں جنھوں نے بلوچستان میں مختلف شعبوں میں کام کیا ہے۔‘

ان کے مطابق انھیں ایک طویل عرصے سے احساس ہے کہ بلوچستان کی حقیقت کی عکاسی ہمارے سیاسی اور معاشی نظام میں پوری طرح میں نہیں ہو پا رہی ہے۔

’میری کوشش ہو گی کہ دسویں این ایف سی ایوارڈ میں ایک ایسا کیس پیش کیا جائے جس کے ذریعے بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ حقوق ملیں۔‘

جاوید جبار کہتے ہیں کہ ان کو احساس ہے کہ طویل عرصے سے بلوچستان کی حقیقت کی عکاسی پوری طرح ہمارے سیاسی اورمعاشی نظام میں نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ماضی میں بہت ساری اچھی کوششیں کی گئی ہیں لیکن اب بھی گنجائش موجود ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کی یہ کوشش ہو گی کہ دسویں این ایف سی میں ایک ایسا کیس پیش کیا جائے جس سے بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ حقوق ملیں۔

دوسری جانب اس تقرری کے ایک بڑے ناقد اور بلوچستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کے مطابق نہ تو جاوید جبار کا تعلق بلوچستان سے ہے اور نہ ہی وہ ماہرِ معاشیات ہیں۔ ’اگر بلوچستان پر کوئی دستاویزی فلم بنانی ہو تو اُس کام کے لیے شاید جاوید جبار سے کوئی بہتر شخص نہ ہو لیکن جہاں تک معیشت اور این ایف سی کی بات ہے تو جاوید جبار کو اس کا تجربہ نہیں ہے۔‘ انھوں نے سوال اٹھایا کہ بلوچستان کی تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ آبادی میں سے ’کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو کہ بلوچستان کی این ایف سی ایوارڈ کمیشن میں نمائندگی کرسکے؟‘

جاوید جبار کا تعلق صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے ہے۔

وہ سنہ 1945 میں پیدا ہوئے اور کراچی یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی میڈیا اور فلم سازی میں گہری دلچسپی ہے۔

وہ دو دہائیوں تک اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی ایم این جے کے سربراہ رہے ہیں۔

ماضی میں جاوید جبار وفاقی حکومت کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ سینیٹر رہنے کے علاوہ وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔

سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے نیشنل افیئرز کے مشیر رہنے کے علاوہ سنہ 1999 سے سنہ 2000 تک ان کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات بھی رہے ہیں۔

وہ سابق صدر فاروق لغاری کی سیاسی جماعت ملت پارٹی، کے بانی اراکین میں سے تھے۔ سنہ 2004 تک وہ ملت پارٹی کے پاکستان مسلم لیگ (ق) میں ضم ہونے تک اس سے وابستہ رہے۔ تاہم ملت پارٹی کے ق لیگ میں ضم ہونے کے بعد وہ ق لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔

انھوں نے مشرف دور میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد وضوابط کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

فلم ساز کی حیثیت سے انھوں نے متعدد فلمیں بنانے کے علاوہ ان میں ہدایتکاری بھی کی ہے۔

نیشنل فنانس کمیشن کیا ہے؟

سنہ 1973 کے آئین میں اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا کام سرانجام دینا ہے۔ کمیشن کے وفاق سے نمائندوں کے علاوہ ہر صوبے سے دو اراکین ہوتے ہیں۔ ہر صوبائی وزیر خزانہ اس کا سرکاری رکن ہوتا ہے جبکہ اس کے علاوہ ہر صوبے سے ایک غیر سرکاری رکن کی تقرری صدر مملکت صوبائی حکومتوں کی سفارش پر کرتے ہیں۔ وزیرا علیٰ جام کمال خان نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی ماہر معیشت کی نامزدگی کرنے کی بجائے سندھ سے تعلق رکھنے والے جاوید جبار کو نامزد کیا جس کے بعد ان کی تقرری کی گئی۔

جاوید جبار کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی اور موجودہ رکن پارلیمنٹ محمد اسلم بھوتانی نے کسی اور صوبے سے تعلق رکھنے والے شخص کی بلوچستان کے لیے رکن کی حیثیت سے تقرری کو بلوچستان کے لوگوں کی توہین کے مترادف قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو کل بلوچستان کے وزیر اعلی کی تقرری بھی باہر سے ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ جاوید جبار متنازع ہو گئے ہیں اس لیے یہ بہتر ہو گا کہ وہ خود پرائیویٹ رکن کی حیثیت سے دستبردار ہو جائیں۔ اسلم بھوتانی نے کہا کہ بلوچستان کے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ عدالت میں ان کی تقرری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اسلم بھوتانی کے وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنزانی ایڈوکیٹ نے بتایا ان کے موکل نے وکالت نامہ پر دستخط کر دیے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آئندہ تین چار دنوں میں بلوچستان ہائی کورٹ میں جاوید جبار کی تقرری کے خلاف درخواست دائر کی جائے گی۔

سیاسی جماعتوں کا کیا کہنا ہے؟

بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی دیگر جماعتوں نے بھی جاوید جبار کی تقرری کی مخالفت کی ہے۔ کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پشتونخوا میپ کے رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیر نے کہا کہ جاوید جبارکو ہمارے صوبے کے بارے میں کچھ پتا نہیں کیونکہ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر آئینی طور پر کسی اورصوبے سے ہمارے صوبے کےلیے نمائندہ مقرر کیا گیا۔

نصراللہ زیر نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کہ جاوید جبار کی تقرری کو واپس لے کر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی ماہر کو این ایف سی کے لیے نامزد کیا جائے۔

وکلا کی جانب سے بھی مخالف

جاوید جبار کی تقرری کی متعدد سینیئر وکلا کی جانب سے بھی مخالفت سامنے آئی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سابق سینیٹر کامران مرتضی ایڈووکیٹ، سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عطااللہ لانگو ایڈووکیٹ اور اکرم شاہ ایڈووکیٹ کے علاوہ متعدد دیگر سینیئر وکلا نے جاوید جبار کی تقرری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تقرری یہ ظاہر کر رہی ہے کہ بلوچستان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جاوید جبار کو نہ بلوچستان کے مسائل اور نہ ہی اس کی مشکلات کے بارے میں پتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تقرری سے بلوچستان کے لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے کیونکہ اس عمل نے یہ ظاہر کیا ہے کہ بلوچستان میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو کہ اس کا مدعا بیان کر سکے۔ وکلا نے اس تقرری کو بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

صوبوں کو ملنے والے وسائل میں کمی کے خدشات

ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے قبل وسائل کا سب سے بڑا حصہ وفاق کو جا رہا تھا۔

صوبوں کو کم وسائل ملنے کی وجہ سے بلوچستان انتہائی مالی مشکلات سے دوچار رہتا تھا اور سٹیٹ بینک سے مہنگی شرح سود پر اوور ڈرافٹ کے بغیر اسے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

بلوچستان کا شروع سے یہ مطالبہ رہا تھا کہ صوبوں کے درمیان وسائل کو پچاس فیصد آبادی اور پچاس فیصد رقبے کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔

ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے اس مطالبے کو تسلیم تو نہیں کیا گیا تاہم پہلی مرتبہ آبادی کے علاوہ 12 فیصد دیگر عوامل کی بنیاد پر بھی وسائل کی تقسیم کی گئی جن میں منتشر آبادی اور پسماندگی جیسے عوامل بھی شامل تھے۔

ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں بہتر منصوبہ بندی اور بلوچستان کے مالی مشکلات کو کم کرنے کے دیگر اقدامات کی وجہ سے نویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے بھی سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بلوچستان سے این ایف سی کا غیر سرکاری رکن مقرر کیا گیا تھا۔

یہ توقع کی جا رہی تھی کہ دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے بھی انھی کی تقرری ہو گی لیکن ان کی جگہ پر جاوید جبار کی تقرری کی گئی۔

رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے خاتمے اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کو کم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

ان کے بقول اس تناظر میں جاوید جبار کی تقرری کہیں ان مبینہ کوششوں کا حصہ نہ ہو جو کہ صوبوں کے وسائل کو کم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں جس سے بلوچستان کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے کیونکہ وسائل کم ہونے سے بلوچستان ایک مرتبہ پھر مالی بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔

حکومت بلوچستان کا مؤقف

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ جاوید جبار کا شمار ملک کے باصلاحیت اور ماہر افراد میں ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے تجربے اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھ کر حکومت بلوچستان نے ان کی تقرری کی سفارش کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح جاوید جبار نے دوسرے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اس کی بنیاد پر وہ دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے بلوچستان کے کیس کی بھرپور انداز سے وکالت کریں گے جس کے نتیجے میں بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ وسائل ملیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32189 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp