کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن: پاکستان میں مہنگائی میں کمی کا فائدہ عام عوام کو ہو گا؟


مہنگائی

دنیا بھر میں کاروباری گٹھ جوڑ یا اجارہ داری قائم کرنا خاصی پرانی روایت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف ریاستی ادارے بھی سرگرم رہتے ہیں

پاکستان کے سٹیٹ بینک کی جانب سے جمعے کو اس برس کی چوتھی مالیاتی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت شرح سود نو سے اٹھ فیصد کی سطح پر آگئی ہے۔

سٹیٹ بینک کے پالیسی بیان کے مطابق یہ فیصلہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے بعد کیا گیا ہے۔

ملک میں مہنگائی کا منظر نامہ دو پہلوؤں سے مشروط ہے۔ اگر معاشی سرگرمیاں اگلے سال توقع کے مطابق تیز نہ ہوسکیں تو مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے گر سکتی ہے۔ زراعت کے شعبے میں منفی حالات کی وجہ سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے وہیں مختلف ضروریات اور مصنوعات کی مانگ میں کمی کے باعث مہنگائی کی شرح میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔

تاہم بعض اقتصادی ماہرین یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ مہنگائی میں ہونے والی یہ اچانک کمی غریب آدمی کے لیے فائدہ مند ہے بھی؟

سرکاری طور پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رواں برس جنوری میں مہنگائی کی شرح ساڑھے 14 فیصد تھی اور یہ ملک میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے میں بلند ترین سطح پر تھی۔

مزید پڑھیے

کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟

پاکستان کی عوام پر بیمار معیشت کا کتنا بوجھ ہے؟

اخراجات بڑھ رہے ہیں، تنخواہ نہیں۔۔۔

تاہم پاکستان میں اپریل کے مہینے کے اختتام پر ملک میں مہنگائی کی شرح ساڑھے آٹھ فیصد تک گر گئی۔ پاکستان کے محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح مسلسل گر رہی ہے۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 12.4 فیصد رہی جو مارچ کے مہینے میں گر کر 10.2 فیصد ہو گئی۔ اپریل کے اختتام پر مہنگائی کی شرح میں مزید کمی دیکھنے میں آئی جو 8.5 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان میں مہنگائی کیسے ناپی جاتی ہے؟

معاشی امور کے ماہر فرحان محمود کے مطابق پاکستان میں مہنگائی ناپنے کے کنزیومر انڈیکس میں 40 فیصد حصہ غذائی اجناس، مشروبات اور ٹرانسپورٹ کا ہے۔

روپے

ماہرین پاکستان میں مہنگائی میں کمی کی وجہ ملک میں طلب میں کمی کو بھی قرار دیتے ہیں جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے واقع ہوئی ہے

ان کے مطابق ’تیل اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی نے ملک میں مہنگائی کو نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘

مہنگائی میں کمی کو بیرونی وجوہات سے جوڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی جو طلب کی کمی کی وجہ سے واقع ہوئی اور اس کا مثبت اثر پاکستان پر بھی مرتب ہوا۔

’مہنگائی کی شرح مزید کم ہو گی‘

ماہرین پاکستان میں مہنگائی میں کمی کی وجہ ملک میں طلب میں کمی کو بھی قرار دیتے ہیں جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے واقع ہوئی ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں کمی کا فائدہ بھی پاکستانی شہریوں کو ہوا۔

اپریل کے مہینے کے اختتام پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ماہرین مئی کے آخر تک ملک میں مہنگائی کی شرح میں مزید کمی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔

مہنگائی میں کمی کی وجہ سے پاکستان کے مرکزی بینک نے مارچ اور اپریل کے مہینے میں شرح سود میں مجموعی طور پر 4.25 فیصد کمی کی۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے اپریل کے وسط میں شرح سود کم کرنے کے پالیسی بیان میں بھی مہنگائی مزید کم ہونے کا عندیہ دیا تھا۔

مرکزی بینک کے مطابق رواں مالی سال میں مہنگائی بھی پہلے اعلان کردہ 11 سے 12 فیصد کی رینج کے پست سرے کے قریب رہنے کی توقع ہے، اور اگلے مالی سال میں اس کے 7 سے 9 فیصد تک گر جانے کی توقع ہے۔

مہنگائی

اس سلسلے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں کمی کی وجوہات میں چیزوں کے نرخوں میں عالمی اور ملکی حالات کی وجہ سے کمی آ رہی ہے

کیا مہنگائی میں کمی کا فائدہ عام صارفین کو ہو گا؟

ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کا فائدہ کیا ایک ایسے وقت میں عام افراد کو ہو رہا ہے جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں یا ان کی آمدنی کے ذرائع کم ہو رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں کمی کی وجوہات میں چیزوں کے نرخوں میں عالمی اور ملکی حالات کی وجہ سے کمی ہے اور اس کے ساتھ اس میں اشیا کی طلب کے سکڑنے کی وجہ سے بھی کمی آئی ہے جو معیشت کے لیے اچھا رجحان نہیں ہے۔

چیزوں کی طلب میں کمی کا مطلب ہے کہ لوگ اب انھیں نہیں خرید رہے جس کی ایک وجہ قوت خرید میں کمی ہے جو بیروزگاری اور آمدنی کے ذرائع کے سکڑنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہے۔

یہ صورت حال معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جس میں ایک طرف مینوفیکچرنگ کے شعبے میں پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے تو اس کے ساتھ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کمی کا شکار ہوتی ہے جس میں ایک قومی محصولات میں کمی ہے جو حکومت چیزوں کی فروخت پر سیلز ٹیکس کی صورت میں اکٹھا کرتی ہے۔

ماہر معیشت مزمل اسلم ایسی صورت حال کو معیشت کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طلب میں کمی کا مطلب ہے کہ ذرائع آمدن محدود ہونے کی وجہ سے اب لوگ کم چیزوں کی خریداری کریں گے اور وہ بھی جن کی انھیں اشد ضرورت ہوگی۔

قوت خرید میں کمی سے وہ دوسری اشیا جیسے کہ ہوم اپلائنسز، موبائل فون وغیرہ پر خرچ کرنا بند کر دیں گے جس سے ان اشیا کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

رمضان

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق اگلے دو ماہ میں شرح مہنگائی مزید چھ فیصد تک گرنے کی پیش گوئی کرتے ہیں

اسی طرح تیل کی قیمتیں تو کم ہوئیں لیکن اس کی کھپت بھی بہت زیادہ کم ہوئی جس کا مطلب ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک عام فرد آب گاڑی یا موٹر سائیکل کم چلا رہا ہے اور اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا رہا۔

معاشی امور کے ماہر فرحان محمود کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں کمی کی وجہ سے کم مدت میں تو مہنگائی کی شرح گرنے کے اثرات اس قدر نمایاں نہ ہوں اور چیزوں کی طلب میں کمی مینو فیکچرنگ کے شعبے پر بھی منفی اثر ڈالے گی۔

معاشی نقطہ نظر میں انفلیشن (مہنگائی) کو ایک خاص سطح پر رہنا چاہیے تاکہ چیزوں کی طلب رہے اور پیداوار کا عمل چلتا رہے جو ملک کی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) کے لیے مثبت ہوتا ہے۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے اگلے دو ماہ میں شرح مہنگائی کو مزید چھ فیصد تک گرنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کے مہینے میں ہونے والی عارضی مہنگائی کے اثرات اس کے اختتام کے بعد ختم ہوں گے تو یہ شرح مزید نیچے جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ اگر کسی چیز کی قیمت گرتی ہے تو اس کا فائدہ عام فرد کو ہوتا ہے جیسے کہ حالیہ دنوں میں پٹرول کی قیمت گری تو اس کا فائدہ عام فرد کو پہنچا۔

مہنگائی

مہنگائی میں مسلسل کمی کا رجحان کیا معیشت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے؟ اس امکان کو ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان مسترد کرتے ہیں

کیا مہنگائی میں کمی کا رجحان خطرناک بھی ہو سکتا ہے؟

اس امکان کو ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں گراوٹ جہاں عام عوام کے لیے بہتر ہے تو اس کے ساتھ یہ شرح سود کو بھی نیچے لائی ہے جو صنعت و کاروبار کے لیے سود مند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کبھی بھی منفی زون میں نہیں آئی جسے ڈیفلیشن کہتے ہیں۔

اگرچہ عمومی مہنگائی میں کمی کے کچھ خطرات بھی موجود ہیں جو رسد میں عارضی تعطل یا غذائی قیمتوں میں دھچکوں کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں، تاہم ان کی وجہ سے دورِ ثانی (second-round) کے طاقتور اثرات رونما ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ معیشت کمزور ہے۔

’اسی طرح ایکسچینج ریٹ میں حالیہ کمی کے مہنگائی پر اثرات بھی کم رہنے کی توقع ہے کیونکہ درآمدی طلب پست ہے اور عالمی قیمتیں گر رہی ہیں۔‘

خیال رہے کہ مرکزی بینک نے لاک ڈاؤن سے پہلے شرح سود کو 13.25 فیصد تک بڑھا دیا تھا جس میں ایک وجہ ملک میں مہنگائی پر قابو پانا قرار دیا گیا تھا جس کے ذریعے ’نان فوڈ انفلیشن‘ کے شعبوں میں پھیلاؤ کو قابو میں لانا شامل تھا۔

رمضان

سابقہ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں رواں سال جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح ساڑھے چودہ فیصد ہو گئی تھی

کیا مہنگئی میں کمی کا کریڈٹ موجود حکومت کو جاتا ہے؟

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ملک میں مہنگائی کی کمی کو حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی معاشی پالیسیوں کے بجائے ملک میں طلب کے سکڑنے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

سابق وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ’موجودہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں رواں سال جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح ساڑھے چودہ فیصد ہو گئی تھی۔

ان کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں مجموعی طلب میں کمی دیکھنے میں آئی جس نے اشیا کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کو بڑھایا۔

اسحاق ڈار کے مطابق موجودہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ابھی بھی پاکستان مسلم لیگ نواز کی سابق حکومت سے بہت پیچھے ہے جو اپنی مدت اقتدار کے خاتمے پر مہنگائی کی شرح چار فیصد پر چھوڑ کر گئی تھی جو موجودہ حکومت کے دور میں ڈبل ڈیجیٹ یعنی دوہرے ہندسے میں داخل ہو گئی تھی۔

تاہم فرحان محمود کے مطابق حکومت اس بات کا کریڈٹ لے سکتی ہے کہ اس نے پچھلے چند مہینوں میں سپلائی سائیڈ کو مستحکم کیا اور ملک میں غذائی اجناس کی ضرورت کو پورا کیا۔

مہنگائی

پاکستان میں کاروباری گٹھ جوڑ کے ذریعے جو بھی کاروبار کیا جاتا ہے اس پر نظر رکھنے کے لیے حکومت نے مسابقتی کمیشن کا ادارہ قائم کیا ہے

طلب میں کمی کی وجہ سے گھٹتی مہنگائی کے بارے میں فرحان محمود کہتے ہیں کہ بظاہر تو یہ موجودہ حالات میں معیشت میں طلب کی کمی کی وجہ سے ہے لیکن اس کا مثبت اثر شرح سود میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

یہ شرح سود مزید نیچے جا سکتی ہے جو پیداواری عمل میں اضافے کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جب پیداواری اور معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہوں گی تو کم شرح سود پر کاروباری سرمایہ فراہم ہو گا جو گذشتہ ڈیڑھ سال میں بلند شرح سود کی وجہ سے بہت مہنگا ہوا اور نجی کاروباری افراد نے بینکوں سے قرض لینا چھوڑ دیا تھا۔

معاشی ماہرین حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مئی کے آخر تک مہنگائی کے مزید گرنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں اور اسے مئی کے مہینے میں 7.5 سے 8 فیصد کی رینج میں گرنے کی توقعات کا اظہار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32468 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp