پاکستان میں ریپ وکٹم سروائیو کیوں نہیں کر سکتا


ہمارا سماج ایک روایتی سماج ہے۔ یہاں بہت سی سو کالڈ روایات اور رواج ہیں جنہیں تہذیب اور اخلاق کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں بہت سے ایسے موضوعات کو ٹیبو بنا دیا گیا ہے جو ہمارے ارد گرد عام موجود ہیں لیکن ان کے بارے میں بات کرنا، ڈسکشن کرنا شدت سے برا سمجھا جاتا ہے۔ انہیں معاملات میں ایک معاملہ سیکس کا بھی ہے۔ جس پہ بات کرنا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایک جبلی ضرورت ہونے کی وجہ سے ہر انسان اس کے متعلق اگاہ ہے۔

لیکن یہ آگاہی کسی بھی تربیت یا تعلیم سے بالکل نابلد ہے کیونکہ اس کے بارے میں بات کرنا منع ہے۔ تو یہ جذبہ ایک حیوانی شکل اختیار کر جاتا ہے جسے سدھایا نہیں گیا ہوتا۔ اس لیے اس کا اظہار بھی انتہائی غیر مہذب انداز سے کیا جاتا ہے۔ گلیوں کوچوں میں دی جانے والی گالیوں سے لے کر کسی کو سنجیدہ دھمکی دینے تک کہیں نہ کہیں سیکس کا ذکر ضرور ہوتا ہے جس میں محترم رشتوں کو گھسیٹا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ محض دبائے جانے کی وجہ سے یا اس حقیقت سے آنکھیں چرانے کی وجہ سے ایک انسانی ضرورت کا اظہار کس قدر لازم اور بد صورت ہو چکا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ دس میں سے سات بچے پندرہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی نہ کسی قسم کی جنسی ہراسانی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔ بچے چونکہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان کو جنسی گزند پہنچانے والے انتہائی قریبی لوگ ہوتے ہیں۔ وہ رشتہ دار، خونی رشتے، ملازمین، جان پہچان کے لوگ، اساتذہ یا والدین کے دوست ہوتے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا اب ہونے لگا ہے تو عرض یہ کرنا ہے کہ ہوتا پہلے دور میں بھی تھا لیکن ایک تو خاندان کی اور اپنی عزت کا خوف خاموش رہنے پہ مجبور کرتا تھا دوسرا یہ کہ اب وہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جس میں جنونی یا تو بچے کی جان لے لیتے ہیں یا پھر اس کو اتنا مجروح کر دیتے ہیں کہ معاملہ سامنے آ جاتا ہے۔ اب بھی خاموشی سے ہونے والے جرائم کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ یہ قبیح عمل سماج میں کیوں ہو رہا یے۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ یہ جنسی گھٹن کی وجہ سے ہے تو یہ ایک غیر تسلی بخش جواب ہو گا۔ ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی یہ جرم کرتا ہے وہ کون سی گھٹن کا شکار ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس معاملے میں تعلیم اور تربیت میں بالکل صفر ہیں۔ ہم اپنے بچو‌ں کو ہر طرح کی تعلیم دیتے ہیں ان کی تربیت کرتے ہیں، آسائشات دیتے ہیں لیکن انہیں یہ سکھا دیتے ہیں کہ فلاں بڑا، یہ استاد ہے وہ قاری صاحب ہیں ان کی عزت کرنا ہے انہیں کچھ نہیں کہنا۔

یہیں ہم بڑوں کو ایک ایج دے دیتے کہ وہ جیسے چاہیں ہمارے بچوں کا استحصال کریں۔ بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ احترام کی حد کہاں ہے ان کی پرسنل سپیس کیا ہے۔ وہ کون سے باڈی پارٹس ہیں جنہیں کوئی نہیں چھو سکتا۔ انہیں بلاوجہ کوئی گود میں نہیں بٹھا سکتا یا چوم سکتا۔ یہ تربیت بچوں کو دیتے ہوئے ہم جز بجز ہوتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اتنی ہی لازم ہے جتنا کہ انہیں اچھی خوراک، تعلیم اور رہائش دینا ہے۔

وہ بچے جو کسی بھی قسم کے جنسی استحصال کا شکار بنتے ہیں وہ آسانی سے اس ڈراؤنے خواب سے نہیں نکل سکتے۔ اکثریت بار بار اس جرم کا شکار ہوتی ہے کیونکہ ایسا کرنے والا کوئی قریبی ہوتا ہے۔ ایسے بچے بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں اعتماد کی کمی ہوتی یے وہ ایک ناکردہ جرم کا شکار رہتے ہیں، خود سے گھن کھاتے ہیں اور کسی کو بتا نہیں پاتے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ کیوں بتا نہیں پاتے۔ وجہ وہی کسی بڑے کا خوف جو مجرم ہے اور ماں باپ سے ذہنی دوری جو بچے کو یہ بات والدین کو بتانے نہیں دیتی کیونکہ والدین نے انہیں یہ کبھی بتایا ہی نہیں ہوتا کہ صحیح اور غلط ٹچ کیا ہے۔

پھر اس معاشرے میں عزت کا معیار بھی عجیب ہے۔ اسے ایک جسم کے حصے کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اور یہ طے کر لیا گیا ہے کہ وکٹم ہی اس سو کالڈ عزت سے محروم ہوا ہے اور جس نے یہ قبیح عمل کیا ہے اس کو کچھ نہیں ہوا وہ باعزت ہی رہے گا۔ یہ ایک انتہائی غلط تصور ہے مجرم کو مجرم نہیں کہا جاتا اسی لیے وہ سینہ زور ہوتا ہے کہ وہ اپنے وکٹم پہ دھونس بھی جمائے گا اور مجرم بھی نہیں کہلائے گا۔ عزت کے اسی تصور نے گلی کے اوباشوں، بسوں میں سفر کرنے والے قبیح لوگوں یا کسی بھی رش والی جگہ پہ موجود لفنگوں کو یہ شہ دی ہے کہ وہ جس کو چاہے ان چاہا چھو لیں، غلط حرکت کر لیں کیونکہ ان کا وکٹم اپنی عزت کے خوف سے خاموش رہے گا۔

جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرہ ایسا کرنے والے کا برا سمجھے لیکن یہاں توجیہہ کرنے والے زیادہ ہیں۔ جیسا کہ اگر وکٹم بول پڑے اور وہ عورت ہے تو کہا جائے گا گھر سے باہر نکلی کیوں، ایسی جگہ گئی کیوں، بچہ ہے تو سب والدین پہ چڑھ دوڑیں گے کہ انہوں نے یہ لا پرواہی کی ہی کیوں۔ جبکہ ایسا کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے اس کی انسلٹ ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ حرکت کرتے ہوئے ڈرے۔

پھر اس معاشرے میں اس جرم کا شکار ہونے والے کا جینا محال ہے۔ یہاں کے معیار کے مطابق وکٹم کیونکہ عزت سے محروم ہو گیا ہے تو اس کی ذات میں ایک مستقل عیب یے جو ہمیشہ ساتھ رہے گا۔ اس کی کونسلنگ کا کوئی ادارہ نہیں ہے نہ کوئی مدد ہے جو اسے اور اس کے خاندان کو سنبھلنے کے لیے سہارا دے۔ ایسے میں نفسیاتی مسائل اور بھی شدت اختیار کر جاتے ہیں۔

بچوں کے جنسی استحصال کا شکار ہونے اور مارے جانے کے کیسز میں لڑکیاں بھی ہیں اور لڑکے بھی یہ بچے اور بچیاں تین ماہ سے لے کر اٹھارہ سال کی عمر تک کے ہیں۔ خواتین کے ساتھ ہونے والے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ ان میں سے ایک کیس مختار مائی کا ہے اٹھارہ سال پرانا ہے جس میں پنچایت کے حکم پہ اس کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔ ہر ریپ وکٹم کی طرح وہ بھی خود کشی کرنا چاہتی تھی لیکن جب اس کے علم میں آیا کہ اگر وہ مقدمہ درج کروائے گی تو مخالفین اسے مار ڈالیں گے تو اس نے مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا۔

مختار مائی کا کیس ہائی پروفائل کیس بنا۔ این جی اوز نے اس معاملے کو اٹھایا۔ میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے اس کیس میں چھ مجرموں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سزا سنائی گئی لیکن بعد میں صرف ایک مجرم کو عمر قید کی سزا ہوئی باقی سب کو رہا کر دیا گیا۔ مختار مائی این جی اوز، سوشل ورکرز اور دیگر لوگوں کی سپورٹ کی وجہ سے اپنا مقدمہ لڑتی رہی لیکن اسے کیسا انصاف ملا۔ اور یہاں معاشرے کا ایک منفی تصور بھی واضح طور پہ سامنے آتا ہے۔

بجائے اس کے کہ وکٹم کو سپورٹ کیا جاتا اسے سماج نے حسب معمول ایک بیرونی سازش قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی۔ یعنی یہ جرم ہونا، اس کے مجرمان کی بدنامی کا سبب نہیں نہ ہی ان کا جرم غلط ہے لیکن کیونکہ ان کا گھناؤنا چہرہ سامنے آ گیا تو ملک کی عزت پہ بٹہ لگ گیا۔ اسے جس ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا اور مقدمے کے دوران جن سیاسی با اثر افراد کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک الگ قصہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جرم کرنے والوں کو شٹ اپ کال دی جاتی کہ آئندہ ایسا جرم نہ ہوتا لیکن اس کے الٹ ہوا۔ وکٹم کو ذلیل کیا گیا اور وہی سو کالڈ عزت کے رونے روئے گئے کہ ایسے پاکباز سماج میں یہ واقعہ ہو ہی نہیں سکتا۔

پھر اس مجرم کے لیے سزا پہ بھی ہمارے لوگ منقسم ہیں۔ کہ سزا کیسے دی جائے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے سماج کی صورتحال ہو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بہت شائستہ ہوتے ہوئے یوٹوپیا میں بیٹھ کے کہنے لگتے ہیں کہ مجرم نفسیاتی مریض ہے اسے کچھ نہ کہا جائے گو کہ ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا کہ اتنے سنگین مجرم کو کہ جس نے ایک انسان کی جان اور عزت پہ حملہ کیا ہو بیٹھ کہ محض کونسلنگ کی جائے کہ آپ سے غلطی ہوگئی مان لو۔

ہر جگہ ہی سزا دی جاتی ہے جو مجرم کو ملنا بھی چاہیے دوسری طرف پر تشدد سوچ کے حامل افراد ہیں جو براہ راست قانون ہاتھ میں لے کے خود ہی سزا دینا چاہتے ہیں یا عدالت سے چاہتے ہیں کہ وہ حتمی موت کہ سزا دے ایسے چند کیسز جیسے زینب کیس تھا میں مجرم کو پھانسی کی سزا ہوئی بھی لیکن چونکہ یہ ایک دباؤ کے تحت کیا گیا فیصلہ تھا جس میں واضح قوانین نہیں بنائے گئے زینب کیس کے بعد بھی ایسے واقعات تواتر سے جاری رہے۔ مجرم کو سزا دینے کے لیے باقاعدہ قانون بنانے کی ضرورت ہے جو بالکل واضح ہو اور ساتھ ہی وکٹم کی ذہنی صحت کی بحالی کے لیے کونسلنگ ضروری ہے ساتھ ہی سیکس ایجوکیشن اور سماج کی تربیت بھی لازم ہے کہ وہ غلط کو غلط کہنا سیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments