سید و غیر سید: وجہ برتری اور کمتری نہیں ہونی چاہیے


ان دنوں سوشل میڈیا پر یہ بحث رہ رہ کر نمودار ہوتی رہتی ہے کہ وہ سید ہیں اس لئے تمام تر دین بیزاریوں کے باوجود وہ قابل صد احترام ہیں۔ اس ضمن میں اسرائیلی روایات کی طرح بر صغیر ہند پاک بنگلہ دیش میں مسلمانوں کے درمیان میں روایات گردش کرتی رہتی ہیں کہ کسی سید لقب والے کی شان میں ادنی سی گستاخی یا حد ادب سے تجاوز کس طرح اسی دنیاوی زندگی میں تجاوز کرنے والے کے لئے باعث فقر مرض اور طرح طرح کے مصائب بنے۔

دوسرے لفظوں میں سادات نسب کے دعویداروں کے خلاف کوئی رکیک تبصرہ کرنا قابل مواخذہ و مذمت ہے اور جولاہوں کے خلاف ہتک آمیز باتیں کرنا عین حق گوئی۔

شجرہ نسب اور حسب ونسب قائم رکھنا اچھی بات ہے لیکن فخر کرنے کے لئے پیمانہ وہ رہے گا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ الوداع میں فرما دیا کہ ”اے لوگو تم سب کا اللہ ایک ہے اور تم سب بابائے آدم کی اولاد ہو اس لئے کسی عربی کو عجمی پر فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، اسی طرح کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو گورے پر۔ اگر کسی کو کسی پر ترجیح دی جائے گی تو اس کا پیمانہ رنگ نسل اور حسب نسب نہیں، بلکہ تقوی ہوگا۔

کیا تم لوگوں تک میری یہ بات پہنچ گئی؟ موجود صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ آپ نے ہم تک یہ بات پہنچا دی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“ فلیبلغ الشاھد الغائب ”۔ ۔ ۔ یعنی“ جو لوگ یہاں حاضر ہیں اور یہ باتیں سنی ہیں وہ ان لوگوں تک یہ باتیں پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں ”۔ ۔ ۔ چنانچہ اس وقت سے اب تک یہ باتیں سینہ بہ سینہ اور تقریر و تحریر روایات اور کتابوں کے توسط سے ہم تک پہنچ رہی ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری جگہ حکم دیا کہ :“ بلغوا عنی و لو ایة ”یعنی“ اگر ایک آیت بھی مجھ سے تم تک پہنچی ہے اسے تم دوسروں تک پہنچادو ”اس لئے ہم یہ کہ کر راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے کہ یہ کام عالموں مولویوں اور دینی طبقوں کا ہے۔ آپ نے ایک حدیث سنی، سمجھی، آپ اتنے کے عالم ہیں اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے پابند ہیں۔

مسلمانوں میں حسب نسب خاص طور پر ذات برادری اشراف و ارزال در اصل بر صغیر ہند میں ہندو سماج سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں حسب نسب کے بارے صرف اتنا کہا : وجعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا۔ ۔ ۔ یعنی ہم نے تم لوگوں کو قوم و قبیلہ والا بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو اس کے ذریعے پہچان سکو۔ لیکن کوئی اسے حسب نسب کا ذریعہ نہ بنا لے اس لئے اس کے فوراً بعد اللہ نے نے وضاحت کردی : ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم یعنی اللہ کے نزدیک تم لوگوں میں سے سب سے مکرم باعزت وہی ہوگا جس کے اندر سب سے زیادہ تقوی ہوگا۔

آج کے دور میں بھی عرب قوم و قبیلے کے نام سے متعارف ہوتے ہیں میں نے عرب ممالک میں قیام کے دوران یہی پایا۔ بلکہ بعض دوستوں نے تبصرہ بھی کیا کہ جتنے سادات ہمارے ہند و پاک بنگلہ دیش میں پائے جاتے ہیں یا ناموں کے ساتھ لگاتے ہیں شاید اس کے عشر عشیر بھی عرب میں نہیں ملتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ذات برادری ہندوانہ نظام درجہ بندی یعنی سب سے اعلیٰ برہمن ( مذہب) نمبر دو پر کشتریہ (چھتریہ دفاع) نمبر تین ویسیہ (تجارت) سب سے ادنی شودر جو گندی اٹھانے کے کام پر مامور ہوتے ہیں، ایسا کسی نظام کا وجود ان کے یہاں نہیں ہے۔ آج بھی عرب ”سید“ مسٹر کے لئے اور ”سیدہ“ مسز کے لئے لکھتے اور بولتے ہیں جیسے ”السید رنجیت کومار“ ۔ السیدہ انجلی سنہا وغیرہ۔

میرے ایک دانشور دوست کا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر کے تجارت ملازمت اور بچوں کی اعلی تعلیم کے لئے بڑے شہروں میں مقیم ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگ اپنی برادری بدل کر متعارف ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ ایک اخلاقی جرم ہے بایں معنی کہ آپ اپنے آباء واجداد کی جس نسل سے ہیں اس کی نفی کر رہے ہیں اور کسی دوسرے کے آباء واجداد کو اپنا بتا رہے ہیں۔ میرے ایک عالم دوست نے شیخ الحدیث مولانا یونس صاحب رحمہ اللہ کا ایک واقعہ جو انہوں نے درس کے دوران سنایا تھا وہ نقل کیا کہ مولانا کا ایک بار پاکستان کا سفر ہوا، لوگ ملاقات کے لئے آتے رہے لیکن ان کے بچپن کا دوست جو تقسیم کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آ گیا تھا وہ نہیں آیا مولانا نے میزبان سے اور اپنے آبائی وطن کے ملنے کے لئے آنے والوں سے پوچھا کہ وہ سلطان میاں کیسے ہیں وہ ائے نہیں ان کو اطلاع دی گئی تھی نا؟

لوگ سمجھے نہیں تو استفسار بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ تو مولانا نے کہا ارے وہ جس کا گھر جونپور میں میرے گھر سے متصل تھا۔ تھوڑی دیر سننے والوں نے غور کیا پھر کہا اچھا اچھا وہ سید سلطان صاحب؟ جی جی وہ ٹھیک ٹھاک ہیں آنے ہی والے ہوں گے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی آ دھمکے سلام کیا مصافحہ کیا اور گلے بھی لگے اس معانقہ کے دوران مولانا نے بے تکلفی سے کہا ابے تم تو ہندوستان میں انصاری تھے یہاں سید کیسے بن گئے؟ تو اس نے کہا مولانا در اصل ہوا یوں کہ یہاں آنے کے بعد جب شناختی کارڈ بننے لگا تو دیکھا لوگ جولاہے کی جگہ خان لکھا رہے ہیں تو میں نے سوچا اگر بدلنا ہی ہے تو کیوں نہیں سب سے اعلیٰ سید لکھائیں اس طرح اس دن سے میں سید ہو گیا۔

ایک ٹی وی اینکر سے اقلیتی امور کے ڈائریکٹر کے دفتر میں میری ملاقات ہوئی اس وقت تک ان کا بزنس کارڈ ‌نہیں بنا تھا انہوں نے اپنا تعارف عبداللہ انصاری سے کرایا دوسری ملاقات اتفاق سے چند مہینے بعد اسی دفتر میں ہوئی تو انہوں اپنا بزنس کارڈ دیا جس میں لکھا تھا عبداللہ خان مجھے ان کا پہلا تعارفی نام اور ذات یاد آیا تو میں نے اپنے دوست، اس محکمے میں افسر انچارج، سے سرگوشی میں پوچھا کہ کیا یہ وہی شخص ہیں انہوں نے کہا ہاں مگر کیوں؟

میں نے انہیں وہ کارڈ دیکھایا اتنے میں اینکر صاحب دوبارہ اس دفتر میں ائے انچارج صاحب سے بے تکلف تھے انہوں نے پوچھ لیا کہ یہ کیا ماجرا ہے بھائی؟ تو اینکر صاحب نے جواب دیا کہ دراصل چینل آفس میں لوگ ان کو خان صاحب ہی کہتے ہیں۔ مجھے ان کی باتوں پر یقین نہیں کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اس لئے کہ میرے والد صاحب، ایک تاجر جن کا اٹھنا بیٹھنا غیر مسلم ہم پلہ بڑے تاجروں کے ساتھ خوب رہا، وہ اپنے تجربات کی بنیاد پر کہا کرتے تھے کہ غیر مسلم لوگ اگرکسی ربط ضبط والے مسلمان سے خوش ہوتے ہیں تو احتراماً اس کو خان صاحب کہ کر پکارتے ہیں یا نام کے ساتھ خان لگاتے ہیں اور اگر بد دل ہے غصہ میں ہے تو میاں یا جولاہا کہ کر اس کا ذکر کرتے ہیں۔

بر صغیر ہند میں گرچہ اسلام کے زریں اصول مساوات کے خلاف ذات برادری کا غلط رواج ہندوؤں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے سرایت کیا مگر اس پر عمل عموماً شادی بیاہ تک محدود ہے۔ مسلمانوں کے یہاں دین سیکھنے سکھانے پڑھنے پڑھانے اور پیشوائی کرنے کے لئے نہ تو پرہمنوں کی طرح سید کا حق ہے اور نہ امامت کے کسی غیر پابند شرع صاحب حسب و نسب کو آگے کیا جاتا ہے۔

در اصل سید لکھنے منوانے اور کہلانے پر اصرار کے پیچھے ایک شیعی نظریاتی کوشش رہی ہے انہوں نے پاک تن ”المصطفى والمرتضى وابناہما والفاطمة“ کا تصور اتنی شدت سے عام مسلمانوں کے دل و دماغ میں پیوست کر دیا کہ ڈر تھا کہ عشرہ مبشرہ بشمول خلفاء راشدین کے نام ان کے کارہائے نمایاں اور ان کی تاریخ مسلمانوں کے دل و دماغ اور تاریخ اور لٹریچر سے محو نہ ہو جائے۔ اسی خدشہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے علماء نے جمعہ کے خطبے کا لازمی حصہ یہ بنایا اللہ کے کلام کی بعض آیات اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث اس کے بعد بالترتیب عشرہ مبشرہ کا ذکر ہو۔ ارحم امتى بامتى ابو بکر و اشدھم فی امراللہ عمر و اصدقہم حیاء عثمان و اقضاہم علی الخ۔ ۔ ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی نسبت جوڑنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ خاندانی نسل اولاد نرینہ سے چلتی ہے اور اللہ اپنی حکمت اور مصلحت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ کو بچپن میں ہی اٹھا لیا جس کا طعنہ بعض کفار و مشرکین دیا کرتے تھے تو اللہ نے ایة : انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر، ان شانئک ہو الابتر۔ ۔ ۔ یعنی آپ ان کفار و مشرکین کے طعنوں سے بد دل نہ ہوں۔ آپ کو تو ہم (اللہ) نے حوض کوثر دیا (جس سے آپ اپنی (امتیوں دینی نسبت کی) اولاد کو سیراب کریں گے ) اس لئے آپ نماز ادا کریں اور قربانی کریں۔

آپ کی تو بڑی شان ہے بیشک وہ طعنہ دینے والے دم کٹے نرونش ہیں۔ (جن کا خاندانی سلسلہ نہیں چل سکتا) ۔ اس سورہ پر غور کرتا ہوں تو اللہ کی حکمتوں کی طرف ذہن جاتا ہے کہ اولاد نرینہ بچپن میں اٹھا لینے میں حکمت یہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وراثت نسل کی بنیاد پر نہیں چلانے کے اصول کو قائم کرنا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ اولاد نرینہ کی موجودگی میں جید اور لائق سے لائق ترین صحابہ کرام اولاد نرینہ کے حق میں دستبردار ہو جاتے اور دین میں خاندانی وراثت کا جواز پیدا ہو جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments