اپوزیشن کیوں حواس باختہ ہے؟


انسان محدود صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے کوئی بھی شخص عقل کل اور ہر فن مولا نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف کو حکومت میں لانے والے خواہ وہ ووٹر ہوں، صحافی یا پھر غیبی ہاتھ اپنے ذاتی مقاصد کے سوا ان کے پیش نظر یہ مقصد بھی تھا کہ عمران خان ایماندار شخص ہیں اور وہی کرپشن کی دیمک سے متاثر اس ملک کی بنیادیں مضبوط کر سکتے ہیں۔ ان خوش فہموں کو توقع تھی کہ خان صاحب کے عزم و ارادے کی پختگی پار لگا سکتی ہے۔ کالم نگار انتخابات سے قبل بارہا سوال اٹھاتا رہا کہ دانائی اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کے بغیر یہ تین خوبیاں منزل تک کس طرح پہنچا سکتی ہیں؟

غیر جانبدار تجزیہ ہو تو یہ خوبیاں بھی شاید عمران خان کی شخصیت میں موجود نہ ہوں مگر کچھ دیر کو تسلیم کر بھی لیں تو دانائی اور معاملہ فہمی کے سوا ملک کو مصائب کے بھنور سے وہ کس طرح نکال سکتے تھے؟ عمران خان کے کھاتے میں کسی کارنامے کا سوال ہو تو ورلڈ کپ کی جیت، شوکت خانم، نمل یونیورسٹی اور خیبر پختونخوا کی پچھلی صوبائی حکومت کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے۔ کھیل اور حقیقی زندگی کا فرق کوئی بتانے کی بات ہے؟

چندے سے ہسپتال اور تعلیمی ادارہ قائم کرنے اور بائیس کروڑ آبادی رکھنے والی مملکت کے نظم و نسق سنبھالنے میں زمین و آسمان کا فرق سمجھنا راکٹ سائنس نہیں۔ باقی رہا ان کی صوبائی حکومت کا معاملہ تو گزشتہ دور میں بزبان خود وہ اعتراف فرما چکے، ”شکر ہے ہمیں دو ہزار تیرہ میں وفاق میں حکومت نہیں ملی ورنہ اس کا بھی وہی حشر ہوتا جو خیبر پختون خوا کا پانچ برس میں ہمارے ہاتھوں ہوا“ ۔ بایں ہمہ بی آر ٹی، آٹا شوگر اور ادویات اسکینڈل کے متعلق حالیہ رپورٹس ان کی ایمانداری دکھانے کو کافی ہیں۔

اب پانچ پانچ دہائیوں پر مشتمل تجربہ رکھنے والے صحافی جو ایمانداری کے قصے لکھتے تھے وہ بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ وہ بھی اب لکھ رہے ہیں کہ خان صاحب وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھ تو چکے مگر نہ ہی حکومت چلانے کے لیے ان کی تیاری مکمل تھی اور نہ ان میں اس کام کی صلاحیت ہے۔ حکومت تدبر اور حوصلے سے چلتی ہے مضبوط مینڈیٹ کی حامل حکومتیں بھی حزب مخالف سے تصادم مول لینے سے حتی الامکان گریز کرتی ہیں۔ وفاقی وزرا اور وزیراعظم کے اب تک کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے حکمران جماعت اپوزیشن دور کے مائنڈ سیٹ سے نجات حاصل نہیں کر پائی۔ اس کشیدگی کے ماحول میں وبا سے نمٹنے کے اقدامات اور معاشی بحران پر غور و فکر کس طرح ہو سکتا تھا۔ کورونا پر بحث کے لیے بلائے گئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں گالم گلوچ جاری ہے۔ وزیراعظم اور ان کے رفقا کی سوئی اٹک چکی ہے کہ کسی مخالف کو چھوڑنا ہے نہ کسی کو این آر او دینا ہے۔ کون سمجھائے کہ جمہوری حکومت کا اختیار نہیں کہ کسی کو پکڑنے اور چھوڑنے کے فیصلے کرتی رہے۔ اور پکڑے گا تو وہ جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں تحریک انصاف کے وزرا کا نیا اسکینڈل نہ سامنے آئے۔

چیخ و پکار کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کارکردگی کے میدان میں نہ صرف بری طرح ناکام رہی بلکہ اس کا کرپشن کے خلاف بیانیے سے اس کا اخلاص بھی آشکار ہو چکا۔ لہذا جھنجھلاہٹ چھپانے اور attention divert کرنے کے لیے کبھی دو چار وزرا کے قلمدان تبدیل کیے جاتے ہیں تو کبھی اٹھارہویں ترمیم جیسی لا یعنی بحث چھیڑی جاتی ہے۔ جب سے اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کا شوشہ چھوڑا گیا یے پیپلز پارٹی کو بھی اپنی ناقص کارکردگی سے توجہ ہٹانے اور سندھ کارڈ کے استعمال کا موقع مل گیا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کو علم ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی اور ایوان میں حکومتی اراکین اتنی تعداد میں موجود نہیں۔

کہا جا رہا ہے اس خواہش کے پیچھے مقتدر قوتیں ہیں جنہیں مجموعی وسائل میں وفاقی حکومت کے حصے کی کٹوتی پر زیادہ غصہ ہے جو ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں 50 فیصد سے کم کر کے 42.5 فیصد کر دیا تھا۔ 18 ویں ترمیم میں، آئین کے آرٹیکل 160 ( 3 ) (a) میں صراحت سے صوبوں کو یہ تحفظ دیا گیا تھا کہ ”قومی مالیاتی کمیشن کے ہر ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ، اس حصے سے کم نہیں ہوگا جو صوبوں کو پچھلے ایوارڈ میں دیا گیا تھا۔“ اس ترمیم کے ناقدین کو زیادہ اعتراض اسی پر ہے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کو مجموعی وسائل میں اپنا حصہ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔

وفاق کے حصے کی رقم کا بڑا حصہ ایک دفاعی بجٹ کی مد میں جاتا ہے۔ دوسرا بڑا حصہ قرضوں کی واپسی پر خرچ ہوتا ہے۔ لہذا وفاقی اخراجات اور دفاعی بجٹ پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے اسی باعث واویلا ہے۔ یہ مگر کوئی نہیں سوچ رہا کہ غیر متناسب شرح آبادی اور وسائل رکھنے والی وفاقی اکائیوں کے لیے اس ترمیم میں چھیڑ چھاڑ کے سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں اور یہ عمل چھوٹی اکائیوں کے لیے تحفظات کا سبب بن سکتا ہے۔ وفاق کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر ذرائع مثلاً محاصل اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی سنجیدہ کاوش کرنی چاہیے۔

اس معاملے میں اپوزیشن جماعتیں بھی قصوروار ہیں۔ جیسے کہ اس ترمیم میں صحت اور تعلیم صوبوں کی ذمہ داری قرار پائی۔ یکساں تعلیمی نظام جو درست حقائق پر مبنی ہو سمجھ نہیں آتا اسے نافذ کرنے میں کیا قباحت تھی مگر اس میں صوبے اب تک ناکام ہیں۔ صحت کے شعبے میں بھی کسی بھی صوبے کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں لیکن مداخلت ہو تو پھر گراں گزرتی ہے۔ بعض اعتراض اپنی جگہ اہم بھی ہیں مثلاً مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وفاق کی جانب سے لیت و لعل سے کام لینا۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اپنا سیکریٹریٹ نہ ہونا۔ قدرتی وسائل کی تقسیم پر اعتراض بھی قابل غور ہے۔ 18 ویں ترمیم کے ناقدین کہتے ہیں یہ ترمیم جلد بازی میں منظور کی گئی۔ حالانکہ ترمیم کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے نو ماہ میں 200 اجلاس ہوئے۔ اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے رائے عامہ لی گئی۔ بار کونسلوں سے بھی درخواست ہوئی کہ وہ تجاویز دیں۔

آئین میں پہلے بھی ترامیم ہوتی رہی ہیں اور دس سال سے اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ بھی ملک چل ہی رہا تھا۔ اچانک نجانے کیا ہوا ہے کہ اپوزیشن بالخصوص پیپلز پارٹی ایسے چیخ رہی ہے جیسے 18 ویں ترمیم ختم کرنے کی بات سے ہی آسمان گر پڑے گا جبکہ تحریک انصاف یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہے کہ اس ترمیم کی موجودگی میں ملک چل ہی نہیں سکتا۔ حکومت کی مجبوری تو سمجھ آتی ہے اپوزیشن کیوں اتنی حواس باختہ ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ وفاق اور پنجاب میں حکمراں اتحاد کو اکثریت حاصل نہیں دونوں حکومتیں ایک پھونک کی مار ہیں۔ اپوزیشن اگر سروسز ایکٹ والی شرمناک کارکردگی نا دہرائے تو آئین میں ترمیم کس طرح ہو سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments