ارطغرل ڈرامہ اور اس پر بحث، آخر کیوں؟


ترکی کی ٹیلی ویژن سیریز دیریلش ارطغرل پچھلے دو ہفتوں سے پاکستان میں موضوع بحث ہے۔ ٹویٹر، فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں میں ارطغرل کے کرداروں پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس سیریز کے پہلے سیزن کی پاکستان ٹیلی ویژن پر اب تک ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ اقساط نشر ہو چکی ہیں۔ یہ سیریز مجموعی طور پر پانچ سیزن پر مشتمل ہے۔ ہر سیزن کی 70 سے زائد قسطیں ہیں جبکہ آخری سیزن 60 قسطوں پر مشتمل ہے۔ ترک ٹی وی نے اس سیریز کی دو دو قسطوں کو جوڑ کر ایک قسط تیار کی ہے جسے ترک زبان میں بولم کہا جاتا ہے، بولم کی تعداد 150 ہے جبکہ ہر بولم کا دورانیہ دو گھنٹے ہے۔ یوں مجموعی طور پر یہ ڈرامہ ( ٹی وی سیریز) 300 گھنٹوں پر مشتمل ہے۔

سیریز میں ترک ٹیلی ویژن نے سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان کے والد ارطغرل کے کردار کو فلمایا ہے جبکہ چوتھے اور پانچویں سیزن میں عثمان کے بچپن کے کردار کو بھی دکھایا گیا ہے۔ عثمان کے کردار پر الگ سے کورولش عثمان کے نام سے ٹی وی سیریز کی پروڈکشن پر بھی کام جاری ہے جس پر کورونا وائرس کی وجہ سے فی الحال کام روک دیا گیا ہے، البتہ اس سیریز کے پہلے سیزن کی 20 اقساط یوٹیوب پر جاری کردی گئی ہیں۔ ہم یہاں صرف دیریلش ارطغرل ٹی وی سیریز پر بات کریں گے جس میں عثمانی سلطنت کے پہلے سلطان عثمان کے والد کی زندگی کو فلمایا گیا ہے۔

یہ سیریز ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن ٹی آر ٹی ون کی پروڈکشن ہے۔ سیریز کے رائٹر محمود بوزدا ہیں جو کہ ترکی کے سکرین رائٹرز میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ سیریز کے مرکزی کردار 40 سالہ اداکار اینگن التان دوزیاتان ہیں جنہوں نے ارطغرل کا کردار نبھایا ہے۔ اینگن کا خاندان البانوی مہاجر ہے۔ اینگن کو ترکی کا مارلن برانڈو کہا جا رہا ہے۔ مارلن برانڈو مشہور امریکی ہالی ووڈ اداکار ہیں جنہوں نے گاڈ فادر میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

ڈرامے میں حلیمہ خاتون کا کردار نبھانے والی 27 سالہ نوجوان ترکش اداکارہ و ماڈل اسرا بلگچ دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور بہترین اداکاری کے باعث مقبول ہو چکی ہیں۔ اسرا نے اکتوبر 2017 میں سٹار ترکش فٹبالر گوک ہان تورے سے شادی کی جو کہ 2019 میں طلاق پر ختم ہوئی۔ اسرا آج کل استنبول کی ایک جامعہ میں قانون کی طالبہ ہیں جب کہ اس سے پہلے وہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر بھی کر چکی ہیں۔ ڈرامے کا ایک بہترین کردار بارہویں اور تیرہویں صدی کے مشہور مسلمان صوفی ابن عربی ہیں۔ یہ کردار لاس اینجلس میں مقیم ترک نژاد امریکی اداکار عثمان سوئکت نے نبھایا ہے۔

دسمبر 2014 کو سکرین ہونے والا ترکی کا یہ ڈرامہ دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں اربوں روپے کا بزنس کر چکا ہے۔ ستمبر 2016 تک اس کی آمدنی 250 ارب امریکی ڈالر تھی۔ ڈرامے کی مکمل شوٹنگ اناطولیہ کی ساحلی پٹی پر واقع ریوا (riva) نامی گاؤں میں کی گئی ہے۔ یہ جگہ ترکی میں فلم اور ڈرامہ شوٹنگ کے لئے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر بازنطینی دور کے آثار آج بھی نمایاں ہیں۔ گھنے جنگلات، دریا اور پہاڑ بکثرت ہیں۔ ڈرامے کی شوٹنگ کے لئے ریوا کے انتخاب کی بہت تعریف کی گئی ہے۔

ڈرامے کی خاص بات اس کی شوٹنگ میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ خوبصورت ایریل شارٹس (Aerial shorts) ، بہترین فوٹو گرافی، پھرتیلے عربی النسل گھوڑے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ سیریز کو دلچسپ بنانے کے لئے ہالی ووڈ طرز پر ٹیکنالوجی کی مدد سے (special effects) بھی ڈالے گئے ہیں۔ شوٹنگ میں جاندار ایکشن سینز ڈالنے کے لئے NOMAD نامی (Stunt team) کا سہارا لیا گیا ہے۔ اداکاروں کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور تلوار چلانے کی مہارت دینے کے لئے اس ٹیم نے کام کیا۔

ارطغرل سیریز کو ہالی ووڈ پروڈکشنز سے کسی طور بھی کم تر خیال نہیں کیا جا رہا ہے۔ ارطغرل کا کردار نبھانے والے اینگن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہیں شوٹنگ سے قبل 5 ماہ مسلسل سخت محنت کرنا پڑی۔ اینگن کے بقول انہوں نے ارطغرل کو سمجھنے کے لئے پانچ ماہ تک جامع تحقیق کی۔ اپنے جنگجو ساتھیوں کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن کی خاطر ہفتوں وقت گزارا۔ ان کے بقول وہ چاہتے تھے کہ ارطغرل اور اس کے ساتھیوں کی دوستی کو اپنے کردار سے عملی ثابت کرسکیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کی ذاتی زندگی پر اس کردار کا اثر پڑا جس کو آپ نے اس قدر خوبصورتی سے نبھایا، اینگن نفی میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی ڈرامہ یا فلم میں کردار نبھاتے ہیں اور وہیں اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں میرا کام اداکاری کرنا ہے اور بس یہی میں کرتا ہوں۔ میں ارطغرل کے فلسفے کو بہت پہلے سے جانتا اور سمجھتا ہوں مگر میری ذاتی زندگی میں میں نے اسے کبھی نہیں پایا۔

ڈرامے میں ارطغرل ایک ایسے کردار کے طور پر ابھرتا ہے جو حق کے راستے پر چل کر انصاف کے لئے لڑتا ہے۔ ایک ایسا کردار جو ہاتھوں میں تلوار لئے جنگجو بھی ہے، جبکہ اپنے والد یعنی قبیلے کے سردار کا ایک اچھا مشیر اور نائب بھی ہے۔ گھوڑے کی پیٹھ پر لمبے سفر کرنے والا ارطغرل رستے میں ایک ہوشیار شکاری نظر آتا ہے۔ نماز کے اوقات میں ارطغرل اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتا ہے تو کھانے کی میز پر ترک میوزک کا دلدادہ نظر آتا ہے۔ اپنے بھائی کا اطاعت گزار ارطغرل دشمنوں میں رعب و دبدبہ رکھتا ہے۔ اس کی رہنمائی وقت کے بڑے صوفی و عارف محی الدین ابن عربی کرتے ہیں۔ ابن عربی وہ جنہوں نے ابن رشد کے نماز جنازہ میں شرکت کی اسے امام کہہ کر پکارا ایک حقیقی کردار ہیں جنہیں ارطغرل میں ایک درویش صوفی کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔

ارطغرل ڈرامے پر بحث:

پاکستان میں ڈرامے کے کئی نقادوں کا خیال ہے کہ ارطغرل کا کردار محض فرضی ہے۔ ان حضرات کے مطابق تاریخی حوالوں سے سلطان عثمان کے والد ارطغرل کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں ڈرامے کا کردار افسانوی ہے نہ کہ حقیقی۔ ارطغرل کو پسند کرنے والوں کی تعداد اس کے نقادوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ارطغرل ایک حقیقی کردار ہے جسے ڈرامے کے ذریعے دوبارہ زندہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ارطغرل حقیقی طور پر عثمان کے والد کا نام تھا جس کا ترکی کے شہر سوگوت میں مقبرہ بھی ہے۔ نہ صرف ارطغرل بلکہ اس کے والد یعنی عثمان کے دادا سلیمان شاہ کا مقبرہ بھی شام میں موجود ہے۔ اس مقبرے کی حفاظت اور انتظام و انصرام خود ترک حکومت کے پاس ہے۔ اسی طرح ڈرامے میں دکھائے گئے کردار ارطغرل کے وفادار جنگجو ترگت کی قبر بھی ترکی میں موجود ہے۔ جبکہ کمانڈر بامسی کا مجسمہ بھی ترک میوزیم میں نصب ہے۔

اسی طرح ڈرامے کے ایک اور اہم کردار ابن عربی کے بارے میں کئی اہم معلومات دستیاب ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کی شام، عراق اور موجودہ ترکی میں آمد و رفت رہی ہے۔ اس حوالے سے انگریز مصنف جان بالڈک کی تصنیف Essence of Sufism سے بھی حقائق کی قدرے تصدیق ہوتی ہے۔ ابن عربی 1165 میں سپین میں پیدا ہوئے، صوفی تاریخ کے مطابق انہوں نے تیونس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عراق، شام، اور اناطولیہ (ترکی میں موجود پہاڑی سلسلہ) کا سفر کیا۔

ابن عربی 1223 میں شام میں قیام پذیر ہوئے اور 1240 میں شام میں ہی فوت ہوئے جہاں دمشق میں ان کی قبر آج بھی موجود ہے۔ ڈرامے میں ابن عربی اور ارطغرل کو جن ادوار میں دکھایا گیا ہے یہ وہی زمانہ معلوم ہوتا ہے جب ابن عربی عمر کے آخری حصے میں شام اور اناطولیہ میں آتے جاتے رہے۔ تاریخی حوالوں میں ارطغرل کی موت 1280 میں بتائی جاتی ہے جب اس کی عمر 90 سال تھی۔ یعنی ابن عربی کی وفات کے وقت اور ان کی عمر کے آخری حصے میں ارطغرل ابھی اپنی جوانی میں تھا۔ ڈرامے میں دونوں کے کردار کو بالکل ایسے ہی دکھایا گیا ہے جو کہ بظاہر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیریلش ارطغرل کے کردار فرضی اور افسانوی نہیں بلکہ حقیقی ہیں۔ البتہ ڈرامے میں ان کرداروں سے منسوب کارناموں اور واقعات کے بارے میں سو فی صد وثوق سے کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔

جہاں تک ڈرامے کے مواد کی بات ہے، اس پر سعودی عرب اور مصر کی جانب سے سب سے زیادہ اعتراض کیا گیا ہے۔ مذکورہ ممالک میں ڈرامے کی سکریننگ پر پابندی بھی عائد ہے مگر اس عمل میں سیاسی عنصر غالب ہے۔ بنیادی طور پر سعودی عرب خلافت کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ سعودی عرب ڈرامے کو خلافت کی بحالی کے لئے ترکی کا ایک پراپیگنڈا ٹول سمجھتا ہے۔

پاکستان میں بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے افراد بھی اس ڈرامے کے مواد کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ڈرامے میں جنگوں اور قتل و غارت کو ہیرو ازم کی صورت میں دکھایا گیا ہے جس کے مسلمان معاشرے بالخصوص پاکستان پر منفی اثرات پڑیں گے۔ اسی طرح ان حضرات کی یہ بھی رائے ہے کہ ترک قوم کے اپنے ہیروز ہیں ہمارے اپنے ہیروز ہیں، پی ٹی وی کو بیرون ملک سے ڈرامے امپورٹ کرنے کی بجائے اپنے ہیروز کو زندہ کرنا چاہیے۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ خلافت کی بحالی اب ممکن نہیں لہذا اس طرح کے ڈراموں سے قوم کو گمراہ نہ کیا جائے۔ دوسری جانب ارطغرل ڈرامے کو پسند کرنے والوں کے اپنے دلائل ہیں۔ ان کے مطابق ڈرامے میں ایک مسلمان نوجوان کو بطور ہیرو دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ پہلی بار کسی مسلمان ملک نے مسلم تاریخ کو اجاگر کیا ہے۔ ان افراد کا خیال ہے کہ ارطغرل دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو کم کرے گا جبکہ خود مسلمان نوجوانوں میں اپنے مذہب سے لگاؤ کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ الغرض ڈرامے کو پسند اور ناپسند کرنے والوں کے اپنے اپنے خیالات اور دلائل ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments