کے ایم کریاپا: انڈین فوج کے سربراہ جنھوں نے جنرل ایوب خان کی پیشکش رد کر دی تھی


انڈین فوج کو قیادت فراہم کرنے کی بات آتی ہے تو فیلڈ مارشل کوڈیندیرا مڈپا کریاپا (کے ایم کریاپا) کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔

وہ انڈین فوج کے پہلے کمانڈر اِن چیف تھے۔ ان کو ’کِپر‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ فتح گڑھ میں تعینات تھے تو ایک برطانوی افسر کی بیوی کو ان کا نام لینے میں بہت دِقت ہوتی تھی۔ اس لیے انھوں نے انھیں کِپر پکارنا شروع کر دیا۔

سنہ 1942 میں فیلڈ مارشل کے ایم کریاپا لیفٹیننٹ کرنل کا عہدہ حاصل کرنے والے پہلے انڈین افسر بنے۔ 1944 میں وہ بریگیڈیئر بنے اور بنوں فرنٹیئر بریگیڈ کے کمانڈر کے طور پر تعینات ہوئے۔

فیلڈ مارشل کریاپا کی سوانحہ عمری لکھنے والے میجر جنرل وی کے سنگھ کہتے ہیں کہ ’ان دنوں ایک گاؤں سے گزرتے ہوئے کریاپا نے دیکھا کہ کچھ پٹھان عورتیں اپنے سر پر پانی سے بھرے بڑے بڑے برتن لے کر جا رہی ہیں۔

’پوچھ گچھ کے بعد پتا چلا کہ انھیں روز چار میل دور دوسرے گاؤں سے پانی لینے جانا پڑتا ہے۔ کریاپا نے فوراً ان کے گاؤں میں کنواں کھدوانے کا حکم دیا۔ پٹھان ان کے اس کام سے اتنا خوش ہوئے کہ انھیں خلیفہ کہنا شروع کر دیا۔‘

لیہ کو انڈیا کا حصہ بنانے میں اہم کردار

سنہ 1947 میں کریاپا کو فوج کی مشرقی کمان کا سربراہ بنا کر رانچی میں تعینات کیا گیا۔ لیکن دو ماہ کے اندر جیسے ہی کشمیر میں حالات خراب ہوئے تو انھیں لیفٹیننٹ جنرل ڈڈلی رسل کی جگہ دلی اور مشرقی پنجاب کا جی او سی چیف بنایا گیا۔ انھوں نے ہی اس فرنٹ کا نام مغربی کمان رکھا۔

انھوں نے فوراً کلونت سنگھ کی جگہ جنرل تھمیہ کو جموں کشمیر فورس کا سربراہ مقرر کیا۔

یہ بھی پڑھیے

جب پاکستان نے بھارت کے دس جنگی طیارے تباہ کیے

’1965 کی جنگ ایک سڑک کی وجہ سے شروع ہوئی‘

کیا جناح کی مہلک بیماری کا علم تقسیم ہند کو روک سکتا تھا؟

کماؤں کی ‘برہمن’ لڑکی جو پاکستان کی خاتونِ اول بنی

لداخ کے شہر لیہ جانے والی سڑک تب تک نہیں کھولی جا سکتی تھی جب تک انڈین فوج کا زوجیلا، دراس اور کارگل پر قبضہ نہیں ہو جاتا۔

اوپر سے آنے والے احکامات کے برعکس کریاپا نے ایسا ہی کیا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو آج لیہ انڈیا کا حصہ نہیں بنا ہوتا۔ ان کے منصوبے کے تحت انڈین فوج نے پہلے نوشہرہ اور جھنگر پر قبضہ کیا اور پھر زوجیلا، دراس اور کرگل سے بھہ حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا۔

کریاپا کی جیپ پر قبائلیوں کا حملہ

کمانڈر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کریاپا نے نوشہرہ کا دورہ کیا۔ وہاں اس وقت 50 پیراشوٹ رجمنٹ کا کنٹرول تھا۔

انھوں نے بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر عثمان سے کہا کہ وہ ان سے ایک تحفہ چاہتے ہیں۔ جب عثمان نے پوچھا کہ وہ تحفے میں کیا چاہیں گے تو کریاپا کا جواب تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ کوٹ پر قبضہ کریں۔ عثمان نے اس کام کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دیا۔

بعد میں جب قبائلیوں نے نوشہرہ پر حملہ کیا تو اس وقت کوٹ پر انڈین فوج کے کنٹرول نے نوشہرہ کو بچانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اسی دوران جیپ میں سرینگر سے اوڑی جاتے ہوئے بریگیڈیئر بوگی سین نے کریاپا کو مشورہ دیا کہ جیپ سے جھنڈا اور سٹار پلیٹ ہٹا لیے جائیں تاکہ دشمن ان کی جیپ کو پہچان کر سنائپر فائر نہ کر سکے۔

میجر جنرل وی کے سنگھ بتاتے ہیں کہ ’کریاپا نے یہ کہتے ہوئے مشورے پر عمل سے انکار کر دیا کہ جب ان کے فوجی یہ دیکھیں گے کہ ان کے کمانڈر نے ڈر کر جھنڈا اتار دیا ہے تو اس سے ان کے فوجیوں کی ہمت اور عزم پر بُرا اثر پڑے گا۔

’بوگی سین کا خدشہ صحیح نکلا۔ ان کی جیپ پر فائرنگ ہوئی لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔ واپسی کے وقت بھی ان کی جیپ پر ایک بار پھر فائرنگ ہوئی جس سے جیپ کا ایک ٹائر پھٹ گیا لیکن کریاپا محفوظ رہے۔‘

ایک دوسرے موقع پر ٹیتھوال کے دورے کے دوران کریاپا اپنی حفاظت کی پرواہ کیے بغیر اس پہاڑی پر چڑھ گئے جس پر قبائلی نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کے وہاں سے چلے جانے کے کچھ منٹوں بعد ہی ٹھیک وہاں پر توپ کا گولہ آکر گرا جہاں وہ کھڑے تھے۔

بعد میں کریاپا نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’دشمن کے گولے بھی جنرل کی عزت کرتے ہیں۔‘

اسی مہم کے دوران ایئر کموڈور مہر سنگھ پونچھ میں اسلحے سمیت ڈکوٹا طیارہ اتارنے میں کامیاب ہو گئے، وہ بھی رات کے اندھیرے میں۔ اس کے کچھ عرصے بعد انھوں نے لیہ میں بھی وہ ڈکوٹا طیارہ اتارا جس پر جنرل تھمیہ سوار تھے۔

جنرل کریاپا نے نہ صرف مہر سنگھ کو مہاویر چکر دینے کی سفارش کی بلکہ اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ اعزاز انھیں ہی ملے۔

عجیب بات یہ ہے کہ فضائیہ کو اپنے ہی افسر کو یہ اعزاز دینا پسند نہیں آیا اور اس کے بعد انھیں کوئی ترقی نہیں دی گئی۔

پہلے انڈین کمانڈر اِن چیف

1946 میں عبوری حکومت کے وزیر دفاع بلدیط سنگھ نے اس وقت بریگیڈئیر کے عہدے پر کام کرنے والے ناتھو سنگھ کو انڈیا کا پہلا کمانڈر اِن چیف بنانے کا مشورہ دیا تھا۔

جنرل کریاپا کی سوانحہ عمری لکھنے والے میجر جنرل بھوون چندر کھنڈوری اپنی کتاب ’فیلڈ مارشل کے ایم کریاپا، ہز لائف اینڈ ٹائمز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ناتھو سنگھ نے ندامت کے ساتھ اس پیشکس کو قبول نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سینیئر ہونے کی وجہ سے اس عہدے پر کریاپا کا زیادہ حق بنتا تھا۔

’ناتھو سنگھ کے بعد راجیندر سنہجی کو بھی اس عہدے کی پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے بھی کریاپا کی عزت کرتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا۔ تب جاکر چار دسمبر 1948 کو کریاپا کو پہلا انڈین کمانڈر اِن چیف بنایا گیا۔‘

اس وقت جنرل کریاپا 49 برس کے تھے۔ برطانوی راج کے 200 سال بعد پہلی بار کسی انڈین شہری کو انڈین فوج کی باگ ڈور دی گئی تھی۔ 15 جنوری 1949 کو کریاپا نے یہ عہدہ سنبھالا۔ تب سے لے کر آج تک اس دن کو آرمی ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔‘

نظم و ضبط پسند کرنے والے کمانڈر

کریاپا کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انھوں نے انڈین فوج کو سیاست سے دور رکھا۔

شاید اسی وجہ سے انھوں نے آئی این اے (عالمی جنگ دوئم کے دوران قائم کیے جانے والے دستے) کے فوجیوں کو انڈین فوج میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ ایسا کرتے تو انڈین فوج سیاست سے دور نہ رہ پاتی۔

میجر جنرل وی کے سنگھ اپنی کتاب ’لیڈرشپ اِن انڈین آرمی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک بار سرینگر میں جنرل تھمیہ، جو دوسری عالمی جنگ اور کشمیر میں ان کے ساتھ کام کر چکے تھے، ان کے ساتھ ایک ہی کار میں بیٹھ کر جا رہے تھے۔ تھمیہ نے سگریٹ جلا کر پہلا کش ہی لیا تھا کہ کریاپا نے انھیں ٹوکا کہ فوجی گاڑی میں سگریٹ پینا منع ہے۔

’تھوڑی دیر بعد عادتاً جنرل تھمیہ نے ایک اور سگریٹ نکالی لیکن پھر کریاپا کی بات کو یاد کرتے ہوئے واپس پیکٹ میں رکھ دی۔ کریاپا نے اس کو نوٹ کیا اور ڈرائیور سے گاڑی روکنے کو کہا تاکہ تھمیہ (باہر جا کر) سگریٹ پی سکیں۔‘

سرکاری کار کے ذاتی استعمال پر ہنگامہ

فیلڈ مارشل کریاپا کے بیٹے ایئر مارشل نندو کریاپا اپنے والد کی سوانحہ عمری میں لکھتے ہیں کہ ’میں دلی کے نوین بھارت ہائی سکول میں پڑھ رہا تھا، ایک دن ہمیں لینے فوج کی گاڑی سکول نہیں آپائی۔ میرے والد کے اے ڈی سی نے مجھے سکول سے واپس لانے کے لیے سٹاف کار بھیج دی۔ میں بہت خوش ہوا۔‘

’کچھ دن بعد جب میرے والد ناشتہ کر رہے تھے تو اس بات کا ذکر ہوا۔ یہ سنتے ہی میرے والد آگ بگولا ہو گئے اور انھوں نے غصے سے اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ سرکاری کار کسی بھی حال میں ذاتی کام کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

’انھوں نے فوراً اس کا بل بنوایا اور اے ڈی سی سے کہا کہ اسے ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا جائے۔‘

ایوب خان کی پیشکش کو منظور نہیں کیا

سنہ 1965 میں پاکستان سے جنگ کے وقت ان کے بیٹے نندو کریاپا انڈین فضائیہ میں فائٹر پائلٹ تھے اور ان کا طیارہ پاکستان نے مار گرایا تھا۔

نندو کریاپا کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ ایئر مارشل نندو کریاپا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان اور میرے والد کے درمیان بہت دوستی تھی کیونکہ 40 کی دہائی میں ایوب ان کے ماتحت کام کر چکے تھے۔ میرے پکڑے جانے کے بعد ریڈیو پاکستان سے خاص طور پر اعلان کروایا گیا کہ میں محفوظ ہوں اور ٹھیک ٹھاک ہوں۔

’ایک گھنٹے کے اندر دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے میرے والد سے فون پر بات کی اور کہا کہ ایوب خان نے ان کے لیے پیغام بھجوایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو وہ آپ کے بیٹے کو فوراً واپس بھیج سکتے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ تب ان ک والد نے جواب دیا کہ ’انڈیا کے تمام جنگی قیدی میرے بیٹے ہیں۔ آپ میرے بیٹے کو ان کے ساتھ ہی چھوڑیے گا۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں ’یہی نہیں جب میں راولپنڈی کی جیل میں بند تھا تو ایوب خان مجھ سے ملنے آئے، میرے لیے سٹیٹ ایکسپریس سگریٹ کا ایک کارٹن اور پی جی وڈ ہاؤس کی ایک کتاب لے کر آئے۔‘

جب پاکستانی فوجیوں نے اپنے ہتھیار نیچے کیے

انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ ختم ہونے کے بعد کریاپا انڈین فوجیوں کی ہمت بڑھانے سرحد پر گئے۔ اس دوران وہ سرحد پار کر کے ’نو مینز لینڈ‘ میں داخل ہو گئے۔

نندو کریاپا لکھتے ہیں کہ ’انھیں دیکھتے ہی پاکستانی کمانڈر نے حکم دیا کہ وہ وہیں رُک جائیں، ورنہ انھیں گولی مار دی جائے گی۔ انڈین سرحد سے کسی نے چلا کر کہا کہ یہ جنرل کریاپا ہیں۔ یہ سنتے ہی پاکستانی فوجیوں نے اپنے ہتھیار نیچے کر لیے۔‘

’ان کے افسر نے آکر جنرل کریاپا کو سلیوٹ کیا۔ کریاپا نے پاکستانی فوجیوں سے ان کا حال چال پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ انھیں اپنے گھر سے چٹھیاں مل رہی ہیں یا نہیں؟‘

ہندی بولنے میں مشکل

ہندی بولنے میں کریاپا کا ہاتھ ذرا تنگ تھا۔ اس لیے لوگ اکثر انھیں ’براؤن صاحب‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ دراصل وہ انگریزی میں سوچا کرتے تھے۔

آزادی کے فوراً بعد کریاپا کو سرحد کے قریب فوجیوں کے سامنے تقریر کرنی تھی۔ وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اب ملک آزاد ہے، آپ اور ہم بھی آزاد ہیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ’اس وقت آپ مفت ہیں، ملک مفت، سب کچھ مفت ہے۔‘

کریاپا خاندانی منصوبہ بندی کے حامی تھے۔ ایک بار امرتسر میں فیملی ویلفیئر سینٹر میں فوجیوں کی بیویوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ماؤ اور بہنو، ہم چاہتا ہے کہ آپ دو بچہ پیدا کرو، ایک اپنے لیے، ایک میرے لیے۔‘

شاید وہ کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ ’آپ کے دو بیٹے ہونے چاہییں۔ ایک خاندان کے لیے اور ایک انڈین فوج کے لیے۔‘

سوٹ بوٹ کے شوقین

فیلڈ مارشل کریاپا اچھے پہناوے کے شوقین تھے۔ شام کے کھانے پر وہ ہمیشہ کالے رنگ کے سوٹ یا بند گلے میں نظر آتے تھے۔

ڈِنر کے وقت ہمیشہ کپڑے بدلتے تھے بھلے ہی وہ اپنے ہی گھر میں اکیلے ڈنر کیوں نہ کر رہے ہوں۔

ان کی بیٹی نلینی کہتی ہیں کہ ’ایک بار انھوں نے ایک امریکی سفارتکار کو عشائیے کے لیے مدعو کیا۔ اس مہمان کو کریاپا کے ڈریس کوڈ کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ وہ سادہ سی قمیض پہن کر گھر پہنچ گئے۔ میرے والد نے سرد موسم کا بہانہ بنا کر انھیں اپنا کوٹ پہننے پر مجبور کر دیا۔ تب جا کر وہ کھانے کی میز پر بیٹھے۔‘

’ایک بار میرے منگیتر ایک فیملی لنچ پر بنا ٹائی کے صرف کوٹ پہن کر پہنچ گئے۔ میرے پاپا نے مجھ سے کہا کہ انھیں بتا دو کہ ان کے داماد اور فوج کے ایک اہلکار کے طور پر انھیں ڈھنگ کے کپڑے پہن کر کھانے کی میز پر آنا چاہیے۔‘

’یہاں تک کہ جب بھی وہ کار سے کسی شہر میں داخل ہوتے تو پہلے گاڑی روک کر اپنے تھوڑے سے بالوں پر کنگھی کرتے اور ہاتھوں سے کار پر جمی دھول صاف کرتے۔‘

کریاپا کے اصول

جنرل کریاپا اپنے اصولوں کے لیے مشہور تھے۔ مثلاً انہیں یہ بات برداشت نہیں ہوتی تھی کہ کوئی اپنی وردی کی قمیض کی آستینوں کو موڑے۔

نندو کریاپا کہتے ہیں کہ’مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے انھیں کبھی آدھی آستین کی قمیض میں دیکھا ہو۔‘

’کھیل کھیلتے وقت بھی ان کی گردن میں ہمیشہ ایک سکارف بندھا رہتا تھا۔ ڈنر پر سوٹ پہننا لازمی تھا اور اگر کسی نے اپنے کوٹ کے بٹن کھول رکھے ہوں تب بھی بُرا مان جاتے تھے۔ پتا نہیں کیوں انھیں ہارمونیم سے بھی چِڑھ تھی۔‘

’فوج کی تمام تقاریب میں ہارمونیم بجانے پر پابندی تھی۔ ٹرانزسٹر سے بہت لگاؤ تھا۔ اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ ٹی وی دیکھنے میں انھیں کبھی کوئی دلچسہی نہیں رہی۔‘

87 سال کی عمر میں فیلڈ مارشل بنے

15 جنوری 1986 کو وہ آرمی ڈے کی پریڈ کے لیے دلی میں تھے۔ پریڈ کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل کے سندرجی نے اعلان کیا کہ حکومت نے جنرل کریاپا کی خدمات کی عوض انھیں فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کے بیٹے ایئرمارشل نندو کریاپا کہتے ہیں کہ ’جس دن یہ سب ہونا تھا اس دن ان کے دائیں پیر کی چھوٹی انگلی میں بہت درد تھا۔ ان دنوں وہ گھر میں بائیں پیر میں جوتا اور دائیں پیر میں چپل پہنا کرتے تھے۔‘

’ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ صدارتی محل میں تقریب کے لیے وہ جوتے نہ پہنیں لیکن وہ ہماری کہاں سننے والے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے نوکدار جوتے پہننے۔ اور تو اور اپنی واکنگ سٹک کا بھی استعمال نہیں کیا۔‘

جب صدر کے اے ڈی سی نے انھیں سہارا دینا چاہا تو انھوں نے یہ قبول نہیں کیا۔

پوری تقریب 10 منٹ چلی اور اس دوران کریاپا کھڑے رہے حالانکہ ان کے پیر میں بہت زیادہ درد ہو رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp