شاعری اور بھولے بادشاہ


یونیورسٹی کے زمانے کی بات ہے۔ اسائنمنٹ دو چار یار مل کر بنایا کرتے تھے۔ بلکہ بنانی کیا، کاپی ہی کرنی ہوتی تھی۔ سو بیک گراؤنڈ میوزک کا بندوبست لازمی قرار پاتا۔ یہ مشرف بہ ’لیپ ٹاپ‘ ہونے سے قبل کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست نے ’ڈنگ ٹپاؤ‘ قسم کا کمپیوٹر رکھ رکھا تھا۔ ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی لیٹ نائٹ قلم کاغذ سے مسلح ان کے ہاں پہنچ گئے۔ کمر ے میں تناؤ کے ماحول کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہم قالین پہ کودپڑے۔ کمپیوٹر پہ نصرت فتح علی خان کی قوالی ’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے‘ pauseکی حالت میں نظر آئی۔ اہل کمرہ نے کنکھیوں سے منع کیا لیکن ہم تو پھر ہم ہیں۔ فوراً ہی Spaceپہ مکامارا اور نصرت صاحب تانیں بکھیرنے لگے۔

نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے
سجدہ کرلیتا ہوں جب سامنے تو آتا ہے

شعر سن کر ہم پھڑک اٹھے، پر کمرے میں موجود ایک شریک اسائنمنٹ بھڑک اٹھے۔ معلوم ہوا کہ پہلے سے ہی کھپ ڈالے بیٹھے ہیں کہ قوال ’کفر‘ بک رہا ہے۔ دائیں بائیں دیکھا تو حاضرین کافر قرار دیے جانے کے خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ہم چونکہ نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ اس لیے پرانی لڑائی سے واقف نہ تھے لہٰذا ’مجاہد بھائی‘ کا کمپیوٹر پر حملہ ناکام بنا دیا اور نصرت صاحب خوشی خوشی گاتے رہے۔ اس پر وہ حضرت آپے سے باہر ہو گئے اور قوال سے بھی اونچے سروں میں سب کے شجرے میں ملاوٹ کرنے لگے۔

انہیں چپ کرانے کو ہمیں ترپ کا پتہ پھینکنا پڑا۔ کہا کہ ’شعر میں تو کوئی کفریہ بات نہیں ہو رہی‘ ۔ اور اس سے پہلے کہ وہ ہمارے پرکھوں سے بھی حساب برابر کرتے۔ سمجھایا کہ شاعر کا کہنا فقط یہ ہے کہ گو اسے وضو نماز کاعلم نہیں لیکن محبوب کے سامنے آتے ہی سجدے میں گر کر خدا سے اسے مانگنے لگتا ہے۔ یہ سن کر ان کا ’حال‘ ختم ہوا۔ متوقع ’کفار‘ کی جان میں جان آئی اورتمام لوازمات سمیت اسائنمنٹ چھپائی کا آغاز ہو پایا۔ پھر وہ ہر بار یہی غزل سنتے اور یہ شعر آنے پہ کہتے۔ ’‘ تمہارے والا شعر آ رہا ہے ”۔ کبھی کبھی ہم بھی یہی کہہ کر انہیں چھیڑ ا کرتے۔

چند روز قبل بھی یہی ہوا۔ دراصل اس دفعہ اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مار بیٹھے۔ دانش نقوی کا ایک شعر بھایا تو چند اہل ذوق کو بھی بھیج دیا۔

وہ دور ہو گیا تو نمازیں نہیں پڑھیں
یعنی خدا کے سامنے دھرنا دیا گیا

ایک صاحب نے جھٹ کفر کا فتویٰ جاری کر دیا اور یہ بھی فرمایا کہ دوسروں کا ایمان خراب مت کرو۔ ہم آف موڈ میں بیٹھے تھے۔ کہہ نہ سکے کہ بھئی! یہ سب شاعر سے کہو۔ نہ ہی یہ کہہ سکے کہ یہ ذرا باریک نکتہ ہے۔ کوئی عاشق محبوب سے بچھڑنے کے بعد حواس کھو بیٹھا ہے اور جنوں کی حالت میں نماز ساقط ہو جاتی ہے۔ اور اگر شاعر مسلمان کی بجائے عیسائی یا ہندو ہوتا تو نماز کی جگہ سروس یا پوجا کا ذکر کرتا۔ ہم جو صرف قاصد تھے، انہیں یہ سننا پڑا تو خدا معلوم شاعر کا کیا حال ہوا ہو گا۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ شاید معاشرے کی عمومی برداشت رو بہ زوال ہے۔ پر تاریخ دیکھیں تو ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ منٹو عصمت فحش نگار قرار پائے۔ صادقین کی The Kissنامی نمائش جلا ڈالی گئی اور وہ باقی عمر خطاطی کرکے ثواب سمیٹتے رہے۔ جب نازؔ خیالوی نے ’تم اک گورکھ دھندہ ہو‘ لکھی ہو گی تو ضرور انہیں بھی یہی سننا پڑا ہوگا۔ یقیناً ایسا ہی ہوا ہو گا۔ کیونکہ اقبالؔ کو شاعر مشرق، شمال، جنوب کہنے والوں نے بھی ’شکوہ‘ پہ تلواریں تان لی تھیں۔ ہاں اب ذرا ہم تیز رفتار ہو گئے ہیں۔ اب مقدمہ چلنے سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ گنہ گار کو ولی بننے سے پہلے ہی پھانسی چڑھا دیتے ہیں۔ استاد ابن انشاء یاد آتے ہیں۔ ”ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے۔ آج کل داخلہ منع ہے۔ صرف خارج کرتے ہیں“ ۔

شاعری کی بات کریں تو ’آسمان‘ دشمنی کے تلازمے کے طور پر غالبؔ اور دیگر اساتذہ کے ہاں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اور پھر طنزیہ شاعری کی ایک پوری روایت موجود ہے۔ جس کو ہمارے ان دوستوں کے سامنے اگر پیش کیا جائے تو شاید دفعہ 302 کے ارتکاب پر تل جائیں۔ ادب رائے ہے اور رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن آپ اسے صحیح ہونے کا موقع کیوں نہیں دے رہے۔ اگر آپ گنہ گار ہی ختم کردیں گے تو پھر ولی کہاں سے آئیں گے۔

آخر میں طنز کی سوغاتیں۔ انہی سب بھولے بادشاہوں کے لیے۔ ذرا اصل بات بوجھیں تو جانیں۔
تھا ابر کرم پہ طنز مقصود
رو کر صحرا بھگو گئے ہم
(احمد ندیم قاسمی)
ایسا نہیں کہ دست دعا بے اثر گیا
کشتی کا ڈوبنا تھا کہ دریا اتر گیا
(اسلم کولسری)
جی خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر
میری طر ح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
(سید عبدالحمید عدم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments