ہماری رائے کون بناتا ہے


نائن الیون کا واقعہ ہوچکا تھا جارج بش جنگ کی تیاری میں مگن تھا۔ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالگی کے لئے امریکا طالبان پر دباؤ ڈال رہا تھا۔ طالبان اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکاری تھے۔ وہ ثبوت مانگ رہے تھے۔ لیکن امریکہ ساری دنیا کو میڈیا کے ذریعے باور کروا چکا تھا کہ نائن الیون اسامہ بن لادن کا ہی کارنامہ ہے۔

پاکستان کا وفد ایک جنرل کی سربراہی میں جس میں علما بھی شامل تھے قندھار سے ناکام مذاکرات کے بعد واپس لوٹے۔ جنگ یقینی ہوچکی تھی جنگی ماہرین کو اس جنگ کی تباہی کا ادراک تھا جبکہ دوسری جانب ایک ایسی قوم بھی تھی جو سمجھ رہی تھی کہ اسامہ بن لادن ایک طاقتور شخص ہے جو امریکہ کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گا۔

مذکورہ جنگ کے دوران دو طرح کی رائے قائم ہو رہی تھی۔ ایک را ئے تھی جو کہ منظم ایجنڈے کے تحت میڈیا کے ذریعے لوگوں کی ذہنوں تک پہنچ رہی تھی۔ دوسری رائے مذہبی رہنماؤں، ملاؤں اور محلوں کے تجزیہ نگاروں کی تھی۔ دونوں سے لوگ متاثر ہو رہے تھے۔ افغانستان اور پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کے اوپینین لیڈر مذہبی رہنما، ملا اور محلوں کے تجزیہ نگار تھے جبکہ مغربی دنیا میں لوگوں کے اوپینین لیڈر امریکا پروپیگنڈا گروپ تھا اور وہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کی رائے بناتا رہا۔

امریکہ نے 2003 میں نہ صرف عوام کی بلکہ دنیا کے حکمرانوں کی رائے بھی میڈیا کے ذریعے ہی بنائی اور یہ باور کروایا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں، اور وہ دنیا کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ چڑھائی کے لئے راہ ہموار کرنے کے بعد اس بہانہ کے تحت امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر چڑھائی کردی۔

مذہبی رہنما، ملا اور گلی کے تجزیہ نگار لوگوں کی رائے افغان امریکہ جنگ کے بارے میں جذبات پر قائم کیا کرتے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ امریکا کو شکست دینے کے لئے اسامہ بن لادن کافی ہیں۔ وہ بہت امیر ہے جنگ کے سارے اخراجات وہی برداشت کر سکتا ہے۔ امریکہ آ تو جائے گا لیکن اس کا خطے سے نکلنا مشکل ہے۔ گلی کے چوراہوں پر بیٹھے تجزیہ نگار تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ اسامہ بن لادن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں جس سے وہ امریکا کو تباہ کردے گا۔

میں چونکہ اس وقت چھوٹا تھا لیکن سیاست سے شغف تھا۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ سننے کے لئے عصر کے نماز کے بعد گلی کی نکڑ پر جمنے والی بزرگوں کی محفل کے ایک کونے میں بیٹھ جایا کرتا تھا۔ میرے بھی ہم عصر بچوں کا ایک حلقہ تھا جن کا میں اوپینین لیڈر تھا۔ میرے اوپینین لیڈر وہی بزرگ تھے جن کے مطابق امریکہ عنقریب صفحہ ہستی سے مٹنے والا ہے۔ ہماری رائے بالکل اس بابت پختہ تھی۔

کہی سال گزرنے کے بعد بھی اس خطے کا حال وہی ہے۔ کرونا وائرس نے دنیا کو لپٹ میں لے رکھا ہے اس بابت دو متضاد رائے ہونے کی وجہ سے اس مرض سے نمٹنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔

ڈاکٹرز کے رائے کے مطابق سماجی دوری اور احتیاطی تدابیر اس کا واحد علاج ہے۔ اس رائے کو قائم کرنے کے لئے اور اس طرف لوگوں کی ذہنوں کو مائل کرنے کے لئے میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ مغربی دنیا نے اس بات کو مان لیا۔ لیکن جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں، وہ اس نقطہ نظر کو سازش گردانتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں، ملاؤں اور گلی محلوں کے تجزیہ نگاروں کی رائے جو ایک نقطہ ہے یعنی ”سازش“ کو وہ سچ سمجھتے ہیں۔

اس رائے کا اظہار وہ اپنے حلقہ احباب میں کرتے ہیں۔ جس کی ایک اہم مثال یوم علی (رض) کے موقعے پر جلوسوں سے لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اکثر مساجد میں دوران نماز احتیاطی تدابیر نہ اپنانا بھی ہے۔ اکثر ایسی تدابیر کو خلاف عقیدہ اور عقیدے کی کمزوری کا سبب سمجھتے ہیں۔

یاد رہے ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں کی اکثریت کچھ مخصوص لوگوں کی رائے کو سارے معاشرے کی رائے سمجھتے ہیں۔ خود کی رائے بہت ہی کم لوگ قائم کرتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کی رائے کا پرچار بعض ایسے لوگ کرتے ہیں جو خود بہت کم سوچتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments