کورونا وائرس اس وقت کیا سوچ رہا ہے؟


یار مجھے تو ڈر لگ رہا ہے یہ کیسی قوم ہے جسے ہم ڈرا ہی نہیں سکے، بھائی یہ کون سا ملک ہے۔ تمھیں نہیں پتہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں ہمارا مقابلہ بڑے سخت جان لوگوں سے ہے انھیں تو موت کا خوف بھی نہیں، پچھلے چھ مہینوں سے ہم نے دنیا بھر میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے، ساری دنیا میں لوگ ہمارے خوف سے گھروں میں بند تھے اور ہماری کارکردگی سے شہروں پر موت کے سائے منڈلا رہے تھے ان لوگوں نے تمام اصولوں پر عمل کرکے ہمارے قدم اکھاڑ دیے، رہنے سہنے کے نئے رنگ ڈھنگ اپنا لیے، ہاتھ دھونا، لوگوں سے فاصلہ رکھنا، دور دور سے ہیلو، ہائے اور بائے کہہ رہے ہیں لیکن سلام ہے اس پاکستانی قوم کو جتنا میں کاری وار کر رہا ہوں اتنی ہی یہ نڈر ہو رہی ہے۔

تقریباً دو مہینے لاک ڈاؤن رہا اسکول، کالج، آفس، شاپنگ مال وغیرہ بند تھے صرف ضروری اشیا کی دکانیں کھلی تھیں اس میں بھی یہ قوم باہر نکلنے سے باز نہیں آئی اور پچھلے دنوں تو حد ہوگئی جیسے ہی بازار مارکیٹس کھولے گئے جن کے اوقات بھی صبح آٹھ سے شام پانچ تھے لوگ بے قابو ہجوم کی صورت شاپنگ کے لیے ٹوٹ پڑے، دکاندار سمجھاتے رہے کہ بھائی فاصلہ رکھو، ماسک پہنو نہیں جناب دیدہ دلیری سے شاپنگ ہوتی رہی، اس قوم کی خواتین کی بہادری تو دیکھو معصوم بچوں کو بھی بازار لے آئیں، جان پر کھیل کر شاپنگ کرنی جو ٹھہری، بے چارے کووڈ 19 پر تو ”وخت“ پڑ گیا کیا کرے کیا نہ کرے کیسے اپنی سنگینی ثابت کرے۔

اصل مسئلہ یہ نہیں ہے بھائی کورونا مسئلہ یہ ہے کہ اس قوم کو اب تک یقین ہی نہیں ہے کہ یہ کورونا کوئی جان لیوا وائرس ہے بس انھیں اس کا نام لے کر ڈرایا جا رہا ہے یا پھر میڈیا والوں نے میری کانٹوں نما شکل بنا بنا کر دہشت پھیلا دی ہے ورنہ وہ تو قطعی نہیں ڈرنے والے بہت ہی نڈر قوم ہے، شاید یہ بڑی بڑی تکالیف سہہ سہہ کر پکی ہوگئی ہے صاف کہتے ہیں کورونا وائرس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، بزور بازو اور قانون انھیں ایس او پیز کی پاسداری کروائی جارہی ہے۔

عجیب لوگ ہیں ہر وقت گاتے پھرتے ہیں کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے، جو کسی کی نہیں سنتا وہ اپنا نقصان خود کرتا ہے ہمیں کیا ہم تو اپنا کام کریں گے جس کے لیے ہمیں بھیجا گیا ہے، ان کا وزیر منصوبہ بندی کہتا ہے کورونا سے اموات ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں آخر لوگ ایکسیڈنٹ سے بھی تو مرتے ہیں تو کیا گاڑیاں چلانی بند کردیتے ہیں اس لیے لاک ڈاؤن میں نرمی ہو تاکہ معیشت کا پہیہ چل سکے، چاہے زندگی کا پہیہ رک جائے ویسے بھی بیروزگاری بڑھنے والی ہے، غریب مرتا ہے تو مر جائے، یار کورونا ہم کیوں پریشان ہیں مرنے دو ان کو۔

ایک بات ماننی پڑے گی بڑی فارغ قوم ہے ساری دنیا کورونا وائرس کی سنگینی سے پریشان ہے اس کے علاج ڈھونڈ رہی ہے، محفوظ رہنے کے طریقے ایجاد کر رہی ہے اور یہ پاکستانی راجہ داہر اور محمد بن قاسم کی تاریخ دہرا رہے ہیں، ارطغرل کی بہادری کی داستانوں میں گم ہیں ادھر ان کے حکمراں اب تک یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ لاک ڈاؤن ہونا چاہیے یا اسمارٹ لاک ڈاؤن، ان کی اسمبلی میں اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے پر بحث ہو رہی ہے، صحت کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان باتوں میں لگے ہیں۔

ایک احسان کیا ہے کورونا سے لڑنے کے لیے ٹائیگر فورس تو بنا دی ہے جو ٹائیگر کی طرح اپنے شکار پر جھپٹنے کو تیار ہے لیکن یار ہم انھیں نظر آئیں گے تو یہ ہمیں ختم کریں گے ہم کووڈ 19 ہیں اور اپنا نشانہ ٹھیک لگاتے ہیں۔ ہمارے لیے تو اچھا ہی ہے بھائی چلو چلو مارکیٹوں میں حملے کے لیے تیار رہو اب تو پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھلنے والی ہے بناؤ نشانہ غریب کو مرنا تو ہے کیوں نا ہم اپنا وار کر دیں ہمیں تو یہی کام کرنا ہے آخر کو ایک دن تو ہمارے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے اس وقت تک دیر ہوچکی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments