بھارت کے اشتعال انگیز بیان کو مسترد کرنا مسئلہ کا حل نہیں


پاکستان نے بھارتی آرمی چیف کی طرف سے پاکستان کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں ایک نئے دہشت گروپ کے قیام اور اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف ایم ایم نروانے کا حالیہ بیان بھارتی حکمرانوں کے اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں کا تسلسل ہے۔ پاکستان کے پاس فی الوقت ان دھمکیوں کو مسترد کرنے اور اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے سخت الفاظ میں بیان جاری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ وزارت خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے ایک بیان میں یہ فرض احسن طریقے سے پورا کیا ہے۔

بھارت نے پاکستان کے ساتھ مواصلت اور بات چیت کا ہر دروازہ بند کیا ہؤا ہے۔ اس کی بجائے وہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور الزامات کے ذریعے اسلام آباد کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت کے پاس بھی فی الوقت اس سے زیادہ کچھ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ چند برس کے دوران عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف سفارتی محاذ گرم کرنے اور مقبوضہ کشمیر کو وہاں آباد لوگوں کے حق خود اختیاری کی بجائے دہشت گردی سے منسلک کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے۔ تاہم بھارت اس مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکا۔ پاکستان کو اگرچہ سفارتی لحاظ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال کر اور پھر آئی ایم ایف کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ لیکن ان اقدامات کا تعلق بھارتی دباؤ سے زیادہ واشنگٹن میں ٹرمپ حکومت کی افغان مسئلہ کے حل کے لئے بے چینی سے تھا۔ پاکستان بھی کئی برس سے ان انتہا پسند گروہوں اور شخصیات کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرتا رہا تھا جن پر بھارت کی طرف سے انگلی اٹھائی جاتی تھی اور الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ بھارت میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

بعض دہشت گرد عناصر کے خلاف براہ راست کارروائی نہ کرنے کی پاکستان کی اپنی وجوہات تھیں۔ ان میں سے متعدد افراد کو پاکستان میں ’ریاستی اثاثہ‘ کی حیثیت حاصل رہی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کا مقصد بھارتی شرائط کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا۔ بھارت کے ساتھ ضد کے رشتہ کی وجہ سے پاکستان یہ ہزیمت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اگرچہ ان برسوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کئے اور پاکستان کے طول وعرض سے ان کے ٹھکانوں کو ختم کردیا گیا۔ تاہم افغانستان کے سوال پر امریکہ کے ساتھ مفاہمت کے لئے بالآخر پاکستان کو بعض ایسے اقدامات بھی کرنے پڑے جنہیں بھارت نے بظاہر اپنی کامیابی قرار دیا۔ اس کے نتیجہ میں حالات کو بہتر کرنے اور پاکستان کے ساتھ معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے بھارت نے مسلسل الزام تراشی، جارحیت اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب برصغیر سمیت پوری دنیا کورونا وائرس سے نمٹنے کی پریشانی میں مبتلا ہے بھارت لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی اور الزام تراشی کے ذریعے عالمی رائے کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہا ہے کہ پاکستان ہی مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی اور عوام کی بے چینی کا ذمہ دار ہے۔

80 کی دہائی میں پاکستان نے ضرور مقبوضہ کشمیر میں مسلح جد و جہد کی عملی امداد کے لئے بعض غیر سرکاری عسکری گروہوں کی حوصلہ افزائی کی لیکن اس کوشش کو بھارت کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے عوام میں بھی خاص پذیرائی نصیب نہیں ہوسکی۔ کشمیری لیڈروں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی تھی کہ اس طرح بھارت کے خلاف ان کا خود مختاری اور رائے شماری کا مقدمہ کمزور ہؤا ہے۔ اس صدی کے آغاز کے بعد سے پاکستانی زیر انتظام علاقوں سے مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کی گئی لیکن بھارت کا ہدف چونکہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر بھارت کا حصہ بنانا تھا اس لئے نئی دہلی نے الزامات کا سلسلہ جاری رکھااور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھارت میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کا ذمہ دار بالواسطہ طور سے پاکستان کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔

اس عرصے میں افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے پاکستان میں شروع ہونے والی دہشت گردی نے عروج پکڑا اور پاکستانی حکومتوں اور افواج نے یک سوئی سے عسکری گروہوں کے قلع قمع کے لئے اقدامات کئے۔ پاکستان کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست ہے کہ ملک میں دہشت گرد حملوں کا خاتمہ کیا گیا اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرکے حملے کرنے کی صلاحیت کو بھی کم کردیا گیا۔ بھارت نے پاکستان کی ان خدمات کا کبھی اعتراف نہیں کیا حالانکہ دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کے خلاف پاکستان کی کارروائی کا بھارت کو بھی بالواسطہ فائدہ پہنچا ہے۔ یہ عناصر سرحدوں کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے مقصد کے لئے جہاں موقع ملے وہاں پاؤں جمانے اور اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شام میں داعش کے خاتمہ کے بعد سے ایسے عناصر کو محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش تھی۔ پاکستانی فوج کی سرتوڑ کوششوں کی وجہ سے انہیں پاکستان ہی نہیں پورے برصغیر میں ٹھکانے بنانے کا موقع نہیں مل سکا۔ البتہ یہ عناصر افغانستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے حالانکہ وہاں امریکی سرکردگی میں عالمی ٹاسک فورس طالبان سمیت ہمہ قسم عسکری گروہوں کے خلاف سرگرم تھی۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد سے داعش نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں تیز کی ہیں تاکہ کسی طرح افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بد اعتمادی بڑھا کر پائیدار امن معاہدہ کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔

خطے کی اس صورت حال سے بھارت نے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نریندر مودی کی حکومت اور بھارتی جنتا پارٹی نے یوں تو 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی ہندوتوا نظریہ کو فروغ دینے اور ملکی اقلیتوں کے خلاف عام طور سے لیکن مسلمانوں کے خلاف خاص طور سے نفرت پیدا کرنے کے اقدامات کئے۔ البتہ گزشتہ برس انتخاب جیتنے کے بعد پہلے 5 اگست کے قانونی اور عملی اقدامات کے ذریعے کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا گیا اور کسی رد عمل سے بچنے کے لئے بدترین پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس کے بعد ترمیمی شہریت قانون کے ذریعے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے اور ان کے حقوق سلب کرنے کا اقدام کیا گیا۔ حال ہی میں کشمیر کے سکونتی قواعد و ضوابط میں تبدیلی کرتے ہوئے کشمیریوں کو اپنے ہی آبائی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا عملی اہتمام کیا گیا ہے۔ عالمی قوانین اور مسلمہ بنیادی اصولوں سے متصادم ان تمام اقدامات کے باوجود بڑی طاقتوں نے بھارت کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کی بنیادی وجہ بڑی آبادی اور معیشت ہونے کی وجہ سے تمام معاشی طاقتوں کے بھارت کے ساتھ وابستہ اقتصادی مفادات ہیں۔

البتہ بھارت کے ظالمانہ اقدامات کے نتیجہ میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو فروغ ملا اور کشمیر ہی نہیں پورے ملک میں اقلیتوں پر حملوں اور ان کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ خاص طور سے کورونا وائرس پھیلنے کے بعد بھارت نے سرکاری سطح پر مسلمانوں کو یہ وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے کر نفرت اور تعصب کی خوفناک صورت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان حالات میں اہم عالمی میڈیا نے ایسے واقعات کو رپورٹ کیا ہے اور عالمی رائے بھارتی استبداد کی حقیقت جاننے لگی ہے۔ اس صورت حال میں بھارت کے پاس پاکستان پر الزام تراشی کرنے اور لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کے ذریعے خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ پاکستان کے خلاف بھارتی آرمی چیف کے بیانات انہیں کوششوں کا تسلسل ہیں۔ بھارت کا خیال ہے کہ اس طرح پاکستان کو دباؤ میں لا کر وہ عالمی سطح پر اپنا ’گڈ بوائے‘ کا امیج بہتر بنا سکے گا۔

دنیا کے اکثر ممالک اس وقت کورونا وبا سے نمٹنے میں مصروف ہیں ۔ علاقائی تنازعات یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عام طور سے خبروں یا سفارتی حلقوں میں توجہ نہیں مل پارہی۔ بھارت کا خیال ہے کہ ایسے موقع پر وہ پاکستان کے خلاف اپنا مقدمہ مضبوط کرسکے گا۔ تاہم بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے فروغ اور کشمیر کے بعد بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت کی مہم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا ماحول ، خود بھارتی عزائم کے راستے کی دیوار بنا ہؤا ہے۔ کشمیر کے سوال پر بھارت اپنے وعدوں سے انحراف کررہا ہے ۔ وہ اب کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ایک تنازعہ سمجھنے کی بجائے آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو اپنے حصہ قرار دیتا ہے۔ بھارتی ٹی وی سے حال ہی میں آزاد کشمیر و گلگت و بلتستان کے موسمی حالات نشر کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس طرح ان علاقوں کو باقاعدہ منصوبہ کے تحت بھارت کا حصہ قرار دینے کا آغاز کیا گیا ہے۔ پاکستان نے اس کا جواب مقبوضہ کشمیر کے موسمی حالات بتا کر دینا شروع کیا ہے لیکن رد عمل کی سیاست بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کے لئے کافی نہیں ہوگی۔

وزارت خارجہ کا بیان پرزور ہونے کے باوجود روٹین کی کارروائی ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی ایسے بیان بھارتی قیادت کو اس کے جارحانہ عزائم سے روک سکیں گے۔ بھارت کو جوابی دھمکیاں دینے سے ’ڈیمیج کنٹرول‘ کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں کشمیر کے سوال پر اتفاق رائے تو موجود ہے لیکن ملک میں ایسی قیادت موجود نہیں ہے جو قومی اتفاق رائے پیدا کرکے پاکستان کو بھارتی مقاصد کی راہ میں ایک ٹھوس قوت کے طور پر سامنے لاسکے۔ پاکستان خارجہ حکمت عملی کے علاوہ داخلی سیاست کی کمزوریوں کو دور کئے بغیر بھارت کے اٹھائے ہوئے طوفان کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments