کعبے پر پڑی جب پہلی نظر۔ سفرنامہ حج سے اقتباس۔ قسط نمبر۔ 2۔


حج اجتماعیت۔ قربانی اور صبر و استقامت کا سبق دیتا ہے۔ ایک اللہ۔ ایک نبی اور ایک مذہب کو ماننے والے مختلف ممالک۔ مختلف رنگ اور نسل کے افراد کا ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا اجتماعیت کا ہی درس ہے جو اسلام دیتا ہے۔ ۔ عرفات میں وقوف حج کا ایک اہم فرض ہے جس کے ادا کیے بغیر حج نہیں ہوتا۔ نویں ذوالحج کو فجر کی نماز کے بعد حجاج اکرام منی سے عرفات کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ منی سے عرفات کا فاصلہ تقریباً پانچ کلو میٹر ہے۔

صبح سویرے مکتب کی بسیں خیموں کے باہر سڑک پر آ جاتی ہیں جو سب حاجیوں کو لے کر عرفات میں اپنے مکتب میں پہنچاتی ہیں۔ آج آخر وہ دن آ ہی گیا تھا، جس کے لئے ہم سب یہاں جمع ہوئے تھے۔ منی میں قیام کے دوران ایک بڑا مشکل کام حوائج ضروریہ کے لیے ٹائلٹ کا استعمال ہوتا ہے۔ افراد کی نسبت سے ٹائلٹس کی تعداد کم ہوتی ہے۔ افراتفری کا یہ عالم کہ جو ایک دفعہ اندر چلا گیا وہ اپنی ساری ضروریات آرام سے پوری کر کے نکلتا ہے۔

باہر انتظار میں کھڑے لوگوں کی جان پر بنی ہوتی ہے۔ میں نے شروع ہی سے سے ایک عادت بنا لی اور اس کے تحت میں نماز سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی ان کاموں سے فارغ ہو جاتا تھا۔ نویں ذوالحج کو منی میں حسب معمول تہجد سے کچھ پہلے میری آنکھ کھل گئی۔ فوراً ٹائلٹ کا رخ کیا۔ ابھی رش شروع نہیں ہوا تھا اس لئے جلد باری آ گئی۔ غسل کے بعد خیمے میں واپس آیا تو باقی لوگ جاگنا شروع ہوگئے تھے۔ جو سرور تہجد پڑھنے میں ہے اس سرور کو صرف تہجد پڑھنے والے ہی جان سکتے ہیں۔

بغیر کسی اذان کے خود اپنے اندر کی لگن سے اٹھنا اور اللہ کے حضور میں جھکنا، یہ بندے اور اللہ کا تعلق ہے۔ تہجد پڑھنے کے بعد فجر کی نماز باجماعت ادا کی۔ اس کے بعد عرفات جانے کی تیاری شروع کر دی۔ جب ساری تیاری مکمل ہو گئی تو اچانک خیال آیا کہ میدان عرفات میں جاکر اللہ تعالی کے حضور میں پیش ہونا ہے تو کیا تحفہ لے کر جانا ہے۔ اس خیال کے آنے سے ہی دل لرز کر رہ گیا اپنی ساری کوتاہیاں۔ غلطیاں اپنے سارے گناہ ایک دم نگاہوں میں آ گئے۔

جتنی عرفات جانے کی خوشی تھی وہ ایک انجانے خوف میں بدل گئی۔ پھر جب اللہ کی رحمت کے بارے میں سوچ آئی تو ایک گونا اطمینان ہوا کہ اللہ تعالی تو بہت غفورالرحیم بخشنے والا ہے۔ اور ہم تو یہاں اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنے آئے ہیں۔ گڑگڑا کر عاجزی اور انکساری سے سچے دل سے دعا مانگیں گے تو یقیناً وہ ہمیں معاف فرمائیں گے لیکن ایک شرمساری سی پھر بھی تھی۔ ہم سب تیار ہو کر خیموں سے نکل کر سڑک پر آ گئے اور اپنے مکتب کی بسوں کا انتظار کرنے لگے۔

ہر طرف لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی۔ اس صورت حال میں کوئی کسی کی مدد کو تیار نہیں تھا۔ ڈاکٹر عنصر صاحب اپنی والدہ کو وہیل چیئر پر لے کر ایک طرف کھڑے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ ہم ساتھ ساتھ رہیں گے اور اکٹھے چلیں گے۔ ہمارا آٹھ افراد پر مشتمل قافلہ ہو گیا تھا۔ مجید صاحب اور ان کی بیگم بھی ہمارے ساتھ ہی تھے۔ ہم سب ایک طرف کھڑے تھے کہ اتنے میں ایک بس آئی۔ دھکم پیل اور پہلے چڑھنے کی جنگ سے میں ہمیشہ گھبراتا ہوں یہاں بھی یہی ہوا۔

کہ زور آور سوار ہو گئے اور ہم رہ گئے۔ ایک اور بس آئی جس میں ہم نے بھی سوار ہونے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ دو خواتین اور ایک وہیل پیئر کے ساتھ لوگوں کی اتنی بھیڑ اور کھینچا تانی میں بس پر سوار ہونا بہت مشکل ہوا۔ الٹا خاتون خانہ اس کوشش میں گر گئیں اور ان کو ہلکی بھی چوٹ بھی آئی۔ یہی حال ڈاکٹر صاحب کا تھا۔ اس کے بعد ہم ایک طرف کھڑے ہو گئے اور سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ کوئی اور متبادل انتظام بھی نہیں تھا۔

ان حالات میں میں نے سوچا کہ ہمیں بس میں سوار ہونے میں مشکل پیش آئے گی۔ اور بھیڑ چھٹنے تک بہت دیر ہو جائے گی تو کیوں نہ ہم پیدل چلیں۔ میں نے بیٹی سے پوچھا کہ اگر آپ میں ہمت ہے تو ہم پیدل جا سکتے ہیں آہستہ آہستہ چلیں گے اور آپ کی امی کو وہیل چیئر پر لے چلیں گے۔ وہ فوراً راضی ہو گئی۔ پھر ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا وہ بھی تیار ہو گئے۔ ان کی ڈاکٹر خاتون خانہ گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے پیدل چلنے میں دشواری تھی لیکن وہ بھی بس کا تجربہ دیکھ کر پیدل چلنے پر تیار ہو گئیں۔

مجید صاحب بھی رہ گئے تھے کیونکہ ان کی بیگم پہلی بس میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں وہ بھی ہمارے ساتھ تیار ہو گئے۔ ان کی ہمت کی میں داد دیتا ہوں کہ وہ عمر میں ہم سب سے بڑے تھے کچھ کمزور بھی تھے۔ شوگر کے مریض ہونے کے باوجود ہمت میں ہم سب سے آگے تھے۔ ہم نے کچھ کھانے کا سامان اور پانی کی کافی ساری بوتلیں رکھیں۔ اللہ تعالی سے سفر میں آسانی کی دعا مانگی اور ہمارا سات افراد پر مشتمل یہ قافلہ جانب عرفات روانہ ہوا۔ ابھی صبح کے سات بجے تھے اس لئے درجہ حرارت بھی مناسب ہی تھا۔

ہم سب جب منی جانے والی سڑک پر پہنچے تو سامنے لوگوں کا ایک سیلاب نظر آیا جو میدان عرفات کی طرف گامزن تھا۔ پیدل چلنے والوں کے لئے سعودی گورنمنٹ نے بڑا اچھا انتظام کیا ہوا ہے بہت چوڑی سڑک ٹائلوں سے مزین ہے جس کے کناروں کے ساتھ ساتھ پانی والے فوارے نصب کیے ہوئے ہیں۔ جو ہر وقت چلتے رہتے ہیں ان کے چلنے سے پانی کی ہلکی ہلکی پھوار پیدل چلنے والوں پر پڑتی ہے جس سے گرمی کا زور کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ ہر کلومیٹر پر خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ بہت صاف ستھری اور بہترین ٹائلٹس بنی ہیں۔ جن میں ساتھ ساتھ صفائی کا انتظام بھی ہوتا ہے۔

ہم لبیک اللھم لبیک کا ورد کرتے اور دوسری دعائیں پڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ عرفات کی جانب رواں دواں تھے۔ ہزاروں دوسرے لوگ جن کا تعلق مختلف ملکوں سے تھا ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ دو تین جگہ ہم ریسٹ کرنے کے لئے کچھ دیر کے لئے کھڑے ہوئے۔ اڑھائی تین کلو میٹر چلنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ پندرہ پندرہ ریال کے عوض ٹکٹ بیچ رہے ہیں۔ میں نے ان سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ وہ یہاں سے بسوں میں بٹھا کر مسجد نمرہ کے قریب اتار دیتے ہیں۔

ہمیں صبح ہی صبح ہمیں بسوں کا بڑا تلخ تجربہ ہوا تھا اس لئے پہلے تو انکار کیا۔ پھر خواتین کا ساتھ دیکھ کر سوچا چلو ایک اور تجربہ کر کے دیکھتے ہیں۔ سات افراد کے ٹکٹ لیے۔ ٹرمینل پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت سی بسیں آ رہی تھی ہمیں ایک قطار میں کھڑا کیا۔ بس آنے پر ہماری وہیل چیئرز کو گاڑی کے اندر رکھا۔ خواتین کو پہلے اچھے طریقے سے بٹھایا اور گاڑی چلا دی۔ دس منٹ میں ہمیں مسجد نمرہ کے بالکل قریب اتار دیا جہاں سے ہمیں مسجد نمرا بہت نزدیک دکھائی دے رہی تھی۔

یہ بس ہمارے لئے ایک نعمت ثابت ہوئی جس سے ہمارا کافی سارا سفر اچھا کٹ گیا تھا۔ ٹرمینل سے نکل کر ہم پھر پیدل چلنے والی سڑک پر پہنچے اور مسجد نمرا کی طرف چل پڑے۔ کچھ آگے سڑک کی ایک جانب ایک بڑا ٹرالر کھڑا تھا جس میں سے کچھ لوگ کھانے کے پیکٹ تقسیم کر رہے تھے۔ ہمیں بھی تین چار پیکٹ مل گئے۔ مزید سو میٹر چل کر جو سڑک پر نظر پڑی تو ہر طرف خالی پیکٹوں کے ڈھیر سڑک پر پڑے تھے۔ سب نے کھا کر خالی پیکٹ سڑک پر پھینک دیے تھے جو دوسروں کے لئے تکلیف کا سبب اور پیدل چلنے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔

ہم ساڑھے نو بجے مسجد نمرا پہنچ گئے۔ پہلے ہم نے کوشش کی کہ مسجد نمرا کے اندر چلا جائے۔ ہمارے پاس چونکہ وہیل چیئرز تھیں اس لیے مسجد کے اندر رش میں جانا مشکل لگا۔ ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا اور مسجد کی پچھلی دیوار کے ساتھ ایک جگہ درختوں کے نیچے خالی جگہ دیکھ کر ہم نے اپنی چادریں بچھا دیں اور سب بیٹھ گئے۔ ہماری خواتین کو دیکھ کر ایک سعودی فیملی بھی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے اردگرد مزید حجاج اکرام بیٹھنا شروع ہو گئے تو جگہ تنگ ہونے لگی۔ جگہ ہو یا نہ ہو لوگ خواہ مخواہ بیچ گھس کر تنگ ضرور کرتے ہیں۔

ایک دن کے لئے میدا ن عرفات میں ایک شہر بستا ہے۔ لاکھوں لوگ اس میں جمع ہوتے ہیں۔ ہزاروں ٹینٹ لگائے جاتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں غسل خانے اور ٹائلٹس بنائی جاتی ہیں جو صرف ایک دن استعمال ہوتی ہیں۔ عرفات میں ہر مکتب اپنا کیمپ لگاتا ہے ٹینٹ لگوا کر سایہ مہیا کرتے ہیں۔ منی سے بسوں کے ذریعے مکتب کے تمام حجاج کرام کو ان کے کیمپوں تک پہنچانا معلم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ منی کے قیام کے دوران کھانا فراہم کرنا بھی معلم کی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ اس کے لئے اس نے ان اخراجات کی رقم وصول کی ہوتی ہے۔

بسیں ہمیشہ حجاج کو عرفات میں اپنے مکتب کے کیمپ تک پہنچاتی ہیں جو بعض دفعہ مسجد نمرہ سے کافی دور ہوتا ہے۔ کئی دفعہ بس دیر سے ملنے سے مکتب تک پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے جس وجہ سے آپ حج کا خطبہ نہیں سن سکتے اور نماز بھی باجماعت امام مسجد نمرہ کی مقتدی میں نہیں پڑھ سکتے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہم پیدل چل کر آئے اور ہمیں مسجد نمرہ کے بالکل ساتھ جگہ مل گئی۔ میدان عرفات میں بہت سارے سایہ دار درخت لگے ہوئے ہیں جو اب کافی بڑے ہو چکے ہیں۔

سنتے ہیں کہ یہ درخت ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں پاکستانی فوج کے ذریعے لگوائے تھے۔ سب لوگ رو رو کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ کچھ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے۔ ایسے میں کسی کو کسی دوسرے کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ یہاں آ کر ہر انسان کو اپنا کیا ہوا ہر اچھا برا کام خود بخود یاد آ جاتا ہے۔ اپنے اندر ایک خوف محسوس ہوتا ہے۔ بار بار لوگ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بھیگی آنکھوں اور شرمسار چہرے سے دعائیں مانگ رہے تھے۔

اپنے رب سے اپنی کوتاہیوں کی معافیاں مانگ رہے تھے ہم بھی ان میں شامل تھے۔ اتنے میں امام صاحب نے مسجد میں حج کا خطبہ شروع کیا۔ سعودی حکومت ہر سال حجاج اکرام کی آسانی کے لئے جدید آلات کو حج میں استعمال میں لاتی ہے۔ بیٹی نے اپنے سمارٹ فون پر حج کا خطبہ سننے کے لئے ایک ایپلیکیشن کاپی کر لی تھی۔ اس سے آپ خطبہ حج کا ترجمہ چھ زبانوں میں سن سکتے ہیں جس میں اردو بھی شامل ہے۔ ہم سب بڑی خاموشی اور غور سے خطبہ کا اردو ترجمہ سن رہے تھے۔

مساوات اور انسانیت کا درس سب کے لئے۔ خطبہ سنتے ہوئے بار بار میری آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ خطبہ کے بعد ہم نے امام صاحب کی مقتدی میں ظہر اور عصر کی نمازیں باجماعت ادا کیں۔ اس وقت جگہ جگہ مقامی سعودی کھانا تقسیم کر رہے تھے۔ کہیں پر پھل اور پانی کی بوتلیں لوگوں میں تقسیم ہو رہی تھیں۔ ہمیں بھی کچھ لوگ کھانا دے گئے۔ کھانا کھانے کے بعد سفر کی تھکاوٹ کی وجہ کچھ دیر کے لئے اونگھ سی آ گئی۔ بیٹھے بیٹھے کچھ دیر آنکھ لگی پھر اٹھ کر بیٹھ گئے۔

خوش قسمتی سے ٹائلٹس ہماری بیٹھنے والی جگہ کے ساتھ ہی تھیں۔ جا کر وضو کیا اور پھر آس پاس کا جائزہ لیا۔ عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ سب نے ڈاکٹر عنصر صاحب سے درخواست کی کہ سب کے لئے اجتماعی دعا مانگیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کھڑے ہو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بڑے خضوع اور خشوع کے ساتھ دعا مانگنی شروع کی۔ سب ہی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہم نے بھی ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیے۔ پہلے آنکھیں بھیگیں پھر زور زور سے رونا آیا۔ اپنی اس کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

اجتماعی دعا کے بعد سب اپنی جگہ پر بیٹھ لئے۔ سب اپنے اپنے ذکر میں مشغول ہو گئے۔ رٹی رٹائی قرآنی آیات ہم پڑھتے ہیں جن کا ترجمہ بہت سوں کو نہیں آتا۔ دعاؤں کا کتابچہ سامنے تھا اس سے دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں لیکن دعا مانگنے کے لئے عجز و انکساری اور شرمساری چاہیے۔ دل کی گہرائیوں سے جو دعا نکلتی ہے وہی شرف قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے۔ ہمیں یہ تجربہ یہیں ہوا۔ یہاں سے مغرب کے بعد ہمیں مزدلفہ رات گزارنے کے کے لئے روانہ ہونا تھا۔

جو لوگ عرفات میں اپنے کیمپوں میں قیام کرتے ہیں انھیں بسیں ہی مزدلفہ لے کر جاتی ہیں۔ کیمپ چونکہ مسجد نمرہ سے بہت دور ہوتا ہے اس لئے وہ بسوں پر اس سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ عرفات سے مزدلفہ کے سات آٹھ کلومیٹر کے اس سفر میں بسوں پر تین سے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک عرفات میں شام ہونے پر ایک روشنی کا بڑا سا ایک گولہ فضا میں چھوڑا جاتا تھا جس کا مطلب ہوتا تھا کہ عرفات سے کوچ کرنے کا وقت ہو گیا ہے۔

لیکن اب روشنی کا گولہ فضا میں چھوڑا نہیں جاتا۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمارا قیام مسجد نمرہ کے عین ساتھ تھا اس لئے ہم مزدلفہ پیدل جانے والے ہر اول دستے میں شامل تھے۔ ہم سب تیار ہو کر مزدلفہ جانے والی سڑک پر کھڑے ہو گئے۔ ہم سے آگے بہت سے حجاج اکرام کھڑے تھے جن کا تعلق ہر رنگ ہر نسل ہر ملک سے تھا۔ ہمارے قافلے میں ہماری فیملی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی فیملی اور عبدالمجید صاحب اور ان کی بیگم شامل تھیں۔ چلنے سے پہلے سب نے یہ مشورہ کیا کہ کہ اب ساتھ ساتھ چلیں گے اور اکٹھے رہیں گے۔ شام کا اندھیرا پھیلنے پر کچھ ہل جھل شروع ہوئی اور ہم جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments