افغانستان: صدر اشرف غنی اور حریف رہنما عبداللہ عبداللہ میں اقتدار میں شراکت کا معاہدہ طے


افغان معاہدہ

افغانستان میں کئی ماہ کی سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کو ختم کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبد اللہ کے درمیان اقتدار میں شراکت کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

اس معاہدے کے تحت اشرف غنی ہی ملک کے صدر رہیں گے جبکہ دونوں رہنما مساوی تعداد میں اپنے اپنے وزیر منتخب کریں گے۔ جبکہ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رہا تو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی رہنمائی کریں گے

یہ امید کی جا رہی ہے کہ دارالحکومت کابل میں ہونے والا یہ معاہدہ گذشتہ برس کے متنازع صدارتی انتخابات سے قبل موجود طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

یاد رہے گذشتہ برس افغانستان میں ہونے والے انتخابات میں اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ، دونوں نے انتخابات میں جیت کا دعوی کیا تھا اور گذشتہ ماہ دونوں سیاسی حریفوں نے اس حوالے سے افتتاحی تقریبات بھی منعقد کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا امریکہ افغانستان میں طالبان کو دوبارہ واپس لا رہا ہے؟

امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد طالبان کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

’ایک ملک، دو صدور‘: افغانستان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟

افغان صدر اشرف غنی کی طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری

اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ

افغانستان کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی نے انتخابات معمولی برتری سے جیتے تھے تاہم عبداللہ عبداللہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کی گئی ہے۔

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس ےس چند دن قبل دارالحکومت کابل کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں مائیں، نوزائیدہ بچے اور نرسیں شامل تھیں۔

تاہم کسی بھی گروہ نے اس حملے کو ذمہ داری قبول نہیں کی تھی جس حملے نے افغانستان اور دنیا کو سکتے میں مبتلا کر دیا تھا۔

اقتدار میں شراکت کے معاہدے میں کیا ہے؟

افغان صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اس معاہدے پر اتوار کو دستخط کیے ہیں۔ دونوں رہنما پرانے سیاسی حریف ہیں اور سابقہ ​​حکومت میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ جو ایک سابق آنکھوں کے سرجن بھی ہیں نے معاہدے کی تقریب کے بعد ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ معاہدے ملک میں ایک ’مزید مشترکہ، جوابدہ اور قابل انتظامیہ‘ تشکیل دینے میں مدد ملے گی۔ اور اب ہمیں بحیثیت قوم ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے جو عملی ہیں۔‘

https://twitter.com/DrabdullahCE/status/1261986713670483970

صدر غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر عبداللہ کی ٹیم کے ارکان کے عہدوں کے بارے میں تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب افغان حکام یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں برسوں کے تشدد کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لیں گے۔

گذشتہ ماہ، طالبان نے یہ کہتے ہوئے مذاکرات سے دستبرداری اختیار کی تھی کہ افغان حکومت کے ساتھ کسی بھی روبرو بات چیت کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ مبینہ طور پر یہ مذاکرات امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر ختم ہو گئے تھے۔

ان مذاکرات کا مقصد جنگ کے خاتمے کی طرف ایک قدم تھا، لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکام قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے مطالبے غیر معقول ہیں۔

اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ (فائل فوٹو)

بی بی سی کی عالمی امور کی چیف نامہ نگار لیسی دوسیٹ نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان عوام ابھی تک گذشتہ ہفتے ہسپتال کے زچگی وارڈ میں حاملہ ماؤں اور نوزائیدہ بچوں پر ہونے والے ناقابل تصور حملے دوچار ہیں اور اس تاریکی میں روشنی کی کسی بھی کرن کا خیرمقدم کریں گے۔

کچھ لوگوں کو امید ہے کہ یہ معاہدہ سنہ 2014 کے معاہدے سے زیادہ مضبوط ہے جو فیصلہ کن بیرونی قوت امریکہ کے ذریعہ کیا گیا تھا لیکن بلاخر وہ ختم ہو گیا تھا۔

تاہم اقتدار میں شراکت کے اس معاہدے میں بھی وہی افراد اور مفادات شامل ہیں،وہ ہی ذاتی اور سیاسی چپقلشیں اور ماضی کے وہی رہنما اور جنگجو آج بھی ایک اذیت ناک تاریخ کی پہلی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

البتہ اب ملک میں متعدد بحران ایک ساتھ مل چکے ہیں جیسا کہ بڑھتا ہوا تشدد، مہلک کورونا وائرس کی وبا اور بہت زیادہ بھوک و افلاس۔

افغان عوام اب اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھے گی کہ وہ اپنے ذاتی سیاسی مستقبل سے پہلے قوم کے امن کو ترجیح دیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہونا ایک ایسا عمل ہے جس میں گہرا شک اور خطرہ ہے۔ یہ معاہدہ جنگ سے باہر نکلنے کے لیے ایک سیاسی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ اسے مضبوطی کے ساتھ قائم رکھنا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی بہت سی رکاوٹوں کے باعث یہ بھی ختم ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp