احتساب کے آرزو مند عوام کی درست ترجمانی


اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ کرپشن زدہ معیشت کسی بھی ریاست کو کھوکھلا کر دیتی ہے، پاکستان کے ماہر معاشیات اور سماجی اسکالرز کو اس کا بخوبی اندازہ ہے، مگر آج تک کسی بھی حکومت نے اس عفریت سے نبٹنے کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں بنایا، نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے، کیو نکہ بدعنوان عناصر کی کامیابیوں نے پوری قوم کو دولت کمانے کی دوڑ میں مگن کر دیا ہے، جائز اور ناجائز کی تفریق ختم ہو چکی ہے۔ ملکی اور قومی ترقی کے لئے لازم ہے کہ کرپشن زدہ معیشت کے عفریت سے آزاد ہوا جائے، اس کا تدارک چنداں مشکل نہیں، ہر فرد سے صرف یہ پوچھا جائے کہ وہ وسائل سے بڑھ کر شاہانہ زندگی کیسے گزار رہا ہے، اس کے ذرائع آمدن اس کے اخراجات سے مطابقت رکھتے ہیں کہ نہیں؟

اس کا حل موجود ہے قانون بھی موجود ہے، ادارے بھی موجود ہیں مگر صرف عزم اور مضبوط ارادوں کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کرپشن زدہ معیشت کی ہولناکی سے بخوبی آگاہ ہیں، مگر وہ اس ناسور کو اسی وقت جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوں گے کہ جب طاقتور ادارے اور آزاد عدلیہ ان کی پشت پر ہو گی۔ ہماری قوم اور اداروں نے دہشت گردی کے خلاف اعصاب شکن جنگ جیتی ہے۔ ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والی نادیدہ قوتوں کو بھی ہر محاذ پر شکست فاش دی ہے، اگر معاشی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم لے کر حکومت، ریاستی ادارے اور قوم دوبارہ ایک پیچ پر کھڑی ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کرپشن زدہ معیشت کو ٹھیک نہ کیا جا سکے، معیشت کی اصلاح ہو گی تو قومی، سماجی اور اخلاقی رویوں میں بہتری آئے گی۔

اس سلسلے میں نیب اور میڈیا پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر کرپٹ عناصر کو ہیرو کے طور پر نہیں، بلکہ معاشرے کے ناسور کی حیثیت سے پیش کرے، کرپٹ عناصر گرفتاری کے بعد بھی میڈیا کے سامنے انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر دکھا رہے ہوتے ہیں، ایسے افراد جنہوں نے اپنی ناجائز دولت سے قومی، سماجی، اخلاقی اور معاشی ناہمواری پیدا کی، نفرت کے قابل ہیں، قوم کو ان کا اصل روپ دکھانے اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی برائیوں سے آگاہ کرنے کی اشدضرورت ہے۔

اس میں شک نہیں کہ نیب کا ادارہ اپنے تئیں کرپٹ عناصر سے لوٹی گئی قومی دولت کی واپسی کی کوشش کر رہا ہے، چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی بدعنوان عناصر سے لوٹی گئی رقوم کی واپسی پر کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کرنے کا عزم دہرایا ہے۔ نیب کی زد میں آنے والے سیاسی حلقے سیاسی انتقام کے الزامات لگا رہے ہیں، مگر چیئرمین نیب نے واضح کیا ہے کہ نیب کا تعلق کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے نہیں، قومی لٹیروں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کو یقینی بنایا جائے گا اور جن افراد نے آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے، منی لانڈرنگ کی ان کے خلاف تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

قانون نافذ کرنے والے اور احتساب کے لیے قائم اداروں پر تنقید کرنا کوئی نئی بات نہیں، مگر اہم بات یہ ہے کہ اس تنقید کی نوعیت کیا ہے اور کون لوگ شکایت کر رہے ہیں؟ یہ سیاسی انتقام کی باتیں کرنے والے اور الزام تراشی کرنے والے وہی لوگ ہیں جواپنے ادوار میں احتسابی عمل کی باتیں کرتے رہے، لیکن اب نیب کی گرفت میں آنے کے بعد واہ ویلا مچارہے ہیں۔

میاں نواز شریف نے ہی اپنی پہلی حکومت میں احتساب سیل کے نام سے احتسابی ادارے کی بنیاد رکھی تھی، اس احتساب سیل کے سربراہ عدالتوں میں سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات پر نظر رکھتے تھے۔ عوام کو یاد ہو گا کہ ایک ایسے ہی مقدمے کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک عبدالقیوم کو ٹیلی فون کر کے میاں شہباز شریف اور سیف الرحمان بے نظیر بھٹو کو نا اہل قرار دینے کا کہتے رہے، ملک قیوم نے اس دباؤ کو قبول کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ دیدیا تھا۔

حکومتیں جب اداروں میں مداخلت کرتی ہیں اور کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتی ہیں تو اسی طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک قیوم اور شہباز شریف نے اس حوالے سے آج تک شرمندگی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ بعد ازاں دونوں سرکاری اور ریاستی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ایسی ہی انتقامی کارروائیوں کے باعث ملک سے باہر چلی گئی تھیں، دونوں سیاسی پارٹیوں نے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بھی بنائے اورمیثاق جمہوریت کے نام پر ڈیل ڈھیل کو بھی یقینی بنایا، مگر موجودہ دور میں اپنے خلاف احتساب کو سیاسی انتقام سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں سیاسی اور انتظامی اداروں میں لوٹ مارسے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں، یہ عمل مدتوں سے جاری ہے، جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کا بستر گول کر کے غلطی کی تھی، مگر بدعنوانی کے خلاف ان کے عزم سے لوگ متاثر ہو رہے تھے، لیکن انہوں نے بھی اپنے دور اقدار کو دوام دینے کے لیے سیاسی پارٹیوں سے خفیہ مذاکرات شروع کردیئے، جس کے نتیجے میں ان تمام مجرموں کو معافی دیدی گئی جن پر قتل، بدعنوانی، قبضہ، رشوت، تشدد، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کے مقدمات تھے۔

پیپلزپارٹی کے لوگوں پر عام طور پر کرپشن کے مقدمات تھے، لیکن ( ن) لیگ کے بہت سے لوگ دیگر جرائم میں نامزد تھے، جبکہ ایم کیو ایم کے بانی اور ان کے ساتھیوں کے ناقابل معافی جرائم سے بھی آنکھیں بند کر لی گئیں، یہ احتساب کے عمل میں سیاسی مداخلت کا افسوسناک واقعہ تھا۔ 2008 ء میں پیپلزپارٹی پھر سے اقتدار میں آئی اور ( ن) لیگ کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ کسی سیاستدان کے خلاف انتقامی مقدمات نہیں بنائے جائیں گے۔

اس دوران کئی سکینڈل بنے، اربوں روپے لوٹ گئے، لیکن تحقیقات کی خواہش نہ ہونے کے باعث احتسابی عمل غیر فعال رہا، اس کے بعد مسلم لیگ ( ن) برسر اقتدار آئی تو ایک ایک کر کے سارے وعدے فراموش ہونے لگے، ایک بار پھر مسلم لیگ ( ن ) اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے آئے، لیکن احتساب کے جس عمل کو میثاق جمہوریت کی چمپئن دو بڑی سیاسی جماعتوں نے فراموش کر دیا تھا، وہ تحریک انصاف کا مقبول نعرہ بن گیا، اسی نعرے اور احتسابی عزم نے تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا ہے۔

تحریک انصاف حکومت سے عوام اپنے وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لو ٹنے والوں سے حساب کتاب کیا جائے۔ حکومت نے احتساب کے معاملات نیب کے سپرد کردیئے ہیں جو ایک آزاد خود مختار ادارے کی حیثیت سے کام کرنے میں کوشاں ہے۔ چیئر مین نب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے برسہا برس سے التوا کے شکار مقدمات پر کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے نیب میں سیاسی مداخلت کو کم کرنے اور حکومت و اپوزیشن سیاستدانوں کے متعلق مساوی طرز عمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اہم اتحادی شخصیات کے خلاف معاملے کی تحقیقات کا آغاز ہوا تو وزیر اعظم سے شکوہ کیا گیا، لیکن وزیر اعظم نے پس پردہ حقائق آگاہ کرنے کے وعدے کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ نیب کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ نیب کے ادارے اور چیئرمین نیب کے خلاف حالیہ مہم کی وجہ سیاسی قائدین بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے خلاف بعض نئے معاملات میں پیشرفت ہے۔ سیاسی حلقے ایک بار پھر قانونی عمل کو ماضی کی سیاسی مداخلتوں جیسا قرار دے کر احتساب کا نظام مشکوک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک عر صہ دراز سے وطن عزیز کی معیشت اور سماج کو بدعنوانی کا گھن چاٹ رہا ہے، جس کا سد باب وقت کی اہم ضرورت ہے، اگر حکومتی اداروں نے لوٹی گئی رقوم کی واپسی کا عزم اور سیاسی مداخلت کا الزام مسترد کر کے احتساب کے آرزو مند عوام کے جذبات کی درست ترجمانی نہ کی تو پھر انہیں عبرت ناک انجام سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments