زکوٰۃ صدقہ اور فطرہ۔ علماء کنفیوژن ختم کیوں نہیں کرتے؟


زکوٰۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر مسلمان صاحب نصاب پر زکوٰۃ فرض کیا ہے قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر صلوة (نماز) کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے اقیموا الصلوٰۃ و آتوا الزکوٰۃ اس سے بھی زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم اسلامی ریاست میں زکوٰۃ ریاست کا معاملہ ہوا کرتا تھا اور ریاست کو ضرورت کے تحت اسے بالجبر وصول بلکہ کسی گروہ کے زکوٰۃ دینے سے انکار پر جنگ کا اعلان بھی کرنا پڑا اس لئے کہ زکوٰۃ کا منظم اور ریگولر آمدنی ریونیو سے مستحقین زکوٰۃ کی اعانت باسہولت کی جا سکتی تھی۔

خلافت اور اسلامی ریاست کے خاتمے کے بعد زکوٰۃ انفرادی معاملہ بن گیا اور غیر اسلامی ریاستوں میں بیت المال کا نظام چونکہ نہیں ہوتا ہے اس لئے ہر وہ مسلمان جو اللہ کے احکام کا پابند ہے وہ ذمہ داری سے اپنے اس فرض کو ادا کرتا ہے لیکن جس طرح فرض اولین نماز میں تساہل بہت عام ہے اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کسی میکانزم کی عدم موجودگی میں تساہلی ہوتی ہے۔ (مستحق کون ہے کہاں ہے اس تک کس طرح پہنچا جائے وغیرہ یہ ایک مسئلہ بنا رہتا ہے اس لئے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی، پوری ادائیگی یا بر وقت ادائیگی میں تساہلی دیکھنے میں آتی ہے ) کاش بیت المال کا نظام قائم ہوتا اور زکوٰۃ سے حاصل اس بڑی رقم کو منظم طور پر مستحقین کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کی جاتی اس رقم کو اچھے پروجیکٹ اور مشارکہ مرابحہ میں انویسٹ کیا جاتا اور لاکھوں مفلوک الحال بیواؤں یتیموں اور مدارس اسکول و کالج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مستحق زکوٰۃ غریب طلباء کی ٹیوشن، ہاسٹل فیس اور دیگر اخراجات اٹھایا جاتا۔

زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں عام مسلمانوں میں کنفیوژن پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ ذمہ دار ادارے مفتیان کرام اور متخصص علماء کی طرف سے واضح تصور پیش نہیں کرنا ہے۔ اگر ان علماء اور متعلقہ دینی اداروں کے ذہن میں واضح ہے بھی تو عوام میں اس کی تشہیر نہیں کی گئی کہ ایک سطر میں اپنی ضرورت سے زیادہ اتنی رقم پر اگر سال گزر گیا تو زکوٰۃ 2.5 % ادا کرنا فرض ہے۔ اسی طرح صدقہ الفطر اتنی مالیت والے شخص پر اتنی رقم یا اجناس واجب ہے۔

صاحب نصاب کے تعلق سے ساڑھے سات تولہ ( 87.5 گرام) سونا یا اس کی قیمت ( آج کے نرخ سے 3,69,340 ہندوستانی روپے ) اتنی شدت سے بیٹھا دی گئی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے آپ کو زکوٰۃ کی ادائیگی سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں اس لئے کہ ان کو ساڑھے باون تولہ چاندی ( 612.3 گرام) یا اس کی قیمت (آج کے در 45 روپے فی گرام کے حساب سے 27,700 ہندوستانی روپے ) کے برابر سرپلس روپے یا مال کا واضح تصور نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ آج کے گئے گزرے دور میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو چاندی کے اعتبار سے صاحب نصاب نہیں ہیں اور جن کو اپنے سرپلس مال و دولت پر ہر سال 2.5 % زکوٰۃ ادا کرنا نہیں ہے۔ اب یہ فقہاء و علماء اور متعلقہ دینی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح طور پر ایک متعین رقم کا اعلان کریں۔

زکوٰۃ اور صاحب نصاب کے علاوہ صدقہ اس ماہ مبارک کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پوچھتے ہیں کیا صدقہ کریں اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان سے کہ دیجئے العفو (قل العفو) یعنی جو اپنی ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ اس لئے یہ سوچ کر صدقہ و خیرات کرنے سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے کہ یہ تو دولت مندوں کی ذمے داری ہے۔

اسی طرح عید الفطر کے موقع پر صدقہ (فطرہ ) کے بارے میں متعین رقم ہر شخص کے ذہن میں نہیں ہے۔ ہر شخص گیہوں کی قیمت پچاس ساٹھ روپے دے کر بری الذمہ ہونا چاہتا ہے۔ کھجور کی قیمت تقریباً 700 روپے کوئی نہیں دیتا۔ جواز دونوں کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گیہوں امپورٹ ہوتا تھا اس لیے مہنگا تھا اس لئے نصف صاع دینے کو کہا گیا اور کھجور لوکل قیمت کم تھی اس لئے ایک صاع۔ آج کی تاریخ میں قیمت کے لحاظ سے اس کے برعکس ہے گیہوں تیس پینتیس روپے کلو تو کھجور تین ساڑھے تین سو روپے کلو۔

یہ تو فقہی مسائل ہیں ان پر عمل در آمد بھی ضروری ہے لیکن ہم سب کے ذہن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ فرمان ہمیشہ تازہ رہنا چاہیے :

اللہ کے پاس نہ تمہارے ذبیحہ کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ وہاں تو تمہارا تقوی تمہارے دل میں ذبیحہ کی قربانی کی نیت اور جذبہ پہنچتا ہے۔ دوسری آیت؛ تمہاری وہ نیکی اللہ تک پہنچتی جب تم اپنی وہ چیز جو تمہیں بہت عزیز ہے جس شے سے تمہیں محبت کرتے ہو (وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو ) تو اللہ سے آپ کا لگاؤ کتنا ہے یہی فیصلہ کرتا ہے کہ فطرہ کی رقم آپ گیہوں کی قیمت نکالتے ہیں یا استطاعت ہے تو کھجور کی قیمت!

صدقہ الفطر کا مقصد عید کی خوشیوں میں مساکین و غرباء کو شامل کرنا ہے انہیں بھی عید کے دن اچھے کپڑے اور اچھا کھانا مہیا کرانا ہے۔ ظاہر ہے جب عید سے قبل ہم انہیں پیسے دیں گے تو وہ کپڑے بنوا پائیں گے اور یوم عید کے خاص پکوان کے لئے ضروری اشیاء خورد و نوش خریدیں گے۔

ہر وہ شخص جو صاحب نصاب ہے، اس سے قطع نظر کہ اس مال پر سال گزرا یا نہیں، اس کو فطرہ ادا کرنا ہے۔

صدقہ الفطر (فطرہ) اپنے اور اپنی بیوی بچوں جو بھی اس کی کفالت میں ہے، کی طرف سے عید الفطر کی نماز سے قبل ادا کرنا واجب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments